• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اسحاق ڈار آئی ایم ایف کو کتنا جانتے ہیں؟/آصف محمود

اسحاق ڈار آئی ایم ایف کو کتنا جانتے ہیں؟/آصف محمود

اسحاق ڈار صاحب نے عمران خان جیسے لہجے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ایک تو آپ نے گھبرانا بالکل نہیں ہے کیوں کہ آئی ایم ایف کو تو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔

سوال مگر یہ ہے وہ آئی ایم ایف کو کتنا جانتے ہیں ؟ نیز یہ کہ اگر آئی ایم ایف بھی انہیں اچھی طرح جانتی ہوئی تو پھر ہمارا کیا بنے گا؟

یہ ہیرو ، سپر مین اور ٹارزن کا تصور عمران خان نے متعارف کرایا۔عوام کے سامنے کوئی منصوبہ یا لائحہ عمل رکھنے کی بجائے صرف یہ کہا گیا کہ بس ایک دیانت دار کپتان کے آنے کی دیر ہے پھر ویرانے میں کوئلیں بولیں گی ، دسمبر گرم رہا کرے گا اور جون میں برفیں پڑیں گی۔ ایک ہی دعویٰ  تھا، کپتان سب جانتے ہیں ، ڈاؤلینس کی طرح ان کا نام ہی کافی ہے، سرف ایکسل کی طرح وہ سارے داغ دھو ڈالیں گے اور ائیرلڈائٹ کی طرح ہر توڑ کا پکا جوڑ بھی کپتان ہی کے پاس ہے۔ بس اب کوئی سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں ، کرنے کا کام یہی ہے کہ کسی طرح اس رجل رشید کو اقتدار تک پہنچا دیا جائے۔ مغرب کو تو وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں ، انقلاب کے تو وہ ایسے ماہر کہ آیت اللہ کو بھی لیکچر دے آئے کہ آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیر امم کیا ہے ، معیشت کے ایسے ماہر کہ ترکی اور ملائیشیا کی رہنمائی فرماتے رہے ، داتا سوڈا واٹر کی طرح جہاں بھی گئے اپنے نام کے جھنڈے گاڑ آئے ۔ ازبکستان گئے تو فرمایا ازبکستان کو تو میں ازبکستان والوں سے بھی بہتر جانتا ہوں ۔ ماشیات ( معیشت) سے روحونی یات ( روحانیت) تک اور غزل سے لے کر کبڈی تک کون سا معاملہ تھا جس پر آپ کی ماہرانہ دسترس نہ تھی؟ لیکن انجام کیا ہوا؟

اب کیا اسحاق ڈار حسن و وجاہت اور بصیرت و حکمت کی وہ داستان وہیں سے شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں عمران خان اسے ادھورا چھوڑ گئے؟ عمران خان کی طرح اب اسحاق ڈار سے بھی کوئی سوال نہ پوچھا جائے کہ وہ بھی معیشت کی دنیا کے ہینڈ سم ہیں، بس اب وہ آ گئے ہیں اب معیشت کے ہر توڑ کا پکا جوڑ انہی کے پاس ہے ، سارے داغ بھی اب وہی دھو دیں گے ؟ ایرل ڈائٹ بھی وہی ہے ، ڈاؤلینس بھی وہی ہیں اور سرف ایکسل بھی۔ اس پر مزید یہ کہ جیسے عمران خان دنیا کی ہر شے اور ہر ملک کو اچھی طرح جانتے تھے ، ایسے ہی اسحاق ڈار آئی ایم ایف کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایک کا دعوی ٰ تھا کہ سارا ملک اسے سونپ کر ساری قوم جاڑے میں دھوپ تاپے کیوں کہ ایک تو آنے والا ہینڈ سم بہت ہے اور دوسرا وہ دنیا کی ہر شے کو اس شے سے بھی اچھی طرح جانتا ہے اور دوسرے کا دعویٰ  ہے کہ کہ کل تک جو ملک دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار تھا اب بغلیں بجانا شروع کر دے کیونکہ آئی ایم ایف کو تو ان سے بہتر کوئی جانتا ہی نہیں۔

سپر مین کا یہ تصور ہمیں صرف پاکستان میں ملے گا۔آپ سے کہا جائے گا ملک کے انتہائی سنگین اور سنجیدہ مسائل پر آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ملک ، اس کی معیشت ، اس کا سب کچھ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ کسی بھی پالیسی پر کبھی بھی یہاں با معنی بحث نہیں ہونے دی جاتی۔ کسی بھی شعبے میں سوال اٹھانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ باشعور سماج کی بجائے سب کو ایک بے شعور ہجوم پسند ہے جو ریوڑ کے ساتھ یہ سوچ کر سر جھکائے چلتا جائے کہ چرواہا سب جانتا ہے۔ اسحاق ڈار یقینا معاشی ماہر ہوں گے ، ان کی قابلیت سے انکار نہیں لیکن ان پر سوال کسی عام آدمی نے نہیں اٹھایا تھا ، نہ ہی سوال اٹھانے والے کا تعلق حزب اختلاف سے تھا۔ ان کی پالیسی پر تحفظات کا اظہار مفتاح اسماعیل نے کیا تھا جن کا تعلق ن لیگ سے ہے اور بھی کل جو اس معیشت کے وزیر تھے۔ان کے سوالات کو اور ان کے تحفظات کو محض یہ کہہ کر ہوامیں نہیں اڑایا جا سکتا کہ وہ تو ’ بچے‘ ہیں اور اسحاق ڈار تو آئی ایم ایف کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔وہ اتنے ہی بچے تھے تو ن لیگ کی حکومت نے انہیں وزارت کیوں دی تھی؟ معیشت نہ تو کبڈی کا میدان ہے کہ کوئی ذاتی شجاعت سے سرخرو ہوجائے نہ یہ کوئی مقابلہ حسن ہے کہ کوئی اپنے حسن و جمال سے کامیاب ہو جائے۔ یہ علم و ادب کی دنیا بھی نہیں ہے کہ کوئی صاحب علم آئے اور اپنی فکری وجاہت سے میدان مار لے۔ یہ پورے ملک کا حساب سودو زیاں ہے۔ اس کے ساتھ ملک کا مستقبل وابستہ ہے، اسے فرد واحد پر کیسے چھوڑا جاسکتا ہے؟

اس بات سے انکار نہیں کہ کوئی فرد واحد غیر معمولی خوبیوں کا مالک ہو۔ اسحاق ڈار بھی ، ہو سکتا ہے ، معیشت کی دنیا میں غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہوں۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ معیشت انفرادی واردات ہے ہی نہیں۔ یہ ادارہ جاتی عمل ہے۔ان کے پاس اگر صلاحیت ہے تو اسے ادارہ جاتی بصیرت میں ڈھلنا چاہیے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ملک ایک فرد واحد پر بھرسہ کر کے بیٹھ جائے کہ وہ چونکہ اب آ گیا ہے اور وہ آئی ایم ایف کو اچھی طرح جانتا ہے اس لیے اب سب خیر ہو گی؟

قوموں کے معاملات ایسے نہیں چلتے اور اگر چلتے بھی ہوں تب بھی قومیں اس ون میں شو کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔کم از کم مسلم لیگ کی داخلی حد تک یہ ہونا چاہیے کہ اسحاق ڈار صاحب کی جو بھی معاشی حکمت عملی ہے اسے ادارہ جاتی حیثیت دی جائے۔ ایک سیاسی جماعت کو تو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی معاشی پالیسی کیا ہے اور معاشی باٹم لائن کیا ہے۔یہ تو غیر منطقی اور مضحکہ خیز سا لگتا ہے کہ ساری مسلم لیگ اس انتظار میں ہو کہ اسحاق ڈار آئیں گے ، جادو کی چھڑی گھمائیں گے اور پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اور پھر پورے ملک سے یہ کہا جائے گا کہ پریشان نہ ہوں اب اسحاق ڈار آ گئے ہیں اور وہ آئی ایم ایف کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسحاق ڈار صاحب کی معاشی بصیرت کتنی ہی شاندار کیوں نہ ہو، معیشت محض ایک فرد پر نہیں چھوڑی جا سکتی۔ اسحاق ڈار صاحب کے معاشی فیصلو ں پر پہلے بھی بہت لے دے ہو چکی ہے۔ان کی حکومت کا آخری بجٹ بھی ہر گز اطمینان بخش نہ تھا۔ اس کے اعدادو شمار آن لائن دستیاب ہیں ، کھول کر دیکھ لیجیے ، خوف آتا ہے۔ایسے میں یہ ضروری ہے کہ کسی اعلی سطح پر اسحاق ڈار صاحب کا معاشی ویژن زیر بحث آئے ۔ معمول سے ہٹ کر سوچنا ہو گا ۔ آزاد معاشی ذہنوں کے مالک ماہرین کو جامعات اور اداروں سے تلاش کرنا چاہیے اور کسی سطح پر اس نکتے پر غوروفکر کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے معاشی چیلنجز کیا ہیں اور اسحاق ڈار کے پاس ان سے نبٹنے کا حل کیا ہے اور یہ حل کس حد تک موزوں اور مناسب ہے ؟

Advertisements
julia rana solicitors

یہ نہ ہو کوئی عارضی حل تلاش کرتے کرتے ہم ایک نئے گڑھے میں جا گریں۔92 نیوز

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply