وزیر اعظم اور آرمی چیف کے نام کھلا خط ۔۔۔ رینچن لوبزانگ

“کرتار پور راہداری کھل گئی ۔اب سکردو کارگل شاہراہ کھول دیں”

Advertisements
julia rana solicitors

بارڈر کے اس پار سکھوں کو مبارک ہو کہ ان کے لیے بہتر سال انتظار تو کرنا پڑا مگر آخرکار انکی دلی مراد پوری ہو ہی گئی ۔چار جی ہاں محض چار کلومیٹر کے فاصلے پر موجود سکھ مت کے بانی بابا گرو نانک دیو کی جائے پیدائش اور جائے مدفن کے درمیاں اب رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں ۔اب لاکھوں سکھوں کے لیے دربار ویزا فری کھول دی گئی ہے ۔اب ان کو دور سے دربار کو دیکھ دیکھ کر پرنام کرنے ،سلام کرنے،ہاتھ جوڑنے اور آنسو بہانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بلکہ اب وہ بنفس نفیس بابا کی نگری میں ماتھا ٹیک سکیں گے ۔اب انکو بقول غلام حسن حسنی (بلتی/ (اردو شاعر) نہیں کہنا پڑے گا کہ :
ایک دیوار کی دوری ہے قفس
یہ نہ ہوتی تو چمن میں ہوتے
اب ان کا چمن ان کی دسترس میں آگیا ہے ۔وہ چمن کی خوشبووں میں بس چکے ہیں وہ نہال ہیں سرشار ہیں ۔خوشی کے آنسو تھمتے نہیں ۔اور کیوں نہ ہوں ۔انسانوں کی بنائی پوری دنیا کی سرحدیں بہرحال مصنوعی ہیں۔یہ سیارہ کروڑوں اربوں انواع واقسام کے جانداروں کی مشترکہ میراث ہے ۔محبتوں کے بیچ ،انسان دوستی کے بیچ کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں ٹھنڈی ہواؤں،آزاد پرندوں اور ٹھنڈے میٹھے پانی کے دریا مصنوعی سرحدوں کی کوئی پروا نہیں کرتے اور کیوں کریں ؟
تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان ہندوستان کے بیچ کئی جنگیں لڑی جا چکیں مگر واہگہ اٹاری پر دونوں طرف کے بچھڑے خاندانوں کے ملن پر کبھی پابندی نہیں لگی اور نہ ہی تجارت پر ۔پھر سندھ راجھستان کے درمیاں تھر ایکسپریس بھی اس ملاپ کے مقدس مشن میں شامل ہوئی جو بچھڑے خونی رشتوں کو ملارہی ہے ۔جموں و کشمیر کے خوں آشام تنازعے کے باوجود سرینگر مظفر آباد بس سروس بچھڑے کشمیری خاندانوں کے لیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے ۔ اور اب کرتار پور راہداری کا ریکارڈ مدت میں افتتاح ۔یہ سب کچھ بہت مثبت اور انسان دوستی پر مبنی اقدامات ہیں بھلے یہ سب کچھ کسی بھی نیت سے انجام دئے گئے ہوں ۔اب سکردو کارگل شاہراہ کھول کر انسانی ہمدردی کا ایک اور چھکا گلگت بلتستان والوں کے لیے بھی مار ہی دیں ۔وزیر اعظم عمران خان صاحب اور جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب۔ہمارے پاس نوجوت سنگھ سدھو جیسا  آپ کا کوئی گہرا دوست تو موجود نہیں ہے جس سے اس حوالے سے سفارش کراسکیں مگر یہاں کے نوجوانوں نے آجکل ایک انوکھی کیمپین سوشل میڈیا پر چلائی ہوئی ہے ۔وہ اپنے نام سکھوں والے رکھ کر اور پگڑیاں باندھ کر ارباب اختیار کی توجہ حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔پاکستان کی مین سٹریم میڈیا تو گلگت بلتستان والوں کے لیے نو گو ایریا ہے لہذا جو کچھ بھی ایکٹیویٹی ہوتی ہے وہ یہی سوشل میڈیا پر ہی ممکن ہوسکتی ہے ۔خان صاحب اگر آپ یہ نیک کام کر گزرتے ہیں تو ہم گلگت بلتستان کے لاکھوں عوام کے پاس آپ کو دینے کو بس دل سے نکلتی پرخلوص دعائیں ہی ہیں جو ہماری نسلیں بھی آپ کو دیتی رہیں گی۔وزیر اعظم صاحب ! پہلے اڑتالیس کی جنگ میں ہزاروں خاندان بچھڑ گئے پھر سن اکہتر میں مزید پانچ دیہات انڈین قبضے میں چلے گئے جس سے مزید کئی ہزار خاندان بچھڑ چکے ہیں ۔کچھ عجیب دل خون کردینے والی صورتحال درپیش ہے ۔کسی کا باپ سرحد کے اس پار رہ گیا ہے تو بیٹا اس طرف ،بیٹی اس طرف ره گئی ہے تو ماں اس طرف ،بھائی اس طرف تو بہن اس طرف یہاں تک کہ میاں بیوی تک راتوں رات آپس میں بچھڑ چکے ہیں مگر ان کو  ملنے نہیں دیا جارہا ہے ۔اور ان گاؤں کے درمیان فاصلے بھی محض تین چار کلومیٹر ہی ہیں ۔کارگل سکردو روڈ کے عین بارڈر پر معروف صوفی بزرگ حضرت شیخ علی برولمو کا آستانہ شریف بھی موجود ہے جس کی زیارت کیلئے پورے گلگت بلتستان ہزاروں بلکہ پاکستان کے دیگر شہروں سے بھی عقیدت مند زیارت کے لیے آتے ہیں جبکہ کارگل لداخ سائیڈ کے سے ہزاروں مسلمان زائرین محض بارڈر کھلنے کا انتظار کررہے ہیں ۔وہ دور سےہی مزار کو سلام کرکے آہیں بھرتے واپس چلے جاتے ہیں ۔مذہبی ٹورازم کے نقطہ نظر سے بھی یہ کوریڈور بے حد اہم ہے۔ کارگل لداخ سردیوں کے چھ ماہ برف باری کی وجہ سے پورے بھارت سے کٹ جاتا ہے انکے لیے سکردو بہت نزدیک پڑتا ہے جو کھلا رہتا ہے۔اس راستے پاکستانی خوردو نوش کی تجارت سے ہم قیمتی ذر مبادلہ بھی کماسکتے ہیں ۔اس کے علاوہ پورے گلگت بلتستان میں جگہ جگہ بدھ مت کی مقدس نشانیاں موجود ہیں جن کی زیارت کے لیے ہزاروں بدھسٹ آسکتے ہیں اور حکومت کی ٹورازم ڈیولپمنٹ پالیسی پر گہرے مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں.
سن اڑتالیس سے سکردو کارگل شاہراہ ،خپلو نوبرہ اور استور گریز روڈ بند پڑے ہیں ۔یہ شاہراہیں ہزاروں سال قدیمی اور تاریخی راستے ہیں جن کو کھولنے کے لیے کسی قسم کے خصوصی فنڈز کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔سکردو کارگل روڈ پر محض ایک کچی دیوار کھڑی کی گئی ہے جو بارڈر وزٹ کرنے والوں کو دور سے صاف نظر آتی ہے ۔بس اس دیوار کو ہٹادیں تو آگے بھی شاہراہ تیار حالت میں موجود ہے ۔۔۔کچھ عرصہ پہلے فورس کمانڈر گگت بلتستان نے اس بارے میں ایک حوصلہ افزا بیان بھی دیا تھا مگر ان کو بھی ظاہر ہے آپ کی طرف سے گرین سگنل کا انتظار ہوگا ۔۔۔لہذا کر گزریں یہ نیکی بھی خان صاحب ۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply