جینے کے لیے جینا

’’جینے کے لیے جینا مجھے گوارہ نہیں‘‘ یہ الفاظ مو ہن داس کرم چند گاندھی کے ہیں جس نے اپنی ساری زندگی خدمت خلق کے لیے وقف کر دی تھی‘ مشکل ترین حالات کا سامنا کیا‘ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں‘ ماریں کھائیں لیکن جہاں کسی کے حقوق کے لیے لڑنے کی بات آئی وہاں سے پیچھے نہیں ہٹا۔ نو آباد یاتی نظام کے تحت جنوبی افریقہ بھیجے گئے ہندوستانیوں کے حقوق کی بات ہو یا ملک کے دوردراز علاقے میں بسنے والے کسانوں کو استحصالی نظام سے چھٹکارا دلانے کی ‘ گاندھی نے ہمیشہ حق کی آواز کا علم بلند کیا۔ ایسا لیڈر جسے حقیقی معنوں میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ لیڈر تھا جس نے سب سے پہلے اپنے آپ کو تختہ مشق بنایا‘ زمینیں و جائیدادیں نہیں بنائیں‘ ہمیشہ تیسرے درجے میں سفر کیا‘ سادگی و فقرفاقہ کو اپنا شعار بنایا‘ ہندوؤں میں رائج ذات پات کے نظام سے بیزاری کا اظہار کیا‘ کسی بھی قسم کے اکٹھ میں اپنے ہاتھ سے صفائی ستھرائی کی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھایا‘ برہمچاری بننے کے لیے سخت محنت کی اور ساری زندگی اپنے اصولوں پر سختی سے کاربند رہا۔ ایسے لوگ ہی انسانیت کے محسن ہو تے ہیں اور تاریخ انہیں مہاتما جیسے القاب سے یاد کرتی ہے۔
رب کائنات نے اس دنیا کی رنگینی کے لیے انسان و حیوانات کو پیدا کیا۔ حیوانات حضرت انسان کی خدمت پر مامور‘ پیٹ بھرنے اور شہوات کی تکمیل تک محدود اور عقل و فہم سے دور ہیں جبکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک مقصد کے تحت زمین پر عقل و فہم کی دولت سے نواز کر بھیجا۔ اگر یہی اشرف المخلوقات اپنے مقصد کو بھول جائے اور صرف خواہشات کو اپنا قبلہ بنا لے تو پھر یہ انسان نہیں بلکہ حیوانوں سے بھی بد تر مخلوق بننے لگتا ہے۔ کھانا پینااور شہوانی خواہشات ہی اوڑھنا بچھونا بن جائے تو پھر برائی‘ برائی نہیں رہ جاتی‘ ہر جائز و نا جائز کام کے لیے رشوت لینا و دینا معیوب نہیں سمجھا جاتااور کسی کی عزت و مال کی حرمت بے وقعت ہو جاتی ہے۔مالک دو جہاں نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیالفظ عبادت اپنے اندر ایک وسیع مفہوم سموئے ہوئے ہے جو کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مشتمل ہے یعنی معبود برحق کے ہر حکم کی تعمیل کا نام ہے۔ سجدے کر کر کے ماتھے اور ٹخنوں پر نشان پڑ جائیں اور دل میں مخلوق خدا کے لیے حسد کینہ اور بغض پلتا رہے تو اسے عبادت نہیں کہتے۔ دوسرے لفظوں میں اگر نگاہ ڈالی جائے تو زندگی کا مقصد فلاحِ انسانیت ہی نظر آتا ہے۔ جہان فانی میں اگر کسی کے کام آیا جا سکے تو اس سے بڑی سعادت کیا ہو گی مختصر سی زندگانی میں جینے کے لیے جیا جائے اور اسی حالت میں موت آ جائے تو یہ بیکار اور بے فائدہ گزری۔
سفر کا مزہ تب ہی آتا ہے جب کوئی منزل ہو بغیر منزل کے سفر‘ سفر نہیں بلکہ آوارگی ہو تی ہے لہٰذا زندگی کو ایک مقصد کے تحت گزارنا چاہیے جس میں ترجیحات واضح ہوں۔
بنا مقصد کے زندگی فضول اور پھیکی جبکہ اس کے برعکس رنگین اور مزے سے بھر پور معلوم ہو گی۔ہمیشہ مثبت سوچ کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اس تصور کو پنپنے نہیں دینا چاہیے کہ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا‘ یہاں تو سارے بد عنوان ہیں میرے اچھا ہو نے سے کیا فرق پڑے گا‘ میں کون سے تیر مار لوں گا‘ کم از کم اپنے حصے کا دیا روشن کرنے کی کوشش تو کرنی چاہیے اگر ہر کوئی پانی کی بالٹی ہی ڈالے گا تو دودھ کہاں سے آئے گا۔ کامیاب اور عظیم لوگ وہی ہوتے ہیں جو دنیا کو بدلیں نہ کہ وہ جن کو دنیا بدلے ویسے بھی انسان کا کام اپنی طرف سے کوشش کرنا ہے کامیابی یا ناکامی اس کے اختیا ر میں نہیں۔ سرکاری اداروں میں جعلی ٹی اے ڈی اے کا دعویٰ کرنا معمولی بات ہے ‘ میرے ایک دوست نے ملازمت شروع کی تو نئے سیکشن میں اسے بھی ایسا کرنے کے لیے کہا گیا تو اس نے تعجب کا اظہار کیاکہ میں تو پورا مہینہ کہیں گیا ہی نہیں تو ایسا کیوں کروں۔ باقی ساتھیوں نے اس کا مذاق اڑایا اور کہا کہ اکیلے تمہارا ایسا کرنے سے کیا فرق پڑ جائے گالیکن اس نے کبھی ٹی اے ڈی اے کا دعویٰ نہیں کیا‘ وہ بھی اگر اپنے ساتھیوں جیسی سوچ رکھتاتو تبدیلی کیسے آ سکتی تھی‘ کم از کم اس نے اپنی ذات کی حد تک تو برائی کو روکنے کی کوشش کی۔ ایسی محفل سے بھی کنارہ کشی ضروری ہے جو ہمیشہ منفی رجحانات کے حامل خیالات کو تقویت بخشے اور ہر معاملے میں حوصلہ شکنی کرے کہ تم تو ایسا کر ہی نہیں سکتے‘ تم سے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا ایسے حلقہ احباب کا انتخاب کرنا چاہیے جو تعمیری سوچ کا حامل ہو‘ ہر معاملے میں حوصلہ افزائی کرے کہ تم کر سکتے ہوکوشش تو کرو‘ جنہوں نے یہ کام کیا ہے وہ بھی تم جیسے ہی ہیں کوئی خلائی مخلوق نہیں ہیں۔ انسان کا کام تو صرف محنت اور کوشش ہے
توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر!
مالی دا کم پانی دینا تے بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پھول لانالاوے یا نہ لاوے۔
مقصد حیات کا کم عمری میں سمجھ آ جانا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ کم سنی میں ہی عوام الناس کی فلاح و بہبود کا جذبہ پیدا ہو جانا اور اس کے لیے عملی اقدامات اٹھانا تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت کا نتیجہ ہے۔ ہماری ایک رفیق کار بہن نے سی ایس ایس امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے جس میں جذبہ ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے جو اپنے طور پر اختتام ہفتہ غریب و نادار بچوں کو پڑھانے کا بندوبست کرتی ہے ‘ رمضان المبارک میں ضرورت مندوں کے لیے افطاری کا انعقاد کرتی ہے اور دوسروں کی بھلائی و خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ اخلاقیات کی دولت سے مالا مال ایسے نوجوان دوسروں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ میرے نزدیک اس بہن کی کامیابی کے پیچھے دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ جذبہ ہمدردی کے نتیجے میں حاصل ہو نے والی دعاؤں کا اثر ہے۔ نیک سیرت اور اچھے اخلاق کے حامل نوجوانوں سے مل کر سب سے پہلے ان کے والدین کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ انہوں نے اپنے بچوں کی کیسی اچھی تربیت کی ہے۔ میری دعا ہے کہ چیلنجز سے بھر پور کیرئیر میں رب کریم اسے کامیابی سے نوازے‘ دوسروں کی خدمت کرنے کی توفیق دے اور والدین کو صحت و تندرستی عطا فرمائے۔
(ہیچمداں)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply