• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عثمان مرزا سوچ،نہ خوفِ خدا نہ خوفِ خدائی۔۔محمد وقاص رشید

عثمان مرزا سوچ،نہ خوفِ خدا نہ خوفِ خدائی۔۔محمد وقاص رشید

خدا کا نائب زمین پر اپنے حاصل شدہ اختیار کے تناظر میں دو عامل قوتوں کے زیرِ اثر کم از کم آخری درجے پر فائض رہتے ہوئے انسانیت کا بھرم قائم رکھ کر انسان کہلانے کا حق دار ہے۔۔۔ایک خوفِ خدا دوسراخوفِ خدائی۔

خوفِ خدا سب سے اونچی انسانی قدر ہے۔۔ یعنی انسان کی تمام تر حیاتیاتی ترجیحات میں خدا ایک احساس بن کر موجود ہو (دوسروں کے لیے نہیں اپنے لیے) ۔ اس احساس کی موجودگی کی پہلی درسگاہ وہی ہے جو ہر انسانی صفت کی بنیاد ہے جی ہاں ماں کی گود ۔ جس کے متعلق نپولین نے کہا تھا کہ تم مجھے اچھی مائیں  دو ،میں تمہیں اچھا معاشرہ دے دوں گا۔۔فرد سماج کی اکائی ہے اور اس اکائی کا کردار ایک قوم کا آئینہ دار ۔والدین ہونا کتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ یہ سماج کی اکائی کی بنیاد کے معمار ہوتے ہیں۔ خوفِ خدا کے ناصرف پہلے علمی پیامبر بلکہ عملی طور پر اسکے رول ماڈل بھی ۔انکے بعد استاد تعلیم و تدریس کے ذریعے خدا کو انسان کی بنیاد میں بساتا ہے۔۔ان دونوں کا خدا کے متعلق نظریاتی اخلاص اس فرد میں جھلکتا ہے جو انکے ہاتھوں سے نکل کر سماج کی اکائی بنتا ہے اور تیسری چیز جو اس خوفِ خدا سازی کی تکون میں اہم کردار ادا کرتی ہے وہ ہے انسان کا ذاتی تشخص کہ خود کو خدا کے ہاں کیسا انسان دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ تینوں محرکات مل کر انسان کے اختیارات میں خوفِ خدا کی عاملیت کا تعین کرتے ہیں۔

دوسری چیز ہے خوفِ خدائی یعنی فرد کی ترجیحات کے تعین اور حاصل اختیارات کے استعمال میں دنیاوی و ریاستی عملداری ۔ریاست کے قوانین اور آئین کا اطلاق۔
اگر خوفِ خدا اور خوفِ خدائی دونوں بطور عامل قوتوں کے انسان کو حاصل اختیار اور طاقت کے راستے میں موجود نہ ہوں تو انسان ،انسانیت کے آخری درجے سے بھی نیچے گر جاتا ہے۔جہاں حیوانیت اسکا استقبال کرتی ہے وہ خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے لگتا ہے ۔ دولت ، طاقت اور اثرو رسوخ کے نشے میں Absolute power corrupts کے مصداق دوسرے انسانوں پر وحشت ، بربریت ،جبر اور ظلم و استبداد کے ذریعے وہ اپنے اس احساسِ برتری کے گھمنڈ کی تسکین کر تا ہے اور عثمان مرزا بن جاتا ہے ۔

عثمان مرزا ایک سوچ کا نام ہے۔ خوفِ خدا اور خوفِ خدائی سے ماورا ایک سوچ۔۔۔ انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ سوچ پاکستان میں آئے روز کسی نہ کسی شکل میں ہمیں دکھائی دیتی ہے۔۔اور اس سے بھی شرمناک پہلو یہ ہے کہ جس تیزی سے یہ سوچ سماج میں سرائیت کر رہی ہے اس مستعدی سے اس کا قلع قمع کرتے خوفِ خدا اور خوفِ خدائی کے ادارے متحرک نظر نہیں آتے ۔
زمانہءِ قدیم اور جدید دنیا میں اگر تمام تر ارتقائی سفر کو ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہے ریاست۔ آبادکاروں کے اپنی سرزمین سے رشتے کو ریاست کہتے ہیں ۔اس رشتے کی مضبوطی کی تحریری شکل کو آئین کانام دیا جاتا ہے اور اس میں حقوق و فرائض کے تعین کے لئے قوانین بنائے جاتے ہیں ۔ریاست ماں جیسی ، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ماں اپنی اولاد  کے دکھ تکلیف ضرورت احتیاج اور مصیبت میں بہر صورت مستعد دکھائی دیتی ہے۔  آپ نے کسی چیل یا سانپ کے چوزوں پر حملے کی صورت مرغی کا ردعمل تو دیکھا ہی ہو گا۔۔ایک ماں اگر کسمپرسی اور بے بسی کے عالم میں بھی ہو تو بھی اسکے آنسو ہی اولاد کے زخموں پر مرہم کا کام کرتے ہیں۔ اسی لیے اسکے پیروں تلے جنت کا تصور ہے ،مگر ہماری ماں ہماری جنت ہماری ریاست کے لیے انتہائی تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ عثمان مرزا نامی سوچ کہیں عدل و انصاف کو ہرا کر عدالتوں کے باہر وکٹری کے نشان بناتی ہے ،کہیں مظلوموں کو صلح پر مجبور کر تے ہوئےحقِ انسانی کو بے عزت قید کر کے باعزت بری ہوتی ہے کہیں پورے سماج کی ضمانت ضبط کر کے ضمانت پر دندناتی پھرتی ہے اور کہیں گواہوں اور ثبوتوں کے نشان مٹا کر اس ملت کو بے نام و نشان کر دیتی ہے۔

حالیہ کیس میں بھی اے کاش کہ جتنی تشویش ناچیز راقم الحروف کو ہے اتنی ہماری ریاست کو ہو جتنے سوالیہ نشان دن میں تاروں کی طرح میری آنکھوں میں گردش کر رہے ہیں اتنے اس مملکت کو بھی نظر آئیں کہ ایک شخص اپنے انسانیت سوز جرم کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیتا ہے اور اسکے بعد ریاست کے سب سے بڑے آئینی عہدہ دار کے نوٹس لینے پر بھی اپنے سوشل میڈیا پر یہ کہتا ہے کہ میں چند دن میں باہر ہوں گا۔۔

ایک اور پہلو جو عثمان مرزا سوچ کا سب سے قبیح ہے جس کا اظہار ناصرف اسکی مکروہ ترین انسانیت سوز ویڈیو کی گفتگو سننے سے ہوتا ہے بلکہ اکثر معاشرے میں اسطرح کی سوچ کا افسوسناک اظہار دیکھنے میں آتا ہے اور وہ یہ کہ کسی عورت کو اپنی من پسند تعریف و تشریح کے بر خلاف پا کر سب سے پہلے اسکے کردار پہ شک کرنا اور اپنی اس بدظنی پر ہی نہ توقف کرنا بلکہ اسکی کردار کشی اور حراسانی تک چلے جانا یہ تصور و اظہار کرتے ہوئے کہ یہ تو ہے ہی “ایسی ویسی ” ۔۔۔۔ازراہِ اصول عرض ہے کہ کسی بھی عورت کی عصمت کا احترام قطعی طور پر کسی بھی تفریق سے بالا تر ہے اور لازم ہے۔ اسکے ساتھ زور زبردستی اور حراساں کیے جانے کا کوئی جواز کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں۔

حالیہ دور میں جو معاشرتی اقدار خوفِ خدا اور خوفِ خدائی قائم نہ کر سکے انہیں سوشل میڈیا کے کیمرے کی آنکھ نے استوار کرنے کی سعی کی ہے۔۔جہاں یہ امر خوش آئند  ہیں فکر انگیز بھی عثمان مرزا سوچ تو معاشرے کو گھن کی طرح اندر ہی اندر کھا رہی ہے لیکن اسکے خلاف ریاستی عملداری صرف تب ہی حرکت میں کیوں نظر آتی ہے جب کیمرے کی آنکھ اسے سوشل میڈیا پر “نگاہِ زدِ عام” کرتی ہے۔۔۔۔گمنامی میں استبداد کی چکی میں پستے مظلوموں کی داد رسی کا لائحہ عمل کیا ہے۔

ریاست کا عثمان مرزا نامی درندے کے خلاف متحرک ہونا خوش آئند ہے لیکن جیسا کہ ہم جان چکے کہ یہ ایک سوچ کا نام ہے۔۔۔ ریاست کو ایک مربوط اور جامع حکمت عملی سے اس ایک فرد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے ذریعے اس سوچ پر کاری ضرب لگانے کی ضرورت ہے۔۔بعض اوقات قوموں کی زندگی میں ماضی کی کج روی سے جڑا حال کا کوئی ایک سانحہ مستقبل کے اصلاح احوال کا سبب بن سکتا ہے۔۔مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کہ ہمارے ہاں ریاست صرف تب تک مصروفِ عمل (وہ بھی عارضی اقدامات سے) نظر آتی ہے جب تک کسی مسئلے کی بازگشت قائم رہتی ہے۔۔۔ہمیں دونوں اطراف سے اس رویے کو ترک کرنا ہوگا۔۔من حیث القوم ہمیں اب “ڈنگ ٹپاؤ” رویہ ترک کرکے کم از کم اسطرح کی سماجی ناسور برائیوں کے خلاف ایک مربوط اورطویل المعیاد حکمتِ عملی کے ذریعے ایک قوم بن کر سوچنا اور اپنی توانائیوں کو بروئے کار لانا ہو گا۔۔۔۔ تاکہ معاشرہ اس بڑھتی ہوئی گندگی سے پاک ہو کہ صفائی ہمارا نصف ایمان ہے۔

گلیوں نالیوں گرانٹوں پر ووٹ نہ دیے جائیں کہ وہ تو ہے ہی آپ کا پیسہ بلکہ ووٹ دیے جائیں اس بنیاد پر جو اسمبلیوں اور ایوانوں میں بیٹھے منتخب شدہ نمائندوں کا اصل کام ہے اور وہ ہے قانون سازی۔۔سماج کو ان برائیوں سے پاک کرنے کے لیے ،انکی روک تھام کے لیے اور عثمان مرزا سوچ کی بیخ کنی کے لیے ریاستی نظام کی تشکیل،تا کہ ہمارے قومی نمائندوں کو یہ احساس ہو کہ قوم اب انکے حقیقی فرائض پر انکی کارکردگی کو جانچے گی قوم اپنے ووٹ کی طاقت سے یہ باز پرس کرے گی کہ جب معاشرے میں ایسے ناسور پروان چڑھ رہے تھے جن سے نہ قوم کی بیٹیاں محفوظ تھیں نہ چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں حتی کہ نا ہی موٹر وے پر بچوں کے سامنے مائیں تا کہ غریب مفلس اور مقروض قوم کے کروڑوں روپے خرچ کر کے ایک دوسرے پر آوازے کس کے ،ایک دوسرے کو گالیاں دے کر اور تم مجھے تقریر نہیں کرنے دو گے تو میں تمہیں تقریر نہیں کرنے دونگا جیسی گلی محلے والی ہلڑ بازی کرنے کی بجائے وہ کریں جو انکا کام ہے۔۔۔۔ اور وہ ہے معاشرے کے بگاڑ کا باعث بننے والوں کے دل میں خوفِ خدائی پیدا کرنا۔۔۔۔۔اور اس اعتماد کو تہس نہس کر دینا کہ کوئی نہیں کسی کی زندگی تباہ کر کے معاشرے کا مجموعی چہرہ مسخ کر کے ہم کچھ دن بعد باہر آ جائیں گے۔۔ ہماری ریاست کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ اگر حالیہ اندوہناک ترین کیس میں بھی اگر عثمان مرزا نامی درندہ سزا سے بچ گیا تو عثمان مرزا نامہ درندہ صفت سوچ کو مضبوط کرے گا اور ریاست کے تاثر کو کمزور اور ناتواں۔

میں اپنی ریاست سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ ایسے قوانین پاس کیے جائیں کہ ایسے انسانیت سوز جرائم پر ضمانت نہ ہو سکے۔۔۔سخت سے سخت سزائیں ممکن بنائی جا سکیں۔وزارتِ انسانی حقوق خوابِ خرگوش سے بیدار ہو کر عوام تک رابطے کے مکمل طور پر محفوظ اور خفیہ رابطے کے ذرائع بہم پہنچائے جس پر مظلوم مجرموں سے بلیک میل ہونے کی بجائے اپنی داد رسی کے لئے خفیہ اطلاع دے سکیں۔۔پارلیمان میں باقاعدہ ان معاملات کی پیروی کی جائے اور قوانین کو مسلسل بہتر،مستعد اور موثر بنایا جائے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ تو رہے خوفِ خدائی کے اقدامات۔۔۔اب اس سے زیادہ اہم خوفِ خدا پیدا کرنے کے لئے عثمان مرزا سوچ سرے سے پیدا ہی نہ ہونے دینے کے لیے ہمیں بحیثیت والدین سوچنا ہو گا۔۔۔جس سر زمین پر چھوٹے چھوٹے بچوں بچیوں اور عورتوں کی عزت محفوظ نہیں وہاں ہر ماں باپ کو یہ دیکھنا ہو گا انکے پیدا کردہ اور تربیت یافتہ انسانوں کے ہاتھوں اس سرزمین پر انسانیت کیوں عالمِ نزع میں ہے ماں باپ کی آنکھ کو کیمرے کی وہ آنکھ بننا ہو گا جس کی بنیاد میں کی گئی ریکارڈنگ زندگی بھر خوفِ خدا کا بھولنے نہ دے تاکہ اس معاشرے کو ایک ایسا معاشرہ بنانا ہو گا جہاں زندگی کی آنکھوں سے بہتے آنسو ، اسکی سسکیاں اور اسکے بدن پر لگے زخم صرف تب بھی دکھائی دیں جب کیمرے کی آنکھ انہیں نہ دیکھ پائے۔۔۔کیونکہ۔۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply