• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کامریڈ قربان شاہ : وہ سب سے پہلے ایک انقلابی تھے۔۔۔۔عامر حسینی

کامریڈ قربان شاہ : وہ سب سے پہلے ایک انقلابی تھے۔۔۔۔عامر حسینی

انجم رضا بھائی کی دیوار گریہ پہ لکھا تھا کہ ان کے ماموں اور ریلوے ورکرز یونین کے رہنماء قربان علی شاہ نہیں رہے اور انہوں نے بتایا کہ لاہور ان کا جنازہ پڑھنے کے لئے وہ مطلوبہ مقام پہ ہیں-میں “لاپتہ” کردئے گئے بلوچ ادیب واحد بخش بلوچ کی بیٹی ھانی بلوچ کی نظم پڑھ کر تب فارغ ہوا تھا اور “قلم کار ” ویب سائٹ کی سب ایڈیٹر و بلاگر ثناء بتول کے ایک سٹیٹس اپ ڈیٹ بارے سوچ رہا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ خوشیوں بھرے تہوار والے دن بھی کنفیوژن کیوں؟

اب ایسے میں جب کامریڈ قربان علی شاہ کے گزرجانے کی خبر ملی تو میں سوچا کہ ہم کنفیوژ کہاں ہیں؟ چلو کوفہ کے بازار میں پڑی مسلم بن عقیل کی لاش کا سوال نہ بھی اٹھایا جائے اور یہ سوال نہ بھی کیا جائے کہ اگر مینڈھے کی جگہ “اسماعیل علیہ السلام ” ہی ذبح ہوجاتے تو کیا یہ دن “عید ” کا دن ٹھہرتا ؟ اور یقینی بات تھی پھر وہ دن حزن و ملال کا دن ٹھہرتا۔ بقرعید بلوچستان کے گمشدہ کردئے گئے ، مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں ملنے والوں اور تازہ تازہ کوئٹہ سول ہسپتال میں مارے جانے والے وکلاء اور عام آدمیوں کے ورثاء کے لئے خوشی کا سامان نہ تھی اور وہاں غم و اندوہ کے بادل تھے اور ایسے مظلوموں کے گھر ان کو کاٹ کھانے کو دوڑ رہے تھے-علی ابن ابی طالب(ر)  کے پوتے اور حسین ابن علی (ر)  کے بیٹے علی بن حسین سجاد کے بارے میں یہ بات تواتر کو پہنچ گئی کہ انہیں کسی نے واقعہ کربلاء کے بعد مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا اور یہاں تک کہ وہ کسی عید تہوار پہ بھی مسکراتے ہوئے نہیں پائے گئے-کیا وہ کنفیوژ تھے ؟ سادیت پسند تھے ؟ پنجاب کے اکثر باسیوں نے پچھلے دنوں “کشمیر ٹریجڈی ” کو بہت یاد کیا اور مرنے والوں کا ماتم بھی خوب کیا-لیکن عید پہ وہ “کشمیر ” کے ان گھروں کو بھول گئے جن کے جوان بیٹے “گمشدہ ” ہیں یا جعلی مقابلوں میں پار کرڈالے گئے-وہ پولیس والا جس نے شکار پور کی امام بارگاہ کے گیٹ پہ پھٹنے والے خودکش بمبار کو روکا، جس قسمت کا شکار ہوا تو کیا اس کے گھر والے بھی عید پہ عید جیسا سماں نہ پیدا کرکے کنفیوژ ہیں ؟

یہ تو جملہ ہائے معترضہ تھے جو آج کے کالم میں درمیان میں آگئے-کامریڈ قربان علی شاہ پاکستان کی بائیں بازو کی انسان دوست اور ورکنگ کلاس کی نجات کی سیاسی تاریخ کے ایک قابل زکر کردار تھے-انہوں نے ساری زندگی ریلوے میں مزدور تحریک کے شجر کو پانی دیتے گزاری-وہ ریلوے مزدوروں کے اندر سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ اور فرسودہ مذہبی پیشوائیت پہ مبنی خیالات کی بیخ کنی کرنے میں مگن رہے-انہوں نے ریلوے اسٹیشنوں ، ریلوے ورکشاپس ، سلیپر فیکڑیوں ، ریلوے کالونیوں اور ریل گاڑی کے ساتھ چلنے والے ملازمین کے اندر ہی انقلابی شعور ، سوشلزم کی روشنی نہیں پھیلائی بلکہ مرے جیسے کئی نوجوان ، نوآموز طالب علموں کو اپنے تجربے ، مشاہدے سے فیض یاب کیا اور ہمیں یہ موقعہ فراہم کیا کہ ہم تھیوری کو تجربے کے ساتھ ملاکر چلیں اور درمیانے طبقے کی طرح سرآسمان پہ اور پاؤں کیچڑ میں جیسی صورت حال سے دوچار نہ ہوں-

کامریڈ قربان شاہ صاحب سے مری پہلی ملاقات خانیوال ریلوے کالونی میں کامریڈ مرحوم غلام نبی اعوان کے کوارٹر میں ہوئی تھی جہاں پہ ریلوے ورکرز یونین ملتان ڈویژن کا ایک اجلاس اور اسٹڈی سرکل ہورہا تھا-ملک غلام نبی اعوان نے قربان علی شاہ صاحب سے مرا تعارف کرایا اور ان کو بتایا کہ ” یہ کامریڈ عامر حسینی ہے جس سے میں نے کمیونسٹ مینی فیسٹو کی پچاس کاپیاں لی تھیں ” –قربان علی شاہ درمیانے قد کے آدمی تھے-ان کے ہاتھ میں اس وقت تسبیح تھی جسے وہ گھما رہے تھے اور سر پہ سفید رنگ کی ٹوپی تھی-گورا رنگ تھا اور واشن وئیر کی آف وائیٹ کلر کی شلوار قمیص انہوں نے پہنی ہوئی تھی اور مری طرف مسکراتے ہوئے دیکھ رہے تھے-انہوں نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور ایک فقرہ کہا : شاباش ینگ کامریڈ ! آئی ایم پراؤڈ آف سچ ینگ بلڈ ہو سیک فار لائٹ ان ڈیپ ڈارکنس ” اور پھر وہ خاموش ہوگئے-مرے لئے یہ فقرے کم از کم اعزاز کی بات تھے-

کامریڈ قربان شاہ نے اس کے بعد وہاں آئے ریلوے کے مزدوروں جن میں زیادہ تر سگنل اینڈ بلاک شعبہ سے تعلق رکھتے تھےکے سامنے نہایت سادہ انداز میں محنت کشوں کے مسائل پہ روشنی ڈالی اور انہوں نے محنت کشوں کے استحصال اور ان کی زندگیوں کو اجیرن بنائے رکھنے والے نظام بارے ان کو بریف کیا-اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ملک میں پھیلی نسل پرستی ، مذہبی انتہا پسندی ، ملائیت ، زات پات کے تعصبات کی مذمت کرتے ہوئے محنت کشوں کو طبقاتی فلسفہ بھی پڑھایا اور اس دوران پنجابی صوفی شاعر بلّھے شاہ کے کچھ اشعار بھی پڑھے-مجھے ان کا انداز بیان بہت دلکش لگا-ان سے اس پہلی ملاقات کے بعد اکثر ملاقاتیں ہونے لگیں-وہ شاہین آباد جنکشن سے لیکر روہڑی جنکشن تک ریلوے مزدروں کو منظم کرنے اور ان میں شعور و بیداری پھیلانے کی کوشش کررہے تھے اور وہ ان دنوں جھنگ رہا کرتے تھے لیکن اکثر خانیوال ریلوے کالونی بھی آتے جاتے رہتے-86ء سے 2008ء تک مرا ان سے مسلسل رابطہ رہا-اور ان کے توسط سے میں ریلوے مزدوروں کی سیاست میں کافی سرگرم رہا-جنرل مشرف کا مارشل لاء لگا تو ریلوے پہ ایم او ڈی لگادی گئی اور ملتان سرکل میں کرنل حشمت نام کا ایک جلاد آکر بیٹھ گیا جس نے ریلوے مزدوروں کو جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا زمانہ یاد کرڈالا-یہ وہ دور تھا جب کامریڈ غلام نبی اعوان نے مجھے ایک رات اپنے ریلوے کوارٹر پہ بلوایا اور کہا کہ ریلوے سگنل اینڈ بلاک کے مزدور بہت پریشان ہیں اور ان کو کئی ماہ سے ٹی اے ڈی اے ، بونس اور سابقہ واجبات بھی نہیں ملے اور ان سے ریلوے کوارٹرز بھی چھن لئے جانے کی تیاری ہورہی ہے-یونین پہ پابندی ہے-ٹریڈ یونین سرگرمی کرنے والے مزدروں کو ملازمت سے نکالا جارہا ہے اور کوئی بھی پمفلٹ یا اشتہار لگانے والے مزدور پہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت پرچہ دینا معمول کی بات بن گئی ہے-میں نے ان سے پوچھا کہ میں ان کے کس کام آسکتا ہوں؟ انہوں نے کہا کہ قربان شاہ صاحب کا کہنا کہ تم چونکہ ریلوے کے ملازم نہیں ہو اور صحافی بھی ہو اس لئے اگر تم ریلوے سگنل اینڈ بلا ایسوسی ایشن کے چیف آرگنائزر بن جاؤ اور تمہارے نام سے پمفلٹ اور اشتہار آئے تو تمہیں کم از کم بے روزگار ہونے کا خطرہ درپیش نہ ہوگا-اور اگر تم پہ کوئی مقدمہ بنا بھی تو ریلوے ورکرز ایسوسی ایشن کے ساتھ ساتھ صحافتی تنظیمیں بھی تمہارے ساتھ ہوں گی-اور ایک صحافی پہ ہاتھ ڈالتے ہوئے وہ سوبار سوچیں گے-مجھے ان باتوں کی کوئی پرواہ سرے سے نہیں تھی-میں نے ان کو فوری ہاں کردی اور انہوں نے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک چارٹر آف ڈیمانڈز مجھے دے دیا اور کہا کہ اس کو کمپوز کراکے اگر اشتہار کی شکل ميں چھپ سکے تو ٹھیک ورنہ فوٹو کاپی سے کام چلاؤ-میں ، کامریڈ اعظم خان ، ملک اسماعیل مرحوم ، کامریڈ شفیق اور چند اور ہم خیال دوستوں نے پیسے ملائے اور یہ اشتہار چھپوانے کا انتظام کرلیا-اشتہار کے آخر میں مرا نام بمعہ عہدہ چیف آرگنائزر پاکستان ریلوے سگنل اینڈ بلاک ایسوسی ایشن شاہین آباد تا روہڑی جنکشن چھپا ہوا تھا-اور ہم نے خانیوال ریلوے اسٹیشن ، ملتان ، لودھراں ، بہاول پور ، جھنگ شاہین آباد وغیرہ میں ریلوے مزدروں اور کئی سٹال مالکان اور ان کے پاس کام کرنے والے ملازمین کی مدد سے ان اشتہارات کو ریلوے اسٹیشنز ، ریلوے کالونیز ، ورکشاپس اور دیگر متعلقہ جگہوں پہ چسپاں کرڈالے-اس کے بعد خانیوال میں ریلوے ریسٹ ہاؤس سے لیکر ڈی ایس ریلوے کے دفتر کے سامنے دھرنا دینے تک ہم نے کافی جدوجہد کی اور اس دوران میڈیا کو بھی سینسی ٹائز کیا-محنت رنگ لائی چارٹر آف ڈیمانڈز کی کئی شقیں منظور ہوئیں اور جدوجہد جاری رہی –اس جدوجہد کے دوران میں واہ آرڈیننس فیکٹری جیسے ادارے میں ٹریڈ یونین سرگرمیاں انجام دینے والے بہادر کامریڈ وزیر سہو، بلوچستان میں ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے ایک اہم نام کامریڈ سلطان مرحوم ، ملتان کے ملک ساجد اعوان کامریڈ ،کراچی کے کامریڈ منظور رضی ، لاہور سے کامریڈ فضل واحد سمیت درجن بھر اہم کامریڈز سے متعارف ہوا-ریلوے ٹریڈیونین کی تاریخ اور اس میں مرزا ابراہیم ، کامریڈ دادا حیدر سمیت کئی ایک لیجنڈز کی زندگیوں کا ایسے گوشوں سے روشناس ہوا جو مجھے اس سے قبل معلوم نہ تھے-پاکستان مزدور محاذ کے زیر اثر یونی لیور اور پی آئی اے کے اندر ٹریڈ یوننیسٹوں سے بھی تعارف ہوااور شوکت چودھری بھی ان ہی دنوں مرے دوست بنے-قربان علی شاہ صرف ریلوے مزدروں کی جدوجہد میں ہی ہمارے ساتھ نہیں کھڑۓ ہوئے بلکہ پیرانہ سالی میں وہ خانیوال اور اوکاڑا کے مزارعین کی لڑائی میں بھی ہمارے شانہ بشانہ نظر آئے-انہوں نے خانیوال ، شیخوپورہ میں نیسلے کے کچے مزدوروں کو پکا کروانے کی لڑائی اور کوکا کولا فیکٹری ملتان کے کچے مزدوروں کو پکے کرانے کی جدوجہد میں بھی ہمارا ساتھ دیا اور ہماری رہنمائی کی-ہم جب پاور لومز کے مزدروں کی تحریک قومی لبیر موومنٹ کی تحریک میں گئے تو قربان شاہ اپنے ساتھیوں سمیت وہاں بھی موجود تھے-جس وقت بائیں بازو کے گروپوں کا ایک الائنس ” عوامی تحریک ” کے نام سے بنا اور مجھے اس کا پنجاب کا کنوئینر بنادیا گیا اور ڈاکٹر علی اس کے جنرل سیکرٹری بن گئے تو بھی مجھے یاد ہے کہ فیصل آباد ڈویژن کے اجلاس میں وہ تشریف لائے تھے اور جھنگ کی نمائندگی کررہے تھے-

انھوں نے ہمارا حوصلہ بڑھایا اور رجائیت پسندی کا مظاہرہ کیا-وہ ایک سچے اور کھرے کامریڈ تھے اور مرے خیال میں ان کے لئے بھی فیڈرک اینگلس کے وہ جملے کہے جاسکتے ہیں جو انہوں نے کارل مارکس کی قبر پہ کھڑے ہوکر اپنی تقریر کے دوران کہے تھے ؛

“For Marx)Qurban Ali Shah) was before all else a revolutionist. His real mission in life was to contribute, in one way or another, to the overthrow of capitalist society and of the state institutions”

Advertisements
julia rana solicitors

(محمد عامر حسینی، بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ اور عملی صحافی ہیں۔ آپ اس وقت اے ایف پی سے منسلک ہیں اور جنوبی پنجاب کے حقوق کیلیے سرگرم عمل۔ بے باک قلم رکھنے والے حسینی، اس جدوجہد کو حسینیت مانتے ہیں)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply