نمائشِ کرب و بلا۔۔۔صائمہ بانو

ان صاحبہ کی گفتگو سنتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ذات کی ایک اندھیری کوٹھری میں کوئی ننھی سے بچی ہے جو سسک رہی ہے, اس کی سسکیاں تھمتی ہیں تو اچانک ماحول بدل جاتا ہے۔ منظر نامے پر ایک نیا نظارہ (سین) ابھرتا ہے۔ شدتِ گریہ سے سرخ اور نم آنکھیں اٹھا کر جب وہ ننھی بچی اوپر دیکھتی ہے تو ہوائیں گواہی دیتی ہیں کہ اس کے رخسار آنسوؤں کے نمکین تیشوں سے چھل چکے ہیں۔ اچانک ایک قد آدم آئینہ نمودار ہوتا ہے اور اس کے عکس میں یہ ننھی سسکتی ہوئی بچی نئے اوتار میں ڈھلتی ہے۔ اب وہ ایک حسین ان چھوئی دوشیزہ بن چکی ہے, چمکتا بھڑکتا لباس, نگاہ کو خیرہ کرتے ہوئے گہنے, دلوں میں ہلچل مچاتی ہوئی بے باک و من موہنی جوانی سے حشر خیز جادو جگاتی ادائیں, قدموں میں گھنگھرؤں کی بیڑیاں پہنے ہوئے ایک نوخیز کلی کی طرح مہکار بکھیرتی ہوئی دوشیزہ۔ روشنی کا ہالہ (سپاٹ لائٹ) ایک نقطے سے بدل کر بتدریج بڑھتے بڑھتے دائرے کی شکل دھار لیتا ہے, سامنے بیٹھا مجمع پُر زور انداز میں اپنی تالیوں, رکیک جملوں سیٹیوں اور بیہودہ اشاروں و کنایوں کی مدد سے دوشیزہ کو سراہتا ہے بلکہ یوں کہیے کہ یہ ایک موب, بلوائیوں کی طرح اس پری اندام کی روح پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ روح کی یہ موب لنچنگ محض تماش بینوں کو ہی نہیں بلکہ تماشۂ محفل کو بھی بھڑکا دیتی ہے اور پھر رقص اور اعضا کی شاعری کے نام پر, وجود, روح, احساس, اعضاء اور ماحول میں موجود توازن و ردھم کو بُری طرح مجروح  کیا جاتا ہے۔

ایک لمحے کو تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سارنگی, طبلہ, ستار, پیانو, بانسری, باجے اور تالیاں سبھی بے توازن ہو چلے ہیں, شاید وہ سر و تال بھول بیٹھے ہیں یا کوئی آسیب ہے جو ان آلاتِ موسیقی کی تاروں پر راگ و راگنیوں سے مدھرتا بکھیرنے کے بجائے بہت بے دردی اور سفاکی سے ان پر ہاتھ مارتا چلا جا رہا, شور بڑھتا جاتا ہے, تماشۂ محفل (رقاصہ) بنا کسی نرت بھاؤ, ادا اور ماتروں کی پرواہ کیے, بے ربط و بے ہنگم سی جھومتی چلی جاتی ہے۔ ایک کونے میں ہستک, تتکار, چکر, ماترے, ساز و سازندے, ردھم و توازن چِلا اٹھتے ہیں لیکن بلوائیوں کا مجمع اپنے بدبودار بھبھکے دیتے جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسا طوفانِ باد و باراں اٹھاتا ہے کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی۔

یکایک روشنی کا ہالہ (سپاٹ لائٹ) سمٹنے لگتا ہے, تماش بینوں کا جوش و خروش اور تماشۂ محفل کی جان و جسم ٹھنڈے پڑنے لگتے ہیں۔ اب ساز, سازندوں, سر, تال, راگ اور راگنیوں کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں, روشنی کا وہ بڑا سا ہالہ نما دائرہ سمٹتے سمٹتے دوبارہ نقطے کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو نوحہ گروں کے نوحے بلند ہوتے ہیں, تماش بین نیم غنودگی کے عالم میں عقبی دروازے کی جانب بڑھتے ہیں۔
پھر وہی قد آدم جادوئی آئینہ, وقت کی چوکھٹ پر آن کھڑا ہوتا ہے دوشیزہ اپنا عکس دیکھنے کو لپکتی ہے تو درد سے چِلا اٹھتی ہے کہ یہ کون ہے, آئینے میں ایک ڈھلتی عمر کی عورت اپنے جسم کی بے ضابطگیوں اور روح کے زخم دیکھ کر تڑپنے لگتی ہے۔ اس کے چہرے کے خد و خال تباہ حال ہیں۔ جھریوں, اداسی, درد اور ملال کے بخشے ہوئے تازیانوں کے وار سے جوانی, شادابی, حسن اور تازگی شکست خوردہ دکھائی دیتی ہیں۔

اب وقتِ رخصت آن پہنچا, فاصلے سمٹتے ہیں, وقت سر جھکائے آگے بڑھتا ہے, روشنی بجھنے کو ہے, فضاؤں میں سسکیاں اور نوحے دم توڑ رہے ہیں, تماشۂ محفل ایک زندہ لاش کی طرح خامشی سے واپسی کی راہ لیتی ہے اور سناٹا چِلا اٹھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

وقت ایک نیا بازیچہ سجاتا ہے, فاصلے مٹتے ہیں, شعبدہ بازوں کی نئی کھیپ بے ترتیب مجمع کی شکل میں زمانے کی ترتیب اُلٹنے پھر سے آن پہنچی ہے, اب نظارۂ جمال عام ہو گا, سوانگ رچایا جائے گا, نئے کرتب دکھائے جائیں گے, بازی گروں کا ہجوم خبط اور خلل کے سبب بے قابو ہوا جاتا ہے اور اس سے پہلے کہ تماش بین اک تماشہ اٹھا دیں۔ روشنی کا ہالہ نقطے سے دائرے میں بدل جاتا ہے اور ایک نیا تماشۂ جمال و حسن اپنے بلوائیوں کے شور و شغب کو تسکین و طمانت عطا کرتے ہوئے وہی پرانی بے ہنگم نمائشِ کرب و بلا کی آیات دہرانے کو آ پہنچتی ہے۔

Facebook Comments

صائمہ بخاری بانو
صائمہ بانو انسان دوستی پہ یقین رکھتی ہیں اور ادب کو انسان دوستی کے پرچار کا ذریعہ مان کر قلم چلاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply