غلاملی۔۔۔محمد عباس/افسانہ

اس کی زندگی تین دھروں پر گھومتی تھی۔گھر، قبرستان اور غلام علی۔ ان میں بھی غلام علی کی حیثیت مرکزی دھرے کی تھی۔
بہت بچپن میں وہ ہم سب دوستوں کے لیے ایک ڈراؤنی شخصیت کا درجہ رکھتا تھا۔بعد میں جب پریوں کی کہانیاں سننی شروع کیں تو کسی جن بھوت کا ذکر آنے پہ میرے ذہن میں جن کا جو خیالی پیکر بنتا وہ بڑی حد تک اس سے مشابہہ ہوتا تھا۔ اس کو اس قدر ڈراؤنا بنانے میں جہاں اس کے حلیے کا کردار خاصا اہم تھا وہاں اس کا ذریعۂ معاش اور طرز رہائش بھی خاصی اہمیت رکھتے تھے۔ ذریعۂ معاش جو ہم پرذرا بڑے ہونے کے بعد واضح ہوا،یہ تھا کہ گاؤں والوں نے آج سے کوئی چالیس سال قبل متفقہ طور پر اسے گاؤں کے قبرستان کا راکھا مقرر کیا تھا۔ اس کے فرائض منصبی میں قبروں کی حالت درست رکھنا، درختوں کی کاٹ چھانٹ، جھاڑ جھنکار سے قبرستان کو صاف رکھنا اور قبروں کو ڈھور ڈنگر کی ’دست برد‘ سے محفوظ رکھنا تھا۔ اس کے عوض اسے گاؤں کے ہر گھرانے سے دو ٹوپے گندم اور ایک ٹوپہ باجرہ یا غیر کاشتکار گھروں سے مساوی رقم سالانہ کی ادائیگی قرار پائی تھی۔ پورے چالیس سال اس نے قبرستان سے یہ ناتا برقرار رکھا۔

اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے اپنے یہ تمام فرائض ہمیشہ نبھائے۔ وہ احساسِ ذمہ داری یا حساب کتاب جیسی باتوں سے ماورا تھا۔قبرستان کے رقبے کو مد نظر رکھا جائے تو یہ سب کام اس اکیلے کے بس کا روگ بھی نہ تھے۔ اس کے لیے تو ایک آدھ پلٹن درکار تھی۔البتہ آخر الذکر فریضے پہ وہ بہت توجہ دیتا تھا۔ اس کے ہوتے کوئی جانور، بکری سے لے کر بھینس تک قبرستان میں زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ قبرستان کی وسعت اورخود اس کی عمر (جس کا درست تعین کبھی نہ ہو سکا)کے پیشِ نظر یہ بھی ایک ناممکن کام تھا مگر اس نے ہمیشہ یہ کام نبھایا۔ہم نے اسے سردیوں کی صبحوں اورگرمیوں کی دوپہروںمیں بھی ڈنگورا کندھے پہ رکھے قبرستان میں گھسنے والے جانوروں کا پیچھا کرتے دیکھا۔ گرمی کی شدت سے ساری خلقت تفو تفو کر رہی ہوتی اور وہ ننگے پاؤں، ننگے سر اور ننگے دھڑ اپنے ڈنگورے کو تیغِ برہنہ کی مانند لہراتا ڈنگروں سے گولڑہ چھپاکی کھیل رہا ہوتا۔گرمیوں میں اکثر ہم اسے دیکھتے تو اتنا ترس آتا جتنا اپنی طاقت سے زیادہ بوجھ اٹھا کرگھسٹنے والے گدھے پر۔

رہائش اس کی تھی تو گاؤں کے عین درمیان، لیکن اتنی اجاڑ کہ وہاں عشاق کے جوڑے کیدو نظروں سے بچنے کے لیے دن کو بھی بے خطر مل لیا کرتے۔ چاردیواری ایک کنال پہ محیط تھی۔ اندرایک کونے پر صرف ایک کمرہ بنا ہوا تھاجس کے دروازے پر کبھی تالا نہیں لگتا تھا(یار لوگ بعض اوقات اس کمرے سے بھی مستفید ہو لیتے تھے) عمر میں اس نے جو بھر پایا تھا، وہ اسی کمرے میں ڈھیر تھا۔ مانگے کے کپڑے جن کی تعداد شماری نہ  کی جا سکتی، ایک چارپائی جس کی بُنائی اتنی بگڑ چکی تھی کہ شاید ہی کوئی انسان اس پر سو سکتا۔ایک طرف شیشے اور پلاسٹک کی ناکارہ بوتلیں،انہی کے ساتھ زنگ اور دیمک سے اٹے کچھ اوزار مثلاً کسّی،کلہاڑا، کھرپہ، بیلچہ وغیرہ پڑے تھے۔ دوسری جانب لکڑی کی ایک بڑی پیٹی تھی جس میں اس نے جانے کون کون سی قیمتی چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔ دروازے کے بالکل ساتھ اس کا چولہا ہوا کرتا تھا، جہاں اس نے کھانا بنانے کی زحمت یقینا کبھی نہ کی ہو گی البتہ کبھی گرم کرنا پڑتا ہو تو کر لیتا ہو گا۔ سامنے پڑچھتی پر عام استعمال کے کچھ برتن تھے، ایک دو چنگیر، سلور کی دیگچیاں، تام چینی کی پلیٹیں، بادیے وغیرہ۔ اس کمرے کے باہر باقی تقریباً ۱۹ مرلے جگہ پر جتنا جھاڑ جھنکار اگ سکتا تھا، اگا ہوا تھا۔ جس بُوٹی، جس جھاڑی کی جتنی تمنا تھی،اتنے اس نے پاؤں پسارے ہوئے تھے۔ بے تحاشا اگے ہوئے اس ’’گھاہ بوٹ‘‘ کی وجہ سے اس کے گھر اور قبرستان میں کوئی فرق نہیں لگتا تھا۔ شاید اپنے گھر کی اسی ویرانی کے باعث اسے قبرستان سے بھی اجنبیت محسوس نہ ہوتی تھی۔۔۔ یا شاید معاملہ بر عکس تھا۔

اسی گھر میں بلکہ اسی کمرے میں اس نے اپنی عمر کی بیشتر راتیں گزاریں۔وہ کبھی بھی رات اس کمرے سے باہر نہیں سہارتا تھا۔گرمی ہو یا سردی،ہمیشہ اندر ہی سوتا۔ کھانا دونوں وقت اس کے بھائی کے گھر سے آ جاتا جو ہمسایہ تھا۔ صبح کھانا کھا کر وہ قبرستان نکل جاتا، شام کو واپس آ کر کھاتا اورسو جاتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بہت بچپن میں، میں نے سب سے پہلے اسے اسی گھرمیں منڈلاتے دیکھا تھا اور اس کی طرف سے ایک خوف سا دل میں بیٹھ گیا تھا جو لڑکپن تک میرے ساتھ رہا۔گلی میں کہیں بھی جب وہ نظر آ جاتا تو میں سہم کر راستہ بدل لیا کرتا۔ اب میں چاہوں بھی تو اس کی وہ صورت پیش نہیں کر سکتا جیسی خوفناک بچپن میں مجھے نظر آتی تھی۔ ایک میں ہی نہیں میرے تقریباً سبھی ہم عمر اپنے بچپن میں اس سے ڈرتے رہے ہیں۔ وہ تو بہت بعد میں جا کر جب ہمیں یقین آ گیا کہ یہ ہم انسانوں میں سے ہی ہے، تب جا کر یہ خوف سمٹنے لگا۔جو زیادہ شرارتی لڑکے تھے،انہوں نے تو اپنے اس خوف کا اس سے گویا بھر پور بدلہ لیا اور ہر ممکن طریقے سے اسے تنگ کرتے رہتے۔ اسے تنگ کرنا بالکل آسان تھا۔ اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے۔بہت سی چیزیں اس کی چھیڑ تھیں، بلکہ میرا تو خیال ہے کہ اس کی کوئی مخصوص چھیڑ تھی ہی نہیں،بس جو بھی کہہ دو، وہ تپ جاتا تھا۔ ادھر کسی نے اسے انگلی لگائی، ادھر اس کے منہ سے گالیاں نکلنی شروع ہو گئیں۔اور یہ تو اس کی عادت تھی کہ جب گالیاں دینی شروع کر دے تو پھر کوئی مائی کا لال اسے نہیں روک سکتا تھا بلکہ ایسی کوئی بھی کوشش اس کے جذبے کو مزید بڑھاوا دیتی۔ انتہائی کڑاکے دار آواز میں ایسی ایسی گالیاں دیتا کہ سات پردوں میں بھی بہو بیٹیاں لال ہو جاتیں۔

اسے جو عمر بھر عورت کا قرب نصیب نہیں ہوا تھا، شاید اسی کا بدلہ وہ سب کی ماں بہن ایک کر کے لیا کرتا تھا۔ اس دن تو بہت ہی تماشا ہوتا تھا، جب وہ گاؤں میں کسی جگہ پر پایا جاتا۔ ویسے تو وہ کم ہی گاؤں کا چکر لگایا کرتا لیکن جس دن وہ آ نکلتا، لڑکوں کے ہاتھ تماشا لگ جاتا۔ذرا سا چھیڑ دیتے اور وہ پھر پورے گاؤں میں بکتا پھرتا۔ جہاں تھوڑاخاموش ہوتا، پھر کوئی چھیڑ دیتا اور وہ نئے جوش و خروش سے نئی گالیوں کے ساتھ اپنی اننگز شروع کر دیتا۔جیون مرن ہو تو وہ خاص طور پرپہنچ جاتا تھا۔اور جب وہ آ جاتا توبھلے کتنی خوشی کا موقع ہو، خواہ کتنا سوگ منایا جا رہا ہو،کچھ لوگوں کی توجہ اس طرف ضرور ہو جاتی اور کوئی نہ کوئی اسے چھیڑ دیتا۔بس پھر تو مرد حضرات سر جھکائے گٹکتے رہتے اور گھر بھر کی عورتیں منہ چھپائے پھرتیں۔ کیا کچھ کہتا رہتا، مگر کوئی اسے نہ روک پاتا۔ اس کی ذہنی حالت سے سبھی واقف تھے اور گاؤں میں متفقہ طور پر اسے وہ ساری مراعات حاصل تھیں جوکسی پاگل کو مل سکتی ہیں۔ اسے نہ توکوئی سیانا بندہ گالی کا جواب دیتا اور نہ ہی کبھی کسی نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا۔ سب جانتے تھے کہ وہ بالکل بے ضرر آدمی ہے۔ گاؤں بلکہ قبرستان میں گزری اس کی پوری زندگی سب کے سامنے کھلی تھی۔ اس کی طرف سے نیکی کے کام کی کسی کو خبر ہو یا نہ ہو، مگر اتنا سب جانتے تھے کہ اس نے زندگی میں منہ چھپانے لائق کام کبھی نہیں کیا تھا۔

مفلس زندگی نے اس کا جثہ ہلکا تودیا تھا مگربدن میں ابھی توانائی باقی تھی۔۔۔شاید عورت سے محرومی کے باعث۔ رنگ تقریباً سیاہ تھا۔ عمر کی دھوپ نے چہرے پر تریڑوں کا نقشہ بنا چھوڑا تھا۔ سر کے بال کہیں کہیں سے کالے رہ گئے تھے۔ داڑھی کے بال اگے ہی بہت کم تھے۔ جیسے دھان کی پنیری لگاتے وقت وقفہ زیادہ رکھا گیا ہو۔ناک اور کان عمر کی چھ، سات دہائیاں طے کرنے کے بعد غیر معمولی طور پر بڑے لگتے تھے، شاید جوانی میں متناسب رہے ہوں۔ بہت موٹے شیشوں کی عینک پہنتاجس کے دونوں طرف کمانی کے بجائے ایک موٹا دھاگا ڈال کر اس نے اپنے سر کے سائز کے مطابق گانٹھ دے رکھی تھی،اس لیے وہ عینک بھی ٹوپی کی مانند پہنتا اتارتا تھا۔ لباس اس کا کچھ زیادہ ہی عجیب و غریب ہوتا۔ ہر موسم کے لحاظ سے اس کا لباس مقرر تھا۔ ساون بھادوں کے مہینوں میں صرف شلوار اور پاؤں میں لیلن (نائلون)کے سستے بوٹ ہوتے جو اس کے گھٹنوں تک آتے تھے۔ اسوج کاتک، پھاگن چیت میں وہ دھوتی کرتا استعمال کرتا اور پاؤں میں لیلن کے ہی چپل۔ گرمی کے دنوں میں اس کے پورے بدن پر قدرت کی طرف سے دی گئی چیزوں کے علاوہ ایک تہمد ہوتا یا پھر کندھے پر ڈنگورا۔ دھوپ کی شدت اور حدت برداشت سے باہر ہو جائے تو ایک صافہ سر پر رکھ لیتا ورنہ عام طور پر اس تکلف میں نہیں پڑتا تھا۔ سردیوں میں اس کی وضع سب سے عجیب ہوتی۔ ادھر سردیوں کا آغاز ہوتا اور ادھر وہ ہر کسی سے کپڑوں کا جوڑا مانگنے لگتا۔نچلے دھڑ پر ایک شلوار اوراو پر جتنی بھی قمیضیں دستیاب ہو پاتیں،سب پہن لیتا۔جوں جوں سردیوں کی شدت میں اضافہ ہوتا، اس کے بدن پر قمیضوں کی تعداد بڑھنے لگتی۔ایک دفعہ پوہ کے مہینے میں،خود میں نے اس کے بدن پہ نو قمیضوں کی گنتی کی تھی۔جرسی،سویٹر یا کوٹ وغیرہ کی زحمت وہ گوارا ہی نہیں کرتا تھا۔ قمیضوں کے اوپر سر اور ہاتھوں کی حفاظت کے لیے چادر لے لیتا۔ پاؤں میں لیلن کے وہی بوٹ جو ساون بھادوں میں اس کے کام آتے تھے، مگر اتنے فرق کے ساتھ کہ جاڑے میں ان گنت جرابیں پاؤں پر چڑھاکر اوپر جوتے کھونس لیتا۔ اسی لیے وہی جوتے جو کھلے ہونے کی وجہ سے ساون کے کیچڑ میں شڑپ شڑپ کرتے تھے، جاڑوں کے دوران اس کے پیروں میں نعل کی طرح جمے ہوتے۔

سردیوں میں کہر اورسوکھے کی وجہ سے لوگ مال مویشی گھروں سے نہیں نکالتے تھے، اس لیے وہ قبرستان کی طرف سے مطمئن ہو کر گاؤں میں ہی گھوما پھراکرتا۔ کبھی چائے کے کھوکھے پر تو کبھی کسی دکان کے تھڑے پر۔کبھی گلیاں ناپتا ہوا تو کبھی کسی کو کوسنے دیتا ہوا۔یہی اس کی زندگی کا معمول تھا۔ البتہ یہ معمول ایک حادثے کے بعد ختم ہو گیا۔

حادثے کی تفصیل کسی صورت نہیں بیان کی جا سکتی۔ واقعہ تھا ہی اتنا پر اسرا ر کہ اس کے متعلق کوئی بتائے بھی توکیا۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ حادثہ نہیں تھا بلکہ سوچی سمجھی سازش تھی۔ ہوا یوں کہ جیٹھ کی ایک گرم دوپہر جب پورا گاؤں اندر کمروں میں سویا پڑا تھا اورخودوہ قبرستان میں ڈنگروں سے آنکھ مچولی کھیل رہا تھا، اس کے گھر میں اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ پاس پڑوس کے لوگوں کو خبر ہونے تک اس کا پورا کمرہ آگ کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔چاہتے ہوئے بھی کوئی کچھ نہ کر سکا کہ کمرے کے باہر سارے گھر کا گھاہ بوٹ بھی آگ پکڑ چکا تھا۔ کوئی کمرے تک کیسے جاتا۔ اس کی کل زندگی جل کر کوئلہ بن گئی۔ سنا ہے کہ جب وہ وہاں پہنچا تو صدمے سے اس نے خود بھی اس آگ میں کود مرنے کی کوشش کی مگر بھائی اور اس کے بیٹوں نے اسے بچا لیا۔یوں کہنے کو تو اس کوٹھڑی میں کوئی بھی قیمتی چیز نہیں تھی مگر جو کچھ بھی تھا، اس کی کل کائنات یہی تو تھی۔گھر جل جانے کے بعدوہ بالکل بجھ سا گیا اور ہر وقت ملول سا رہنے لگا۔ وہ عمر بھر یہ تو نہ جان سکا کہ آگ کس نے لگائی تھی مگر جب بھی اسے اپنا گھریاد آتا آگ لگانے والے کے لیے اس کے منہ سے آگ ہی نکلتی تھی۔

گھر نہ رہا تو اس کے معمولات بالکل بدل گئے۔ گرمیوں میں وہ چوبیس گھنٹے قبرستان میں ہی رہنے لگا۔ دن کو قبرستان کی رکھوالی اور رات کو جنازہ گاہ میں میت کے لیے بنائے گئے شیڈ کے نیچے چادر تان کر سو رہتا۔دو وقت کا کھانا، جس کی اسے اتنی فکر رہی بھی نہ تھی،اس کا بھتیجا اسے پہنچا آیا کرتا۔ٹھنڈے موسم میں جب راتوں کو پالا برداشت سے باہر ہونے لگتا تو وہ سونے کے لیے بھائی کے گھر آ جاتا اور صبح آنکھ کھلتے ہی پھر قبرستان میں جا پہنچتا۔ گالیاں بکنا اس نے کم تو نہیں کیا تھا مگر اب گالیاں دیتے وقت واضح معلوم ہو جاتا کہ وہ میکانکی انداز میں، گویا کوئی فرض نبھا رہا ہے۔ ایک تخلیقی شان سے گالیاں دیتے وقت اس کے لہجے میں جو کھنک ہوتی تھی وہ اب مفقود ہو گئی تھی۔ اب تو وہ بس اسی لیے گالیاں دیتا تھا کہ لوگ اس سے گالیاں سننا چاہتے تھے۔

سب سے خاص بات یہ کہ گھر جلنے کے بعد اس نے سرِ عام یہ اعلان کرنا شروع کر دیا تھا کہ آج سے ٹھیک سات سال،سات ماہ، سات روز بعد جمعرات کے دن وہ مر جائے گا۔ جس کو بھی ملتا، اسے بڑے تیقن سے اپنا خواب سناتا کہ رات پیرانِ پیر یارھویں والے سرکار اس کے خواب میں آئے تھے اور بتا گئے ہیں کہ آج سے ٹھیک سات سال،سات ماہ، سات روز بعد جمعرات کے دن وہ اسے لینے آئیں گے۔ اس کی زبانی یہ خواب میں نے کتنی بار سنا۔ ہر دفعہ خواب اپنی جزئیات سمیت بالکل یکساں ہوتا البتہ بشارت (وہ اسے بشارت ہی سمجھتا تھا)دینے والے بزرگ تبدیل ہو جاتے۔ کبھی یہ ’’دمڑیاں آلی سرکار پیر شاہ غازی کھڑی شریف ‘‘بن جاتے تو کبھی ’’ولیاں دے بادشاہ باہو سلطان لج پال ‘‘ بن جاتے۔ بلکہ میرا تو خیال ہے کہ وہ اِس خواب کو قریب قریب ہر اُس صوفی بزرگ سے منسوب کرچکا تھا جس کا نام وہ جانتا تھا۔ حتی کہ ایک دن ایک مومن بھائی سے کہہ رہا تھا: ’’ مینوں راتیں خوابے چ مولا علی مشکل کشا حق علی سرکار نے آکھیا اے کہ ست سال۔۔۔‘‘

معمولات کی تبدیلی تو پھر بھی سمجھ میں آنے والی تھی، اب وہ غلام علی کو بھی بہت زیادہ یاد کرنے لگا تھا۔ اس کے غلام علی سے میرا غائبانہ تعارف پہلے بھی تھا۔ یہ اس کا ایک فرضی پوت تھا جو بچپن میں ولایت چلا گیا تھا اور اب وہاں موجاں کر رہا تھا۔ لڑکپن میں جب ہم اسے چھیڑا کرتے تو وہ بہت زیادہ تپ کر آخر میں یہی کہتا۔۔۔’’کر لو،جو ظلم کرنا اے۔غلاملی نوں آ لین دیو، سب نال مُک لوے گا۔۔۔ تم سب ماں کے خصموں کو۔۔۔‘‘

غلام علی اس کی وہ اولاد تھا جس نے کبھی نہ کبھی واپس لوٹ کر اپنے باپ پر ہونے والے مظالم کا بدلہ لیناتھا۔اسی شاخ پہ اس کی تمام امیدوں کا بسیرا تھا۔جب بھی اس پر کوئی مشکل وقت آتا،بیمار پڑ جاتا،جانورو ں کے پیچھے بھاگتے ہوئے ہانپ جاتا یا بچوں بڑوں کی چھیڑ کا نشانہ بنتا، وہ اپنے غلام علی کو ضرور یاد کرتا اور فوری انتقام کی خواہش کو غلام علی کی واپسی تک ملتوی رکھ،رو دھو کے چپ ہو جاتا:’’ٹھیک ہے،میرا غلاملی یہاں نہیں، جو مرضی ظلم کر لو۔حق علی سرکار دے حکم نال اوہ جدوں مڑ آیا، فیر سب کولوں پچھ لیساں۔‘‘
سردیوں کی ایک دوپہر میں گاؤں کے ٹی سٹال کے قریب سے گزرا تو اندر سے اس کی آواز آئی:’’او پتر۔۔۔ اک گل سن جائیں۔‘‘ میں اندر گیا، دیکھا تو وہ ایک گندہ سا کھیس لپیٹے پٹھے کی چارپائی پر دوہرا تہرا ہوا پڑا تھا۔سات آٹھ قمیضیں اس نے ڈانٹی ہوئی تھیں۔ سردی کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو حتی الامکان سکیڑے اپنے ہی جسم کی گرمی سے حرارت لے رہا تھا۔آنکھوں میں ترس بھر کر بولا:’’ آ پتر۔۔۔دیکھ کتنا تپ چڑھا ہے۔پورا پنڈا اُبل رہا ہے۔‘‘

میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا تو واقعی اسے کافی تیزبخار تھا۔اس نے مجھے جیب سے ایک خاکی پڑیا نکال کر دکھائی جس میں کچھ گولیاں تھیں۔اور کچھ روپوں کا مطالبہ کیا تا کہ وہ کچھ کھا پی کر دوا لینے کے قابل ہو سکے۔ میں نے دس روپے اسے تھما دیے،یہ جاننے کے باوجود کہ وہ ان سے کوئی چیز نہیں کھائے گا اور ابھی نہ جانے کتنے لوگوں کو گولیاں دکھا کر پیسے بٹورنے کی کوشش کرے گا۔میرے اٹھتے وقت اس نے ذرا پانی ہو کے کہا:’’جدوں میرا غلاملی مڑآیا۔میں تیرے پیسے دے دوں گا، بس وہ آیابیٹھا سمجھو۔‘‘

میں ہنس پڑا:’’ٹھیک ہے چاچا۔ اس نے آنا ہے نہ تم نے پیسے لوٹانے ہیں۔‘‘

وہ تڑپ اٹھا:’’اوئے اوئے۔کیوں نہ آئے گا۔۔۔ایں؟مولا علی مشکل کشاحق علی سرکار دے ناں دا صدقہ،اوہ اج ہی آجاوے،پر میں ای اس کو روکے بیٹھا ہوں۔ کیا کرے گا آ کر۔اس کا پیو تھوڑا ذلیل ہو رہیا اے کہ وہ بھی آ جائے۔ نعرہ ٔ حیدری،پنجتن پاک دے ناں دا صدقہ۔ او شالا وہیں رہے۔پر جدوں میں مرنے لگا،فیر اس کو بلا لوں گا۔میں نے اس کو خط لکھ ماریا اے کہ اج تو ٹھیک ست سال،ست مہینے،ست دناں بعد آ جانا۔تم دیکھ لینا۔جب مرن دے نیڑے ہویا،اس آپے آ جانا اے۔ نہ آیا تے میرا پتر ہی نہیں‘‘

اگریہی واقعہ پہلے پیش آیا ہوتا تو میں غلام علی پر اسے ضرور چھیڑتا مگر ان دنوں میری اس سے تھوڑی دوستی ہونے لگی تھی اس لیے میں صرف مسکرا کے لوٹ آیا۔

غلام علی کا ذکر تو وہ پہلے بھی کرتا تھا مگر گھر جلنے کے بعد اس کے لبوں پر اکثر اسی کا تذکرہ رہنے لگا۔ان دنوں میں بھی کالج جانے کے بجائے گاؤں کے قبرستان میں چھپ کر جاسوسی ناول پڑھتے کالج ٹائم گزار دیتا تھا۔ایسے میں،اس نے مجھ سے سنگ بنا لیا،بلکہ میں نے اس سے بنا لیا۔اسے سنگ کی کیا ضرورت تھی،اس نے صرف سنانا ہی تو ہوتا تھا۔میں نہ ہوتا تو وہ قبرستان کے درختوں،جھاڑیوں،پرندوں بلکہ قبروں تک کو سنا لیتا۔اس کے پاس سامعین کی کون سی کمی تھی۔یہ تو میں تھا جو کالج سے بھاگ کر اس کی چپ نگری میں آجاتا اورکسی بھی انسانی سائے سے بھاگتا تھا۔ تقریباً دو مہینے تک میں اس کے پاس بیٹھتا رہا اور یہیں غلام علی سے میری شناسائی میں اضافہ ہوا۔یہ اور بات کہ خود غلام علی کی طرح یہ شناسائی بھی ہوائی تھی۔مگر اتنا ہے کہ جہاں گاؤں کے دوسرے لوگ صرف غلام علی کے نام سے واقف تھے۔ وہاں مجھے اس کی بابت کچھ دوسری تفصیلات بھی معلوم تھیں۔غلام علی اس کے پاس کبھی بھی نہ رہا تھا بلکہ پیدا ہونے کے بعد ننھیال کے پاس ہی رہا تھا۔ انہی کے پاس پڑھ لکھ کر پھر ولیت چلا گیااور وہاں پکا چن تارے والا افسر بن گیا تھا۔۔۔ جسے گاؤں کی پنچایت جیسے بڑے بڑے چودھری بھی’ سروٹ‘ مارتے ہیں اور وہ کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔جس کے سامنے شطان کی بڑی بڑی جڑیں بھی چوں نہیں کرتیں۔ اور پتا نہیں کیا کیا۔دو تین بار تو وہ گھنٹوں غلام علی کی باتیں کرتا رہا۔ اس کے علاوہ بھی جب کبھی اس کا ذکر آ جاتا تو وہ بڑے لاڈ سے غلام علی کا کوئی قصہ سنا دیتا۔ وہ جو کبھی کڑک اور کھڑک کے بغیر بول نہیں سکتا تھا، غلام علی کا نام آتے ہی اتنا مہربان بن جاتا تھا جیسے ماگھ کی بارش کے بعد دھوپ۔

ایک دفعہ وہ آیا تو چپ چپ سا تھا۔ میرے استفسار پر ایک شرمیلی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے بتایاکہ غلام علی آج کل بڑا پریشان ہے۔ تین گوریاں اس پر مرتی ہیں، ایک اس کے ساتھ نوکری کرتی ہے،ایک گاڑی چلاتی ہے اور ایک بینک میں نوکر ہے۔ تینوں اس سے ویاہ کرنا چاہتی ہیں۔ اب وہ پریشان ہے کہ کس سے شادی کرے؟تم ہی بتاؤ وہ کیا کرے؟ میں کافی دیر تک اس کا چہرہ دیکھتا رہااور اسے پوری طرح سنجیدہ پا کرانتہائی رسان سے یوں مشورہ دینے لگا جیسے واقعی اس کے بیٹے کی شادی ہو رہی ہے اوربڑی دیر تک محویت سے اس کے ساتھ بحث کرتا رہا۔لڑکی کا انتخاب، شادی کے دن کا تقرر، دعوت کی تیاریوں کی تفصیل، لڑکی کا حق مہر، لڑکی والوں کے ’’لاگ ‘‘کا تعین، سب پر اچھی خاصی گفتگو کی۔پھر آخر پراس نے غلام علی کی جلد وطن واپسی کی خبر دی اور کہا کہ میں نے اسے کہہ دیا ہے، شادی کے بعد ایک بار ضرور اپنے گھر آنا۔وہ اتنا امیر ہے کہ جب وہ آ گیا تو میں اس پورے گراں کا سب سے بڑا چودھری بن جاؤں گا۔وہ ولیت کا افسر ہے۔یہ    چودھری اس کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ اس کی تو ٹور ہی وکھری ہو گی۔ گوری زنانی،افسراں والا سوٹ،لش پش گڈی،سوہنا قد بت،فیشنی قسم کی مُچھ۔ اس کی شان دیکھ کے یہ سارے چول چودھری مجھے سر پر بٹھائیں گے۔پر میں بھی گن گن کے بدلے لوں گا۔۔۔گن گن کے۔۔۔ادھار کیوں رکھوں؟

ایک مدت سے اسے گاؤں والوں نے غیر سرکاری طور پر بے ضرر قسم کا پاگل قرار دیا ہوا تھا اوراپنے آپ کو پاگل ثابت کرنے میں وہ خود بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتا تھا۔اور میں خود، اس سنگت سے قبل گاؤں والوں کی طرح اسے پاگل جانتا اور مانتا تھا۔ مگر ڈیڑھ دو ماہ تک اس کے ساتھ اکیلے گپ شپ کے بعد میری سوچ تبدیل ہو گئی تھی۔ صرف ایک غلام علی والے معاملے میں اس پر پاگل پن کا شائبہ ہوتا تھا،باقی وہ بالکل سمجھدار تھا۔ا س کی سمجھ داری کا ثبوت یہ کم تھا کہ اسے قبرستان میں دفن سینکڑوں لوگوں کے نام، شجرے اور تقریباً سال وفات بھی معلوم تھے۔اور قبرستان پر ہی کیا موقوف، گاؤں کی تین چار ہزار آبادی میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جسے وہ پہچانتا نہ ہو، اور جس کی سابقہ زندگی بلکہ خاندان کا ریکارڈاسے حفظ نہ ہو۔اتنی توانا یادداشت کا مالک شخص جو کچھ بھی ہو، پاگل ہو سکتا ہے بھلا؟

یوں ہی قبرستان میں گھومتے گھومتے وہ کہنے لگتا:’’حق حیدر، ایہہ مائی بودی ہے۔ جب گاؤں میں مَدَرسہ بنا تھا، اس سال مگھر میں پوری ہوئی تھی۔ ست دن فاجل(فالج)نال اکڑی رہی۔ آٹھویں دن گھوک ہو گئی۔۔۔ حیدری۔اس دے مرن پچھوں اس دا پتر اج تک پنڈ وچ نہیں آیا، کدرے باہر کریچی گیا ہے۔۔۔مست بابا پیرے شاہ غازی دمڑیاں والی سرکار۔‘‘ یا’’یہ بابا سندھو، بنگال سے جب فوجیوں کی لاشیں آئی تھیں، اس کے تین سال بعد مرا تھا۔۔۔ساون میں۔۔۔بارش کی وجہ سے قبر کھودنی بھی اوکھی ہو گئی تھی۔یہاں اونچی جگہ تاڑ کے تمبو لگا کر قبر کھودی گئی تھی۔‘‘

ایسے ہی ایک دن بیٹھے بیٹھے مجھے خیال آیا اور میں نے اس سے پوچھ لیا کہ پاکستان بننے کے وقت وہ کہاں تھا اور اس نے کون کون سے واقعات دیکھے جو سنانے کے قابل ہیں ؟ جواباً اپنے خاص انداز میں بھڑکیں مارتے ہوئے بولا۔

’’اس دن ڈاکو باج خان ریفل ہاتھ میں لے کر نعرہ ماریا۔ اوئے کافرو تے کھتریو اپنا سامان تے کڑیاں چھوڑ کے کافراں دے ملک نس جاؤ۔۔۔نئیں تے سدھے ہو جاؤ۔۔۔پیراں نے پیر غوث پاک قلندر۔۔۔اک کھتری اپنی کڑی کھوہ چ سٹ کے نسیا۔۔۔باج خان نے نعرہ ٔ حیدری یا علی مار کے ساریاں نوں لٹ لیا۔۔۔کھتری نوں کسے نہ چکیا۔۔۔سارے ڈشٹر کھاتے ڈاکواں کھوہ چ سٹ دتے۔ ‘‘

اسی طرح کی بہت سی باتیں۔۔۔ اسے ابھی تک ۱۹۴۷ کے واقعات یاد تھے۔ اسی لیے میرا خیال تھا کہ وہ پاگل وغیرہ بالکل نہیں۔ مسئلہ کوئی اورہے۔

ایک دن خود ہی رواں ہو گیا اور بتانے لگا کہ جوانی میں کس طرح اس کی کڑمائی(منگنی) ہوئی تھی اور اس کی منگ کتنی خوبصورت، کتنی گن وان تھی۔اور کیسے لڑکی والوں نے بعد میں رشتہ توڑ دیا کہ لڑکا نکما ہے، کام کاج نہیں کرتا، اسے رشتہ دے کر لڑکی فاقوں مروانی ہے۔ اس نے پھر بہت زور مارا مگر انہوں نے لڑکی دینی تھی، اور نہ ہی دی۔ ’’بس فیر میں قسم کھا لئی کہ مر جاؤں پر ویاہ نہیں کرنا۔‘‘

’’تو پھر واقعی تم نے ویاہ نہیں کیا؟‘‘
’‘کیوں کرتا۔۔۔؟پورا پاؤ دھنیا گھوٹ کے پی گیا۔ عورت کی لوڑ ہی نہ ہوئی۔‘‘
’’دھنیا،قسم سے۔۔۔!‘‘
’’ہاں، بدام پستہ ملا کے، ٹھنڈا یخ کر کے سواد لے لے کے۔۔۔برف ورگی ٹھنڈ میرے پورے جثے چ دوڑ گئی۔۔۔فیر ویاہ سہاگا کرنا سی۔‘‘
’’تو پھر یہ غلام علی کہاں سے آ گیا؟‘‘
’’اوہ بس۔۔۔ توں سمجھیا کر ناں۔ ایہہ پہلاں دا کم سی۔‘‘
اس بات پر وہ مجھے محض آنکھ مار کر ٹرخا گیا۔

اس کے ساتھ میری بہت عرصہ بنی رہی مگر اسے بہت گہرا نہ جان سکا تھا۔کالج کے بعد میں یونیورسٹی نکل گیا۔ مہینے دو مہینے بعدایک آدھ دن کے لیے گاؤں واپسی ہوتی اوراس دوران میں اس سے بہت کم ہی ملاقات ہو پاتی۔ لیکن اتنا پتا چل جاتا تھا کہ وہ ابھی زندہ ہے اور ویسا ہی ہے۔ ابھی بھی اس نے سات سال، سات ماہ،سات روز بعد عین جمعرات کے دن مرنا ہے۔ ابھی بھی وہ ڈنگروں کے پیچھے اور بچوں کے آگے بھاگتا ہے۔ اور یہ کہ ابھی بھی اسے غلام علی کا انتظار ہے۔ جس دن وہ لوٹ آیا۔۔۔تو پھر۔۔۔

یونیورسٹی میں دیکھتے دیکھتے میرے دوسال گزر گئے۔ان دنوں میں ہاسٹل میں رہ کر مقالہ لکھ رہا تھا کہ میرے ایک دوست نے مجھے فون پر باتوں کے دوران اس کے متعلق یہ خبرسنائی کہ اس کو گاؤں والوں نے قبرستان کی رکھوالی سے فارغ کر دیا ہے اور ہر گھرانے سے ملنے والی گندم اور باجرہ بھی روک دیاگیا ہے۔ اس نے گاؤں کے ایک دو بڑے چودھریوں کی بیویوں کو کہیں راستے میں گالیاں بکی تھیں اور بڑی دیر تک بکی تھیں جس پر پنچایت نے اسے آئندہ کے لیے قبرستان سے فارغ کر دیا۔ میں نے اندازہ لگایا۔ تقریباً نصف صدی اس نے یہ خدمت انجام دی تھی۔ خود اس کی عمر اب یقیناً ۷۰ کے قریب تھی۔ اگر وہ کچھ دن اور یہ کام کرتا رہتا تو آخر کیا ہو جاتا، ویسے بھی سات سال، سات ماہ، سات دن بعد وہ مرنے والا تھا۔ساری زندگی قبرستان سے ڈنگروں کو نکالتا رہا، اب جو قبرستان میں خود اس کے مستقل قیام کے دن آ چکے تھے تو اس کو دھکیل دیا گیاتھا۔ پتا نہیں اس پر کیا گزری ہوگی۔

میں گاؤں واپس آیا تو کافی دنوں تک اس سے ملاقات نہ ہو سکی۔ دوستوں سے سنا کہ اسے قبرستان سے نکالا تو دے دیا گیا ہے مگر اس کا ٹھکانہ اب بھی وہیں ہے، بلکہ اب تو وہ قبرستان سے نکلتا ہی نہیں اور نہ کہیں آتا جاتا ہے۔ اس کا قبرستان سے تعلق اجرت کی وجہ سے تھوڑا ہی تھا۔

ایک دن میں قبرستان گیا تو وہیں ایک قبر کے کتبے کا سہارا لیے پاؤں لمبائے وہ نظر آ گیا۔ پہلے سے بہت کمزور نظر آ رہا تھا۔رخساروں کی ہڈیاں نوکیلی ہو چلی تھیں۔ ہاتھوں پیروں کا چمڑا پھٹے ہوئے غبارے ساہو گیا تھا۔وزن میں کمی واضح محسوس ہوتی تھی۔گندہ بھی پہلے سے زیادہ تھا۔ سب سے بڑی بات کہ مجھے دیکھ کر اس کے چہرے پر جو چمک آ جاتی تھی، اس کی جھلک تک نظر نہ آئی۔ البتہ مجھے پہچان ضرور گیا تھا۔ میں نے اس کی خیریت دریافت کی تو اس نے بڑی نیم دلی سے جواب دیا۔۔۔خدایا۔۔۔ اتنا شکستہ تو وہ اپنا گھر جلنے پر بھی نہ ہوا تھا۔ اب کے چوٹ گہری لگتی تھی۔

’’جب میں مرن لگا ہوں تے مینوں قبرستان چوں کڈھن لگ پئے نیں، قسم مولا علی مشکل کشا حق علی سرکار دی، میں وی نہیں نکلنا۔ ہن میری قبر ہی بنے گی ایتھے۔ میں نئیں جانا ایتھوں غونث پاک۔۔۔ میں نہیں جانا۔‘‘ اس کی آنکھوں سے میں نے پہلی بار آنسو نکلتے دیکھے۔’’اپنے ہاتھوں سے مجھے رکھیں گے یہاں۔۔۔‘‘

’’چل او چاچا۔ ابھی تم نے سات سال، سات مہینے۔۔۔‘‘
’’نئیں۔۔۔ہن میں ست دن وی نہیں رہنا۔‘‘
میں نے اسے غور سے دیکھا۔ واقعی اب اس کے چہرے پر زندگی کے آثار نظر نہیں آرہے تھے۔وہ قبرستان کو چھوڑنے والا لگتانہیں تھا۔ وہ بیٹھا بڑے پیار سے کتبے کو سہلاتا رہا۔میں کافی دیر اس کے پاس خاموش متاسف بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔پھر میں نے اس کو حوصلہ دینے کے لیے اس کے پتر کا ذکر چھیڑنا چاہا۔
’’تم ایسے کرو۔ اب غلام علی کے پاس چلے جاؤ۔‘‘
ایک چھناکا ہوا’’کون ماں دا خصم غلاملی۔۔۔اوہ سب ڈراما ہے۔۔۔ کوئی غلاملی نہیں۔۔۔ ‘‘ پھر وہ چاروں طرف موجود قبروں کی طرف اشارہ کر کے رندھا ہوا بولا:’’میرے غلاملی تے ایہہ سارے نیں۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ بلک بلک کے رونے لگا اور میں اس کی آنکھوں سے امڈتی ہوئی پدرانہ شفقت کو حیرانی سے دیکھتارہا۔اس کے ہاتھ قبر کے کتبے پہ یوں سرک رہے تھے جیسے بیٹے کے سر پہ ہاتھ پھیر کر اسے دلاسہ دینے کے بہانے خود اپنے آپ کوتسلی دے رہا ہو!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply