زیبرے کو السر کیوں نہیں ہوتا ہے؟۔۔عارف انیس

وہ سب چاک ہاتھ میں پکڑکرکھڑے ہوئے تو ان کے چہرے پر مضحکہ خیز مسکراہٹیں تھیں ۔ شاید انہیں میری بات پر یقین نہیں آرہا تھا کہ میں انہیں ایک جان لیوا مشقت میں ڈالنے والا ہوں ۔ میں نے ان سب کو ایک قطار میں کھڑا کرکے اپنا دایاں ہاتھ بالکل اکڑا کرسیدھا کرنے کو کہا ۔ سب دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں میں وہ ہلکاپھلکا سا چاک دبا ہواتھا. انہوں نے ایک خوشگوار موڈ میں بازو سیدھے کیے اور تن کر کھڑے ہو گئے ۔ میری نظریں گھڑیال پر نصب تھیں بمشکل چار منٹ گذرے تھے کہ چند ایک نے بے چینی سے پہلو بدلا اور ان کا دایاں بازو نیچے جھکنے لگا، میں نے گھور کر وارننگ دی تو بمشکل سیدھا ہوا ۔ تقریبََا آٹھ منٹ گذرے تو اذیت کے تاثرات تمام تر چہروں پر نمایاں تھے اور دایاں بازو مختلف زاویوں سے نیچے جھکا ہوا تھا ۔ دو منٹ اور گذرے تواکثر بازو لٹک چکے تھے اور خوشگوار تاثرات کی جگہ تھکن اور تکلیف نے لے لی تھی ۔
’’مذاق ہی مذاق میں یہ کیا ہو گیا ۔ ’’ میں نے چٹکی بھری‘‘ ۔
’’ابھی تو آپ سب شیر جوان قہقہے لگا رہے تھے کہ آدھی چھٹانک وزن کو گھنٹوں اٹھایا جاسکتا ہے ۔ مگر اب آپ کی بولتی بند ہوگئی ہے‘‘ ۔ اس مرتبہ یہ جملہ سن کر کسی کے چہرے مسکراہٹ نظر نہ آئی ۔
’’یہ وہ ظلم ہے جو ہم انسان اپنے اعصاب پر کرتے ہیں اور ہمیں اندازہ بھی نہیں ہو پاتا یہ چند گرام کا چاک جو آپ ہاتھ میں اٹھا کر کھڑے ہوئے ،اگر آپ آٹھ دس گھنٹے اسی پوزیشن میں کھڑے رہ سکیں تو آپ کے بازو مفلوج کرنے کے لیے کافی ہے ۔ اگر یہ ایک دن سے زیادہ ہو جائے تو یہ آپ کو مفلوج بھی کر سکتا ہے ۔ یہ چند گرام چند گھنٹوں میں ہزار کلو کے پہاڑ جتنے وزنی ہو جائیں گے اور وجہ صرف یہ ہے کہ آپ نے اپنے اعصاب پر ان کو سوار کرلیا ۔ یہی مثال ان تمام تر مشکلات کی ہے جو ہم اپنے اعصاب پر سوار کیے رکھتے ہیں. سٹریس کے چند گرام اگر آپ اپنے اعصاب پر مسلسل لاد رکھیں گے تو وہ ہماری زندگی بوجھل بنانے اور ہماری جان لینے کے لیے کافی ہیں‘‘ ۔
وہ تمام ایک بین الاقوامی کمپنی کے سینئر منیجرزتھے اور ہم دبئی میں سٹریس مینجمنٹ کے ایک سمینار میں موجود تھے ۔
’’مگر ابھی تو آپ نے کہا کہ سٹریس اچھی ہوتی ہے‘‘ایک نے ہاتھ اٹھا کر تبصرہ کیا ۔
’’ہاں ۔ بالکل،سٹریس اچھی ہوتی ہے ۔ یہ خیال کہ آپ کے اس مہینے کی بجلی کا بل کون دے گا؟ کار کا پٹرول کہاں سے آئے گا؟ ، بچے سکول کیسے جائیں گے؟ جاب پر ترقی کیسے ممکن ہے؟ یہ سب وہ سوال ہیں جو صبح سویرے آپ کو گرم بستر سے نکلنے پر مجبور کرتے ہیں اور آپ نیند کے سر میں جوتا مار کے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ سٹریس اس حد تک تو اچھی ہے کہ آپ کو زندگی کی دوڑ میں سرپٹ دوڑنے کے لیے تیار کرے،خواب دے،امنگوں سے بھردےاور پھر مشکلات جھیلنے کے لیے بھی تیار کرے ۔ اس لیے کہ وہ لوگ جو بالکل ’’ٹھنڈ‘‘ رکھتے ہیں وہ شاید ہی زندگی میں کچھ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ‘‘ ۔
’’سو اٹ از آل ان دا مائنڈ‘‘یہ سب دماغ کی گیم ہے ۔ سب ہمارے اندر سے کنٹرول ہوتا ہے؟ ‘‘ ۔ ایک نے انگشت شہادت سے سر پر دستک دی ۔
’’کسی حد تک یہ بات صحیح ہے ، مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے ماحول میں سٹریس واقعی موجود ہو ۔ مثال کے طور پر اس ہوٹل کے اس کمرے میں دو چار زہریلے کوبرا سانپ گھس آئیں تو وہ واقعی ایک حقیقی خطرہ ہوں گے ۔ تاہم خطرہ اپنی جگہ اور اس کاوزن اپنی جگہ ۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض اوقات انسانی دماغ کے لیے تخیل اور حقیقت میں کوئی فرق نہیں رہتا‘‘ ۔
میری بات سن کر ان میں سے چند ایک نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور کندھے اچکائے ۔
’’ابھی چند لمحے پہلے میں نے انہیں ایک فلم دکھائی تھی جس میں ایک بھاگتے ہوئے زیبرے کے پیچھے ایک سرپٹ دوڑتا ہوا چیتا تھا،زیبرہ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہا تھاکہ اسے چیتے سے بچنا تھا،چیتا اپنی جان بچانے کے لیے زیبرے کی جان لینا چاہ رہا تھا ۔ یہ فلم سٹینفورڈ یونیورسٹی کے مشہور پروفیسر رابرٹ سپولسکی کی کتاب Why Zebras Don’t Get Ulcers پر بنی ہوئی تھی. میں نے اس کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے سوال داغا‘‘ ۔ ’’زیبرے کومعدے کا السر کیوں نہیں ہوتا ،اور ہم انسانوں کو کیوں ہوتا ہے؟ ”
ان کی جبینوں پر مزیدشکنیں پڑ گئیں ۔ مختلف جوابات آنے لگے ’’کیونکہ زیبرہ سبزیاں کھاتا ہے،اس کا وزن کم ہوتا ہے ،بہت تیز بھاگ سکتا ہے ،اسے ٹینشن نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ ۔
’’ایک دلچسپ سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسان کے علاوہ اکثر جانوروں میں معدے کا السر نہیں پایا جاتا ۔ زیبرہ تو محض ایک مثال ہے ۔ اور وجہ یہ ہے کہ جانوروں میں ’’اعلی دماغ‘‘نہیں پایا جاتا جو کہ انہیں ،صحیح،غلط،گناہ،ثواب،آرٹ اور ذائقے وغیرہ سے روشناس کرائے ۔ اگر آج ہم اس فائیو سٹار ہوٹل میں جو کہ ایک صحرا کے اندر واقع ہے ،ٹھنڈے ٹھارکمرے میں موجود ہیں تو اسی اعلی دماغ کی بدولت ہے ۔ تاہم اسی دماغ کی وجہ سے ہم اس صلاحیت کے حامل ہیں کہ قبل از وقت پریشان ہونا شروع کردیں ،کسی جنازے پر جاکر قہقہے لگانے لگ جائیں ۔یا کسی شادی پر جاکر دھاڑیں مارمارکررونا شروع کردیں ۔ خوش قسمتی سے زیبرے یا چیتے کو یہ صورت حال درپیش نہیں ہے کہ وہ یہ سوچ سوچ کرپریشان ہوتا رہے کہ کل صبح میں کیا کھاؤں گایا میرے ساتھ والا زیبرہ زیادہ کھا گیا ہے اور اس کو پیچش کیوں نہیں لگتے ۔ سب سے زیادہ خطرناک امر یہ ہے کہ انسانی دماغ کے لیے تخیل،یعنی امیجی نیشن اور حقیقت میں کچھ زیادہ زیادہ فرق نہیں ہے‘‘ ۔
اس بات پر مزید سوالیہ نظریں تو میں نے انہیں لیموں نچوڑ ورزش شروع کرادی ۔این ایل پی کی یہ ورزش بہت ابتدائی قسم کی ہے اور بہت مقبول ہے.
’’آنکھیں بند کر کے اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیں اور گہرا سانس لیں اور تصور کریں کہ آپ اپنے پسندیدہ ہوٹل کی لابی میں موجود ہیں ۔ آس پاس خوب چہل پہل ہے،لوگ رنگارنگ ملبوسات میں گھوم رہے ہیں ۔ لابی میں پیانو بجنے کی مدھر آواز آپ کے کانوں سے ٹکراتی ہے ۔ آپ ایک گول شیشے کی میز پر ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھے ہیں ۔ تھوڑی دیر میں سفید وردی پہنے ،چہرے پر مسکراہٹ سجائے ایک ویٹرس آپ کی جانب بڑھتی ہے تو آپ اسے لیموینڈکا آرڈر دیتے ہیں کہ آپ کو اس ہوٹل کا لیموینڈ بہت پسند ہے ۔ جب وہ ویٹرس ایک چاندی کی ٹرے میں لیموینڈ لے کر آئی توساتھ ہی تروتازہ،کٹے ہوئے لیموں کی دو پھانکیں بھی اس میں موجود ہوتی ہیں ۔ آپ اس کا شکریہ اداکرتے ہوئے ٹھنڈاٹھارلیموینڈ کاگلاس ہاتھ میں پکڑتے ہیں مگر پھر خیال آتا ہے ‘‘کیسا تروتازہ لیموں ہے ۔ کچھ چکھنا چاہئے ‘‘یہ سوچ کر آپ ٹرے میں سے لیموں کی ایک پھانک اٹھاتے ہیں اوراسے منہ کے قریب لاکراپنا جبڑا کھولتے ہیں اور لیموں کو زور سے دباتے ہیں ۔ اور ایک دھندلی سی،کھٹی، کھٹیلی مگر لیموں کے تازہ رس کی دھار آپ کے منہ میں پڑتی ہے ۔ اور آپ کو مزہ آجاتا ہے”.
میں نے مشق روکی اور سب کے چہروں کی طرف دیکھا ۔ بند آنکھوں میں وہ اپنی اپنی پسند کے ہوٹل میں پہنچے ہوئے تھے ۔
’’آنکھیں کھول دیں اور ہاتھ اٹھائیں کہ کس کس کے منہ میں ابھی لیموں کا ذائقہ موجود ہے؟ ” تقریباً سب نے ہاتھ اوپر اٹھا دیے ۔
’’کیسی دلچسپ بات ہے کہ آپ کا تخیل،آپ کی حقیقت بن جاتا ہے ۔ یہی وہ خاص وصف ہے جس کی بنیاد پر دنیا جہان کا لٹریچروجود رکھتا ہے اور شاعر اور وصف آپ کو کبھی الف لیلہ،کبھی طلسم ہوش ربا اور کبھی ہیری پوٹر کی دنیا کی سیر کراتے ہیں جوآپ کو اسی حقیقی دنیا کا ایک رنگ نظر آتی ہے ۔ فلمیں بنانے کی اربوں ڈالر کی انڈسٹری بھی صرف اسی وجہ سے وجود رکھتی ہے ۔ مگر جہاں یہ وصف ایک رحمت ہے وہیں ایک لعنت بھی بن جاتا ہے ۔ ہم ایڈوانس میں پریشان ہونا بھی سیکھ جاتے ہیں ۔ ہم اپنی یاداشت میں سے گھناؤنی اور لرزہ خیز تصویریں ،وڈیوزاور آڈیو ریکارڈڈھونڈ ڈھونڈکراپنے پردہ سکرین پر چلا سکتے ہیں اور اچھی خاصی زندگی کو جہنم بنا سکتے ہیں ہم آج میں زندہ رہنے کی بجائے کچھ سال پہلے یا کچھ سال بعد میں زندہ رہنے کو ترجیح دے کر اپنے اعصاب کو تڑخا سکتے ہیں ۔ ویسے تو کوئی حرج نہیں اگر آپ کا تخیل آپ کی زندگی میں رنگ بھر رہا ہے تواسے بھرنے دیں مگر جہاں وہ رنگ چرارہا ہے توپھر اسے روکنا ضروری ہے‘‘ ۔
’’پرانے وقتوں میں جادوگر شہزادے کے سر میں کیل ٹھونک کر اسے مکھی میں بدل دیتا ہے تھا اور کسی تنگ وتاریک غار میں چھوڑ دیا کرتا تھا ۔ یہ سارے ڈر،خوف اور وسوسے بھی وہ کیل ہیں جو ہمیں شہزادے اور شہزایوں سے بھڑوں بھڑوں کرتی مکھی میں بدل دیتے ہیں ۔ کہتے ہیں برسوں پہلے کسی بادشاہ کو زہر کھلانا ہوتا تھا تو اس کے باورچی کو ساتھ ملا کر ہر روز اس کے کھانے میں زہر کی لکیر لگا دی جاتی تھی یوں دیکھتے ہی دیکھتے عالم پناہ چند ہفتوں میں دنیا سے رخصت ہو جاتے تھے اور کسی پر الزام بھی نہیں آتا تھا۔
اکیسویں صدی میں ہمارا لیونگ سٹائل بھی زہر کی ایک ایسی ہی لکیر ہے جو ہر لحظہ ہماری زندگی کے سوتے خشک کرتا جارہا ہے ،ہماری توانائیاں چوستا جارہاہے ۔ اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر ہمارا تخیل اتنا طاقتور ہے تو ہم اسے زندگی میں رنگ بھرنے کے لیے استعمال کریں اور اپنی آنکھوں کے لیے وہ فلمیں چلائیں اور کانوں کے لیے وہ نغمے بکھیریں جو ہمیں جینے اورجیتنے کے لیے تیار کریں ورنہ زہر کی لکیریں ہم سے بہت جلد امید اور زندگی چھین سکتی ہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply