اور میں نم دیدہ نم دیدہ (29)-ابوبکر قدوسی

چونکہ اس بار مکہ میں قیام تین روز کا تھا سو یہ تین روز میں نے اپنی ذات کے لیے خاص کر لیے ۔ ارادہ باندھا تھا کہ ان تین دنوں میں صرف ” اسی” سے ملنا ہے اور کسی سے نہیں ملنا۔
گو ” وہ ” تو بار بار کہتا رہا کہ میں تو ادھر لاہور میں بھی تمہارے ایسے ہی قریب ہوں اتنا قریب اتنا قریب کہ “حبل ورید ” سے بھی قریب۔۔..شہہ رگ سے بھی اس پار ۔۔۔
یہ ” آفر ” موجود تھی ، بالکل موجود تھی کہ وہ بالکل میرے قریب تھا ۔۔۔۔ اتنا قریب کہ میں سرگوشی میں کوئی بات کروں اس تک پہنچے بلکہ اس سے بھی قریب ۔۔۔۔ اتنا قریب کہ میرے میری سوچ میں کوئی ارتعاش ہو ، محبت کی کوئی کرن پھوٹے ، جدائی کا کوئی کانٹا چبھے تو وہ اس پھوٹتی کرن کو بھی جان لے اس چبھن کی آواز بھی سن لے ، اتنا قریب ۔۔۔۔۔
لیکن مجھے اس سے کام تھا ، بہت ضروری کام ۔ میرا من میلا تھا ، وہ چاہتا تو لاہور میں بھی دھو سکتا تھا لیکن مجھے خود آنا تھا ، سو چلا آیا ۔
طبیعت بھی اداس تھی نا ، مدت ہوئی تھی اس سے ملاقات کو ، وصل کی اس رات کے خواب کو تعبیر پائے، جدائی بہت لمبی ہو گئی تھی۔ اس سبب چلا آیا ۔
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے
ویسے بھی تو کہتے ہیں کہ پیاسے کو کنویں کے پاس آنا چاہیے بھلے وہ ” حبل ورید ” سے بھی قریب تر کیوں رہا ہو ۔ آگے پیاسے کو ہی بڑھنا چاہیے سو میں آگے بڑھتا بڑھتا اس سیاہ غلاف والے گھر تک آ گیا ۔ اس نے خود ہی کہا تھا ” یہ میرا گھر ہے ” تو میں اس کی تلاش میں آپ ہی چلا آیا ۔
اب میرا ارادہ تھا کہ ان تین دنوں میں ، میں نے اس سے اپنی ساری باتیں کر لینی ہیں ۔ عمر بھر جو پاپ کمائے اس کے سامنے رکھ دینے ہیں اور اس کے بعد میں نے یہ کہنا ہے کہ
” تو تو خود کو بہت دیالو کہتا ہے نا ، تو کہتا ہے تیری رحمت بڑی وسیع ہے ، خود ہی تو تو کہتا ہے کہ تیری رحمت یہ جو زمین ہے اور اس کے اوپر وہ دور آسمان ہے سب کے اوپر محیط ہے ۔ تو یہ دیکھ یہ تو تھوڑے سے گناہ ہیں ۔ یہ تو جیسے صحراؤں کے ” سمندر”میں ریت کا ذرہ اور سمندروں کے پانی میں محض ایک قطرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ سب کہہ دینا ہے جو من میں آیا کہہ دینا ہے کوئی ادھار نہیں رکھنا اس بار ۔
میں نے سوچ لیا تھا کہ صاف بول دینا ہے کہ ” یہ تیری رحمت اتنی وسیع ہے تو پھر یہ تو تھوڑے سے تو گناہ ہیں ۔
تیری رحمت بارے میرا ادراک کمزور تھا میرا شعور ناقص تھا وگرنہ میں کچھ اور لے آتا ،
آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد
مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
یہ تھوڑے سے گناہ ہیں ، کوئی زیادہ نہیں ہیں ۔ لیکن اب جو لے آیا ہوں یہ لے ، ان کو سمیٹ دے ” ۔
جب میں نے سوچ لیا تھا کہ کوئی ادھار نہیں رکھنا سو میں نے تین دنوں میں چپکے سے جاتا بس سے اترتا اور دیر تک بیٹھا رہتا کبوتر اوپر آزاد اڑ رہے ہوتے نیچے میں جیسے نشاطِ وصل میں ہواؤں میں رقصاں ہوتا ۔۔۔
میں نہیں جانتا کہ اس غیب کی کتاب میں کیا لکھا گیا مجھے بالکل معلوم نہیں کہ ان تین دنوں کی باتوں اور ریاضتوں نے اس کتاب میں میرے لیے کیا لکھا ۔۔۔ لیکن مجھے اتنا معلوم تھا کہ وہ لکھ رہا ہے اور یہ بھی معلوم تھا کہ وہ میرے لیے کچھ اچھا لکھ رہا ہے ۔۔ میں تین دن اس سے باتیں کرتا رہا اور پھر واپس گھر کو چل دیا ۔
میں نے جدہ جانا تھا وہاں پر ایک روز قیام کا ارادہ تھا ۔۔مکہ میں میرے تین دن پورے ہو رہے تھے اور آج آخری رات تھی میرا بہت جی چاہا کہ احرام اوڑھ لوں اور ایک بار طواف کر لوں لیکن خود ہی یہ سمجھتا تھا کہ یہ مصنوعی طور پر باندھا احرام درست نہیں ہے ، سو صبر کیا ۔
صبح فجر کے وقت اٹھا اور حرم کو چل دیا ، اس سفر میں آج حرم کا اخری پھیرا تھا دوپہر کو ہوٹل چھوڑ دینا تھا ابو الحسن نے کہا تھا کہ وہ دو بجے ہوٹل پہنچ جائے گا اور ہمیں اپنے ساتھ جدہ لے جائے گا ۔۔۔میں شٹل میں بیٹھ کر حرم کو جا رہا تھا دل پر جدائیوں کی اداسیاں اپنی پرچھائیاں چھوڑ رہی تھی۔ نہیں معلوم تھا پھر دوبارہ کبھی یہ ملاقاتیں ہوں اور کبھی حسین راتیں ہوں۔۔۔ میں اندر تک اداس تھا ، میرے اندر اتنی اداسی اتر آئی کہ جیسے میں بنا آئینے کے خود اپنا اداس چہرہ دیکھ رہا تھا ، میں خود جیسے بھیگی آنکھوں سے اپنے آپ کو گلے لگائے تسلی دے رہا تھا کہ ” اچھا یار صبر کر ، پھر آئیں گے۔۔۔”
نماز پڑھ کر دیر تک صحن میں بیٹھا رہا اور پھر تھکے قدموں سے آہستہ آہستہ باہر نکلتا گیا ۔۔۔۔
اس پردیسی کی مانند کہ جو برسوں بعد گھر جائے اور پھر اس کی مہینوں اور ہفتوں کی چھٹی ” پل بھر میں” ختم ہو جائے ۔ اور وہ وقت رخصت خود کو خود سے چھپاتا نم ناک آنکھوں سے منہ پھیر کر رخصت ہو جائے ۔
میں وہاں سے نکل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ ایک بار جی چاہا کہ پلٹ کر دیکھوں ۔۔۔۔ کہ
میرے لیے بھی کیا کوئی اداس بے قرار ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply