ایک سیاسی پاگل کی ڈائری۔۔۔۔۔عبیداللہ چوہدری

سیاست بہت ظالم ہوتی ہے۔ یہ اب بادشاہت کی طرح نسل در نسل نہیں چل سکتی۔ نواز شریف کے دو بیٹے ہیں مگر سیاست ان کے بس کی بات ہی نہیں۔ ایک بیٹی ہے جو کوشش کر رہی ہے۔ اسی طرح بلاول کی ماں اپنے دونوں بھائیوں سے زیادہ بہتر سیاست دان ثابت ہوئی۔ اگر وراثت کی ہی بات ہوتی تو بینظیر کی جگہ مرتضی بھٹو پی پی پی کا جانشین ہوتا۔ بلاول اگر ناکام رہا تو فاطمہ بھٹو کی بات کی جاتی ہے۔ اب بھارت میں ہی دیکھ لیں راہول گاندھی پرفارم نہیں کر پا رہا۔وہاں پریانکا کا نام زور شور سے لیا جا رہا ہے۔ یہ طے ہے کہ جلد یا کچھ دیر سےخاندانی سیاست دم توڑ جائے گی۔ افغانستان میں تو کوئی سیاسی وراثت نہیں ۔ عجب ہے جب تک افغانستان میں بادشاہت رہی وہ ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا اور جب بدل بدل کر حکمران آئے ۔۔ملک کا بیڑہ غرق ہو گیا۔

اکثر پڑھے لکھے لوگ پاکستان جیسے ممالک کا موازنہ ترقی یافتہ جمہوری ممالک سے کرتے ہیں۔ جہاں جمہور باشعور اور سول ادارے مضبوط ہیں ۔ ہمارے جیسے ممالک میں ابھی جمہور اور اداروں کو ترقی یافتہ معاشرے میں تبدیل ہونے تک کا طویل سفر کرنا ہے۔ اور یہ سب جمہوری نظام کے تسلسل سے ہی ممکن ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حامی ایسا ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ وہ پاکستان کو فلاحی ریاست کی بجائے قومی سلامتی کی ریاست بنا کر “ مکھن “ کھاتا رہنا چاہتے ہیں۔ اب اس دلیل کے لیے بنگلہ دیش کی مثال لے لیں ۔ وہاں آج بھی شیخ مجیب کی لیگیسی ہے۔ اس کی بیٹی حکمران ہے۔ ملک فلاحی ریاست کے طور پر پاکستان کے مقابلے میں کہیں تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ وہاں شیخ فیملی کا اقتدار اگلی نسلوں تک نہیں چلنے والا۔

ہمارا ایک اور مسئلہ  زمینی حقائق کے بر عکس کتابی اور علمی حقائق کے مطابق سوچنا اور اس پر عمل ہوتے دیکھنا ہے۔ پاکستان بھی بدل رہا ہے۔ مگر اس بدلتے پاکستان میں ( عوامی راج) اور عوامی اداروں کی مضبوطی کے اہم مرحلےسے ناسمجھ سیاست دان ہر وقت اسٹیبلشمنٹ کے لئیے کام کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ اور ان سیاست دانوں سے امید لگائے ہوئے نومولود کارکن مخالفین کو جاہل قرار دینے اور غداری کے فتوے لگانے کا اہم فریضہ سر انجام دیتے رہتے ہیں ۔  ذرا سوچیے  ۔۔ عمران خان کے بعد پی ٹی آئی کا مستقبل کیا ہو گا؟ مجھے تو ق لیگ سے مختلف نظر نہیں آتا۔۔۔ تو پھر پہلے عوامی راج اور عوامی ادارے مضبوط کریں،جمہور کو باشعور کریں ۔۔۔ پھر آپ اپنے اعلی معیار بھی لگا لیں ۔

ایک اور مثال۔۔۔ سندھ شروع سے ہی پنجاب سے بہت پیچھے ہے۔ وہاں بھی جب ہم پنجاب کے معیار لگاتے ہیں تو سیاسی غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پنجاب کے اندر بھی جنوبی پنجاب بہت پسماندہ ہے۔ اسی طرح پختون خواہ اور بلوچستان، آزاد کشمیر کی بات ہے۔

ایک اور پہلو ۔ بائیں بازو نے اپنا حلیہ بدل لیا ہے۔ اب انہیں  کلین شیو اور جینز   پہچاننا مشکل ہو گیا ہے ۔ ان کی سیاسی پہچان یہ ہے کہ وہ اوپر سے نیچے کی طرف تبدیلی کے نعرے کے ساتھ ہیں۔ لیڈر ایماندار ہو گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا ایسا ہی ہو رہا ہے؟ کتنی ایماندار کابینہ ہے اور کتنی آزادی ہے اس حکومت کو۔ وزیر بدلنے تک کا اختیار نہیں۔ اب جج بھی بدلنے جا رہے ہیں۔ کیونکہ اب تک ملٹری کورٹس کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ تو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے جج اپنے لگا لو؟ جب پی ٹی ایم  کی بیرونی فنڈنگ کے ثبوت ہیں تو انہیں پکڑو جیل میں  ڈالو۔ مقدمہ چلاؤ اور سزا دو۔ مگر نہیں ۔ایسا نہیں ہو گا ۔ صرف غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹے جائیں گے۔ شور ہو گا ۔۔ سیاست کھیلی جائے گی۔

جب سے موجودہ حکومت آئی ہے۔۔۔ ترقیاتی بجٹ صفر۔۔۔اور دفاعی بجٹ میں ۲۰ فیصد سے زائد کا اضافہ؟ اور یہ ہی وہ نکتہ تھا جو پہلے والے لاڈلے نے ماننے سے انکار کیا۔ اسے ہٹایا۔ نیا لاڈلہ لا کر پیسے نکلوا لئیے۔ نیا مشیر خزانہ بھی اپنی پریس کانفرنس میں کہتا ہے۔ قومی سلامتی سب سے پہلے۔۔ ایک اندازے کے مطابق کل بجٹ کا ۴۰ فیصد محکمہ دفاع لے جاتا ہے ( ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ) ( پینشن اب سول کھاتے میں ڈال کر کم کر کے بتائی جاتی ہے) یہ ہے وہ خرچے جو بیرونی قرضوں کی بڑی وجہ بھی ہیں ۔ اور ان کا آڈٹ ۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آئی جی ایف سی بلوچستان اربوں روپے کی کرپشن میں پکڑا جاتا ہے۔ ایک ایڈمرل کا قصہ بھی یاد ہو گا۔ اور ایکشن ۔۔۔ نوکری سے استعفی۔اور بس کیس ختم ۔ پچھلے ۴ آرمی چیف آجکل کہاں رہتے ہیں؟ جرنل اسد درانی RAW کے سابقہ چیف کے ساتھ مل کر کتاب لکھتا ہے۔ سزا ۔ پنشن اور بینیفٹس ختم۔۔۔ اور اگر  ایک سول حکمران بھارتی وزیر اعظم سے بھی مل لے   تو جو مودی کا یار ہے ۔۔۔ غدار ہے۔ واہ واہ۔ بلی کے گلے میں کیا خوب گھنٹی باندھی گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عوامی راج کے راستے میں موجودہ سیٹ اپ نے جو رکاوٹ ڈالی ہے ۔ وہ زیادہ دیر کھڑ ا رہنے والا نہیں۔ جتنی کمزور یہ حکومت ہے، جتنی بے بس یہ حکومت ہے۔ اتنی کوئی بھی سابقہ حکومت نہیں رہی۔ کیونکہ اب جمہور — جس نے ۱۹۷۰ سے آزادی کا سفر شروع کیا تھا۔ تھوڑی دیر کیلئے یہ سفر رکا ضرور ہے۔ اب ضیا الحق اور مشرف کی جگہ نیا طریقہ واردات ہے۔ مگر یہ سفر جلد دوبارہ شروع ہو گا۔
جمہوریت کا تسلسل  ہی سب سے بڑا علاج ہے۔ یہ علاج بڑے بڑوں کو کھا جاتا ہے۔ جیسے بھارت میں گاندھی خاندان کو کھا گیا ہے۔ بےنظیر اب قابو میں نہیں رہی۔ ہٹا دو راستے سے! نواز شریف اب بات نہیں مان رہا۔ ڈال دو جیل میں۔ اور جب جب ان کی بات نہیں مانی جاتی۔ تب تب نیا سیٹ اپ آ جاتا ہے۔قوموں میں تبدیلی بڑی سست رو ہوتی ہے۔ اس کیلئے نسلیں قربانی دیتی ہیں۔ یو کے میں ۱۹۳۰ تک عورتوں کو ووٹ کا حق نہیں تھا ۔ اب تک وہاں صرف دو خاتون وزیر اعظم آ ئیں ہیں۔ امریکہ میں آج تک کسی خاتون کو صدارت کے قابل نہیں سمجھا گیا! تبدیلی اپنے وقت سے آتی ہے اور وہ بھی جب سمت درست ہو اور منزل کا ادراک بھی۔

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply