ہیرا منڈی سے بلال گنج۔۔۔محمد خان چوہدری

اس کہانی کا لاہور کے موجودہ سیاسی خانوادوں سے تعلق نہیں، مماثلت اتفاقیہ  ہو گی!

جنرل ایوب خان کے دور میں ہیرا منڈی میں جسم فروشی پر پابندی لگی تھی،اور ناچ گانے کے اوقات بھی نصف شب تک محدود ہو گئے  تھے،جس کے بعد پولیس کسی مہمان کی وہاں موجودگی پر چھاپہ مار سکتی تھی،تو متاثرہ خواتین نے اس کا حل یہ نکالا کہ شہر کے دیگر محلوں میں اور خاص طور پہ  گلبرگ میں ،اپنی بساط اور مارکیٹ کے مطابق مکان یا پورشن کرائے پہ لے لئے،نصف شب تک وہ اپنے مہمانوں کو لے کے ،کرایہ پہ چلنے والی پرائیویٹ کاروں پہ وہاں چلی جاتیں،اسی تناظر میں لاہور میں کافی لوگوں نے  نئی  کاریں خریدیں۔اور پکی ان خواتین کو معقول کرایہ پہ  دیں۔۔جیسا کہ مقرم خان نے کیا۔۔
ٹبی تھانہ ہیرا منڈی میں تھا، جہاں ان کاروں کا سٹینڈ بن گیا،اور اس طرح یہ شاہانہ کاروبار وسیع ہوا اور سارے شہر میں پھیل گیا،خان مکرم خان نے اپنی بیوی کا پچیس تولے زیور بیچ کے نئی ٹیوٹا کار خریدی  تو بلال گنج لاہور میں یہ سب سے بڑی خبر مہینوں تک رہی،لیکن  اس کے مدھم ہوتے ہوتے وہ مکرم سے ہو کے کرما استاد بن گیا،رات گئے  وہ اس کار کو لشکا کے ٹبی تھانے کے پاس سڑک پہ  پارک کرتا،خود چار گلیاں چھوڑ کے امروزیہ کے ڈیرے کے نیچے کھابے پہ  بیٹھتا، دو تین کپیاں پیتا،اور تب تک امروزیہ کسی گاہک کو لے کے نیچے اترتی،اس سے مول تول کرتی اور کرایہ طے کر کے اس کار میں گلبرگ اپنے مہمان کے ساتھ اور اسی کے خرچے پہ  جاتی،اور رات کے باقی دو پہر ایک بڑے بنگلے کے سائیڈ وال کے ساتھ بنے کوارٹر میں گزارتی،صبح طلوع ہونے سے پہلے کرما اسے واپس اس کے ڈیرے پہ  چھوڑ کے اپنے گھر بلال گنج چلا جاتا،اس دوران اس کی کئی  گاہکوں سے سلام دعا ہو گئی ،اس کا اپنا گھر دو منزلہ تھا،نیچے گیراج مہمان خانہ اور اوپر اس کی بیوی بچیوں کے ساتھ رہائش،اس نے امروزیہ سے یہ طے کر ہی لیا کہ وہ  گلبرگ کے سرونٹ کوارٹروں سے آدھے کراے پہ  یہ سہولت دے گا۔اور یوں اسے کار کے ساتھ گھر کے ایک پورشن کا کرایہ بھی ملنے لگا، اور اب  اس کا کام بھی آسان ہو گیا، شب ڈھلے سے صبح صادق تک۔۔۔

لیکن کہتے ہیں کہ انسان کی نیت نہیں بھرتی،اس نے امروزیہ کے گاہکوں سے براہ راست رابطہ کیا اور  اپنی بیوی کو ان کے ساتھ وقت گزارنے پہ  راضی کر لیا،اور اس کا گھر لاہور میں مشہور ہو گیا،گاہک بڑھنے لگے تو اس نے امروزیہ کی بہن کو بلانے کی کوشش کی لیکن  وہ پہلے سے مصروف تھی تو اس نے   ناچاہتے ہوئے  بڑی بیٹی کو رات نچلی منزل پہ  گزارنے پر  تیار کر لیا۔
لیکن اس دوران دو کام غلط ہو گئے  ،ایک اس کی کار خراب رہنے لگی اور دوسرے اس کی بیوی بیمار ہو گئی،وہ ان امور سے نپٹ نہ پایا اور اس کے سارے گاہک  اسی کی پڑوس میں بننے والے نئے   ڈیرے سے منسلک ہو گئے ۔اوپر سے چھوٹی دونوں بیٹیوں نے اس کاروبار میں ہاتھ بٹانے سے انکار کر دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر ایک دن شام کے اخبار میں یہ خبر چھپی کہ خان مکرم عرف کرما نے خود کشی کر لی ہے،تا ہم پولیس کا شک یہی  تھا کہ اسے اس کی چھوٹی بیٹی نے قتل کیا ہے،
اچھا یہ ہوا کہ اس کی بیوی نے کیس تھانے میں درج کرانے سے ہی انکار کر دیا، اور اب آپ جو یہ مکرم ٹاور دیکھ رہے ہیں یہ اسی جگہ بنا ہے جہاں مکرم خان کا گھر تھا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply