شرعی طہارت اور کلچری مذہب۔۔۔عامر کاکازئی

ہندوستان میں جب اسلام پھیلا تو آہستہ آہستہ کلچر مذہب پرحاوی ہوتا گیا۔ اسی طرح ہندوستان کے مسلمانوں نے جہاں اپنے مقامی کلچر کو اسلامی بنانے کی کوشش کی وہاں عرب کلچر کو بھی اسلام کا حصہ سمجھ کر اپنانے کی کوشش کی اور جب بھی کوئی نئی ایجاد یا طریقہ آیا تو اسے کفر سمجھ کر اپنانے سے انکاری ہوئے۔

اسی سلسلے میں جسم کی صفائی سے منسلک ایک کام جسے ہم طہارت کہیں گے،بھی شامل ہے۔ آج سے ستر اسّی سال پہلے تک سیورج سسٹم نہیں تھا۔ گھروں یا باہر نکل کر کھیتوں میں فارغ ہوا جاتا تھا۔ ملا نے اس عمل میں جس چیز کو شرعی طہارت کانام دے کر پروموٹ کیا ، وہ تھا تین کنکر یا ڈھیلوں کا استعمال۔

آج کل کے لوگ رفع حاجت کے بعد پانی کے استعمال سے طہارت حاصل کرتے ہیں۔ مگر اس زمانے میں ملّا نے مشہور کیا ہوا تھا کہ اگر پیشاب کا قطرہ کپڑے پر لگ گیا تووہ سیدھا جہنم کی اَگ میں جلے گا۔اس لیے جہنم کی آگ سے بچنے کے لیے شرعی طہارت پر عمل کرنا بہت ضروری تھا۔ اس دور میں پانی کے ساتھ استنجا سے پہلے ایک اور عمل بھی تھا، تین کنکر یا ڈھیلے کا استعمال۔عموماً کھیت ہی اس کام کے لیے استعمال ہوتے تھے ، مگر ایک چیز ضروری تصور کی جاتی تھی، وہ یہ کہ فارغ ہو کراُٹھتے تو ان کے دائیں ہاتھ میں ازار بند اور بائیں ہاتھ کنکر سمیت شلوار کے اندر ہوتا کہ سب کو ثبوت ملے کہ شرعی طہارت حاصل کی جا چکی ہے۔ یہ فعل کھڑے ہو کر اور کبھی کبھی چلتے چلتے بھی کیا جاتا۔ بیٹھ کر کرنے میں شاید اس فعل کو مکروہ تحریمی تصور کیا جاتا تھا۔

یہ سب ہمیں محمد انور عباسی صاحب کی خود نوشت “متاع شام سفر “سے پتہ چلا کہ کیسے ایک نیچرل پروسس کو شرعی نام دے کر اسے مذہب کا مستقل حصہ بنا دیا گیا۔

انور عباسی صاحب اپنے سعودیہ کے قیام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔
ایک دن ہمارا سعودی ساتھی فریاد کرتا ہوا آیا کہ تم پاکستانی بہت گندے ہو، پوچھا کہ کیا ہوا تو آگے سے پھٹ پڑا اور بولا کہ ایک پاکستانی سڑک کے کنارے یہ نامعقول حرکت کر رہاتھا۔ اور بولا کہ اس فعل پر تو فاعل کو کوڑوں کی سزا ہو سکتی ہے۔سب لوگ ایک طرف تھے اور ہم واحد پاکستانی شرم سے منہ چھپاتے پھر رہے تھے۔

کافی عرصہ بعد جب انگریزوں کا سیورئج کا سسٹم عام ہو گیا تب بھی یہ طریقہ طہارت مساجد کے ٹوئلٹس میں پایا جاتا تھا۔ کافی مساجد میں نمازیوں کی سہولت کے لیے پتھروں کی سپلائی کا انتظام ہوتا تھا۔ لیکن جب کموڈ کی نکاسی کا راستہ بار بار ان پتھروں کی وجہ سے بند ہونے لگا تو مساجد کے وضو خانوں کے باہر یہ نوٹس نظر آنے لگے۔۔۔کہ “پتھر کموڈ میں نہ پھینک کر ثواب دارین حاصل کریں”۔ بعد میں یہ طریقہ طہارت مساجد سے بھی آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔

صحرا ہونے کی وجہ سے عرب میں شاید پانی کا مسئلہ تھااس لیے کنکر استعمال کیے گئے، مگر ہندوستان میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ پانی وافر مقدار میں موجود تھا۔ مگر ایک مقامی عرب روایت کو مذہبی رنگ دے کر اسے مذہب کا حصہ بنا دیا۔

کچھ عرصہ پہلے پشاور کے مضافات میں کام کے سلسلے میں ایک تبلیغی کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ خوبصورت اور جدید تعمیر کا نمونہ مگر عجیب بات اس گھر میں یہ تھی کہ کسی بھی کمرے کے ساتھ اٹیچ ٹوائلٹ نہیں تھا۔ بلکہ سارے ٹوائلٹ گھر کی مین بلڈنگ سے دور تھے۔ جب صاحبِ گھر سے وجہ معلوم کی تو انہوں نے کہا کہ ایک روایت کے مطابق حاجت کے ان مقامات میں خبیث مخلوق شیاطین وغیرہ رہتے ہیں۔ کیوں کہ یہ گندی جگہیں جنات و شیاطین کا مسکن ہوتی ہیں اور یہ مخلوق ان جگہوں پر آکر فراغت حاصل کرنے والوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی ہے، اس لیے ان کوگھر سے دور بنانا چاہیے۔اس طرح مسلمان شریر جن اورشریر جنّیوں کے اثرات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔(یہ شکر کہ جدید انڈین ٹوائلٹ کے ساتھ پانی موجود تھا، پتھر نہیں تھے) ۔

گو کہ یہ طہارت کا پتھروں والا طریقہ ختم ہو چکا ہے مگر تبلیغی اور پختون خوا کے دور دراز کے گاوں کے باسیوں نے ابھی تک اس طریقہ طہارت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ دیوبندیوں کے نزدیک ابھی تک طہارت کا پتھر والا طریقہ سنت طریقہ ہے۔ دارلعلوم دیوبندی کی سائٹ پر یہ عبارت درج ہے کہ ” درحقیقت یہ دشمنانِ اسلام کی سازش ہے ، کہ مسلمانوں کو ان کے پیغمبر علیہ السلام کی مبارک سنتوں سے اتنا دورکر دیا جائے کہ وہ اپنے ہی مسلم معاشرے میں اپنے نبی کی اتباع میں عار محسوس کریں”۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس مضمون کا کانٹنٹ اور کانسپٹ، محترم جناب محمد انوار عباسی کی خود نوشت “متاع شامِ سفر” سے متاثر شدہ ہے۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply