بیٹیاں سب کی سانجھی نہیں ہوتیں۔۔۔۔قراۃ العین

بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں ۔۔۔یہ گئے وقتوں کی بات ہوتی تھی، جب دوسروں کی بیٹیوں کو بھی عزت کی نگاہ سے  یکھا جاتا تھا اور قابلِ احترام سمجھا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ  جب دشمن کی بیٹی یا بہو بھی صلح کے لیے  آجاتی تو اُس کی چادر کا مان رکھنے کے لیے  بڑی سے بڑی لڑائیاں ختم کردی جاتی تھیں۔ کسی کا داماد اگر آتا تو پورا گاؤں اس کو اپنا داماد سمجھتا تھا۔ لیکن خیر یہ تو گئے وقتوں کی بات تھی۔ اب میری بیٹی صرف میری بیٹی ہے۔ کسی دوسرے کے لئیے وہ صرف گوشت کی دکان ہے۔ جس کو ہر کوئی للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا رہتا ہے اور جیسے ہی موقع ملتا ہے اس کو نوچ کر، اپنی بھوک مٹا کر، کاٹ کر پھینک دیتا ہے۔
صنف نازک کسی بھی روپ یا عمر میں محفوظ نہیں رہی۔  بچپن ، جوانی ،بڑھاپہ  حتیٰ کہ اب تو قبر میں بھی نہیں ۔۔
جو لوگ عورت کے لباس کو مرد کی نظروں سے ٹپکنے والی ہوس اور منہ سے ٹپکنے والی رالوں کی وجہ ٹھہراتے ہیں ، وہ بتائیں کہ کسی معصوم بچی کے چہرے پہ موجود معصومیت سے زیادہ قابلِ رحم اور سفید کفن میں لپٹی عورت سےزیادہ خوف ناک شے کیا ہے؟
درندگی اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ انصاف کے حصول کے لیے بے بس بندہ صرف آسمان کی طرف نگاہیں اٹھا کر  ایسے درندوں کو نیست و نابود کرنے کی دعا ہی کر سکتا ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں نہ تو قانون ہے اور نہ ہی قانون سازی۔ ادھر تو اگر میں اپنی لاپتہ بچی کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے جاؤں تو مجھےکہا جاتا ہے کہ وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔ اور اگر مجھے اپنی لاڈلی کی بوسیدہ لاش کسی جنگل سے نوچی ہوئی اور جلی ہوئی مل جائے اور میں حاکم وقت کے سامنے دہائی کے لئے احتجاج کروں تو مجھ پہ لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں اور مجھے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ تم کیا تمہاری اوقات کیا؟ وہ بیٹی تو تمہاری ہے، تم جانو تمہاری اجڑی ہوئی گود جانے۔ میں کیا جانوں تمہارا دکھ۔ مجھے تو اپنے مخالفین کو نیچا دکھانا ہے۔ مجھے سیاست کے داؤ پیچ سیکھنے ہیں۔ میں نے دوسری پارٹی کے لوگوں پہ  کیچڑ اچھالنا ہے۔
اور اگر میری گڑیا کے تابوت پر کسی میڈیا نمائندے کی نظر پڑ جائے تو پھر مختلف سیاستدان اپنی سیاست چمکانے میرے گھر کے چکر لگائیں گے۔ میرے جذبات سے بے نیاز میرے دکھ سے نا آشنا صرف فوٹو شوٹ کروائیں گے ، رسمی سے دو بول بولیں گے اور چلتے بنیں گے۔
کائرہ صاحب کے بیٹے کی  ٹریفک حادثے  میں  موت کا ہر خاص و عام کو دکھ تھا۔ اور اس پر کافی احتجاج بھی کیا گیا کہ پاکستانیوں کے لئیے کچرا گاڑیاں کیوں بنائی جاتی ہیں جن میں ائیر بیگز نہیں ہوتے۔ اعلی حکام کو اس واقعے پہ  نوٹس لینے کا کہا گیا اور امید ہے کچھ عرصے تک اس کے لیے  موثر اقدامات کیے جائیں گے۔ جب کوئی حادثہ بڑے گھرپہنچتا ہے تو غریبوں کا بھی بھلا ہو جاتا ہے جیسے عمران خان کی والدہ کو کینسر تھا تو انہوں نے کینسر ہسپتال بنا دیا۔ ایک خاتون وزیر کو اسمبلی میں بچہ لانے پہ  نکال دیا گیا تو انہوں نے ہر سرکاری ادارے میں ڈے کئیر بنانے کا کہہ  دیا ،تو کیا ہم بھی اپنی بچیوں کو ان درندوں سے بچانے کے لیے  کسی بڑے گھر کی بیٹی کا ایسی ہی درندگی کا نشانہ بن کر مرنے کا انتظار کریں۔ تاکہ ان لوگوں کو بھی ہمارے دکھ درد کا احساس ہو اور ہمارے بچے محفوظ ہو سکیں۔۔۔بات کافی سخت ہے ،اللہ کریم سب کی بچیوں کی عزت محفوظ رکھیں ،لیکن بات سوچنے والی ضرور ہے۔۔۔۔ ہمارے احتجاج سے اور ہمارے واویلے سے تو حکمرانوں کے کانوں پر  جوں تک نہیں رینگتی تو پھر چلیں مل کر کسی عظیم سانحے کا انتظار کرتے ہیں ایسا سانحہ جو ہمارے بچوں کو ان وحشی درندوں سے بچا لے گا۔ تب تک ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ بیٹیاں سب کی سانجھی نہیں ہوتیں  بلکہ ہماری بیٹی صرف ہماری ہی بیٹی ہے اور ان کی حفاظت ہمیں خود ہی کرنی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply