چوبیس قیراط منافقت۔۔محمد سلیمان

پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں کچھ بھی خالص نہیں ملتا۔بچوں کے دودھ سے لے کر جان بچانے والی ادویات تک سب چیزوں میں ملاوٹ کی جاتی ہے۔تاہم میں اس بات سے متفق نہیں۔پاکستان میں ایک چیز خالص ملتی ہے اور وہ ہے منافقت۔اکل کھری جتنی چاہیں خرید لیں۔معاشرے کے عام آدمی نے تو وہی کرنا ہے جو معاشرے میں ہورہا ہے لیکن یہاں منافقت کے بڑے بیوپاری بڑے دانشور ہیں۔یہ بے وقوف نہیں اور نہ ہی انہیں چھوٹے دماغ کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے۔یہ تاجر ہیں اور تاجر احمق نہیں ہوتا۔

پاکستان میں یہ دانشور دو جنسوں میں ملتے ہیں۔ایک جنس مُلا کہلاتی ہے۔اسے مولوی اور مولانا بھی کہا جاتا ہے۔یہ اللہ والے لوگ ہیں۔سنتیں زندہ کرتے ہیں، لوگوں کو بخشواتے اور عذاب سے ڈراتے ہیں لیکن ان مولویوں کے چہروں سے نقاب سرکا کر دیکھیں تو اندر سے نکلنے والی مخلوق ملحد سے تین ہاتھ آگے ہوگی۔یہ تین نمبر مُلا دراصل حلوائی ہیں جن کی د کانوں پر اسلام کی برفی، شرع کے قلاقند، عبادتوں کے رس   گلے اور بشارتوں کے گلاب جامن بیچے جارہے ہیں۔اب اگر حلوائی اپنی مٹھائی خود ہی کھانا شروع کردے تو بیچے گا کیا۔ان کا سب سے بڑا شوق چیزوں کو حرام قرار دینا ہے۔خلاف شرع تو یہ تھوکتے بھی نہیں اور موقع  ملے تو چوکتے بھی نہیں۔جن چیزوں کو یہ حرام کہتے ہیں وہی ان کے ہاں سب سے زیادہ موجود ہے۔

جہا ں  سیکس ایجوکیشن کو حرام کہتے ہیں وہیں غسل اور پاکی کے مسائل کے نام پر ان کی کتب میں  جو  موا دموجود ہے وہ کوک شاستر سے کم نہیں مزید یہ بھی کہ ان کی کتابوں پر 18 پلس بھی نہیں لکھا ہوتا۔یہ کہتے ہیں کہ بچوں کو کچھ مت بتاؤ لیکن ان کی  شادی دس سال کی عمر میں کردو۔کہتے ہیں بنک حرام ہے لیکن بنک بیلنس بالکل حلال ہے۔کہتے ہیں تصویر ناجائز ہے لیکن رمضان ٹرانسمیشن، محرم ٹرانسمیشن اورعید میلادالنبی کی ٹرانسمیشن جائز ہے۔شادیوں کے شوقین ہونے کے علاوہ لونڈی بھی رکھنا چاہتے ہیں لیکن دل عبادت میں لگانے کی بات کریں گے۔غرض یہ کہ جو کہیں گے خود اس کے الٹ عمل کریں گے۔آپ ان سے دین سیکھیں یا نہ سیکھیں منافقت ضرور سیکھ لیں گے۔

اب آجائیں دوسری جنس کی جانب۔یہ لبرل کہلاتے ہیں۔انہیں سیکولر کہلانے کا بھی شوق ہے۔ان میں آدھے پرانے کمیونسٹ بھی ہیں۔خدا کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ لوگ خدا کے نام پر خون بہاتے ہیں۔البتہ نسل پرستی کے نام پر بوری بھی بنائی جاسکتی ہے اور ڈرل مشین سے جسم میں سوراخ بھی کیے  جاسکتے ہیں۔انہیں اسفند یار ولی، الطاف حسین، نذراللہ بلوچ اور فخر زمان بیک وقت پسند ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ نسل پرستی کے نام پر جتنا خون پشتونوں اور مہاجروں نے ایک دوسرے کا بہایا ہے پاکستان میں کسی طبقے نے نہیں بہایا لیکن لبرلز کو دونوں ہی بہت پسند ہیں۔ایک جانب جمہوریت کا ورلڈ کپ بھی اٹھا رکھا اور دوسری جانب بلدیاتی اداروں کی دشمن جماعتوں ن لیگ اور پی پی کےبھی بڑے فین ہیں۔یہ لوگ ایک طرف حکومتوں سے ایوارڈ بھی وصول کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کی خاطر اخباروں کے  صفحے بھی کالے کرتے ہیں اور تیسری جانب شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔نام عورتوں کے حقوق کا لیتے ہیں اور عورتوں کی شادی قرآن سے کراتے ہیں۔دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور اپنی جان عورتوں کو مال غنیمت میں دے کر چھڑاتے ہیں۔

یہ وہ قوم ہے جو انگریزی بولتی، اردو لکھتی اور گالیاں پنجابی میں دینا پسند کرتی ہے۔انہیں بھارت اور امریکہ بہت پسند ہیں۔لیکن جب پاکستانی  حکومت بھی ویسے کام کرے تو انہیں بہت برا لگتا ہے۔ضیاالحق کو دنیا سے گزرے تیس سال ہوگئے۔اب تو اعجازالحق نے بھی اسے دفن کردیا لیکن ہمارے لبرل دانشور ہیں کہ اسے مرنے ہی نہیں دے رہے۔غرض یہ بھی وہی قوم ہے جو منافقت کی آڑھت کرتی ہے اور منافع مولویوں جتنا ہی کماتی ہے۔

2018کا آغاز بری خبروں سے ہوا لیکن مجال ہے کہ ان خبروں نے قوم کے ان دانشوروں کی منافقت فروشی میں کمی آنے دی ہو۔ننھی زینب کا سانحہ ہوا تو تحریک انصاف والے پیچ کس اور پلاسیاں  لے کر میدان میں آگئے اور بھر پور کوشش کی کہ کسی طرح رانا ثناءاللہ اور شہباز شریف کا حشر کردیں۔ن لیگ والے بھی پورے نائی ہیں۔ان دونوں کو بچانے کے لئے انہوں نے بھی اپنے استرے قینچیاں سیدھی کرلیں۔پروفیسر ظفر حسن کی لاش پر وال بھر دینے والوں کو   نقیب محسود کے مرنے کی خبردیر سے ملی۔شاید  اس لئے کہ نقیب محسود سرخا نہیں تھا۔نقیب محسود پر آسمان اٹھانے والوں نے  نے پروفیسر ظفر حسن کی موت پر خاموشی نیم رضا مندی طاری رکھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جس معاشرے میں ایسےخالص منافق مفکر اور دانشور موجود ہوں وہاں زینب، اسماء، اشراق، ظفر حسن اور نقیب محسود کی لاشیں نہ ملیں تو حیرت ہونی چاہیے ، کیونکہ چوبیس قیراط منافقت سے انسانی خون تو خریدا جاسکتا ہے لیکن انصاف اور امن نہیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply