ایک کاندھے کی ضرورت ہے۔۔۔عارف انیس

تہذیبیں سائنسی، تکنیکی اور طاقت کی بنیادوں کے ساتھ ساتھ یا ان سے زیادہ اخلاقی برتری کی بنیاد پر جیتی اور نمو پاتی ہیں. اگر آج اس کی مثال دیکھنی ہو تو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسینڈا آرڈن کو دیکھ لیں. اور اگر آج سے سات سو برس پہلے کسی کو یاد کرنا ہو تو صلاح الدین ایوبی کو یاد کرلو.

نہیں بہت سے پرجوش مسلمانوں کی پیشین گوئی کے مطابق، جیسینڈا مسلمان نہیں ہوئی. شاید اسے اپنے اصولوں کی بنیاد پر جینے کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے. تاہم یہی وہ اخلاقی اصول تھے جن کی بنیاد پر جیتے ہوئے, اسلام کے سنہرے دور کے خاتمے کے دنوں میں, ایوبی نے رچرڈ شیردل کو اپنا گھوڑا پیش کردیا تھا اور پھر صدیوں کئی مغربی لوک داستانوں کا کردار بن گیا تھا.

ہم ٹرمپ اور مودی جیسوں سے تو نبٹ لیں گے کہ ہمارے پاس ان کی ٹکر کے کئی لوگ ہیں، مگر جیسینڈا جیسوں پر کیسے پورے پڑیں گے؟

آج ہماری تہذیب کے وارث شہزادے سلمان جیسے ہیں، جس کے حکم پر ایک گستاخ کے منہ سے زبان کھینچی جاتی اور جسم آرے سے کاٹا جاتا ہے، یا پھر طیب اردگان جیسے خلیفہ ہیں جو سٹیج سے اسلام بیچتے اور ہزاروں کی تعداد میں بے گناہوں کو زندان میں رکھتے اور تادم مرگ قصر صدارت میں بسنے پر یقین رکھتے ہیں. یا پھر ماڈل ٹاؤن اور ساہیوال کے قتل عوام کے سامنے چپ کا روزہ رکھنے والے ہمارے مقامی دیسی خلفا ہیں. آج جیسینڈا ان سب سے سامنے زیادہ سرخرو ہے. وہ ایوبی، سلطان ٹیپو، لنکن اور نیلسن منڈیلا کے قبیلے سے لگتی ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

آج جیسینڈا کو خراج تحسین پیش کرتے وقت ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کل ہمارے ملک میں مسیحیوں، احمدیوں یا ہزارہ والوں کو اگر ہمارے کاندھے کی ضرورت پڑی تو وہ ہمیں پیش کرنا ہوگا. ورنہ یہ سالے گورے اگلی کئی صدیاں ہمیں سائنسی اور معاشی میدان کے ساتھ ہمیں اخلاقی کبڈی کے میدان میں بھی اسی طرح مار دیتے رہیں گے.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply