میرا گاؤں، مداری اور تماشا۔۔۔محمد وسیم

میرے گاؤں کا نام پنڈی سرہال  ہے۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 72 برس مکمل ہو چکے ہیں، لیکن آج بھی دنیا ہمیں تیسری دنیا کے ایک ملک کی حیثیت سے جانتی ہے۔ یہی حال میرے گاؤں کا بھی ہے۔

میرے گاؤں کی سڑک  ، جسے بھلے وقتوں میں کسی خدا ترس بندے نے بنوا دیا تھا، اب کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی  ہے۔ 2018  کے الیکشن سے دو تین ماہ پہلے ایک چھوٹے  سے  ٹکڑے کو دوبارہ بنا دیا گیا تھا، تاکہ الیکشن میں ووٹ لیتے وقت یہ “چھنکنا” بجایا جا سکے، اور باقی کی سڑک  الیکشن کے بعد بنانے کا ایک “چھنکنا” میرے گاؤں کے لوگوں کو بھی دے دیا گیا تھا، جو اب وہ اگلے الیکشن تک بجاتے رہیں گے۔

گاؤں میں ایک چھوٹا سا سٹاپ ہے، جہاں سے گاڑیاں پنڈی اور دوسرے اردگرد کے علاقوں میں مسافروں کو لے کر جاتی ہیں۔ اس سٹاپ کے نزدیک دو  تین سال پہلے  سڑک کے درمیان میں بارش کے پانی سے ایک گڑھا بن گیا تھا جس میں آج بھی بہت سا پانی موجود ہوتا ہے۔ گاؤں کی انتظامیہ نے اسے ایک “چھوٹا ڈیم” بنا دیا ہے۔ جس سے تاحال لوگوں کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے، اور ان کے کپڑے گندے کرنے کے سوا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا ہے۔ انتظامیہ کا خیال ہے کہ وہ اس “ڈیم” سے اتنی بجلی بنانے میں کامیاب ہو جائے گی، جس سے میرا گاؤں بجلی کی پیداوار میں خود کفیل ہو جائے گا۔

میرے گاؤں میں ایک سرکاری ہسپتال نما ڈسپنسری بھی موجود ہے۔جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، مجھے وہاں ڈاکٹر، مریض اور علاج نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ اس بات کا ہر گز یہ مطلب نہ نکالا جائے کہ میرے گاؤں میں بیماری نام کی بھی کوئی چیز موجود نہیں۔ یہ ڈسپنسری اب جنگل کا  “منظر” پیش کرتی ہے، اور اس میں اکثر “گدھوں”کو دیکھا گیا ہے۔ میری انتظامیہ سے گزارش ہے کے وہ “محکمہ جنگلات” کے کسی افسر یا سپاہی کو اس کی نگرانی پر معمور کر دے، تاکہ میرے پنڈی سرہال کے اس عظیم ورثے کی “گدھوں” سے حفاظت کی جا سکے۔

جیسے ہر پانچ سال بعد پاکستان میں الیکشن کے نام پر ایک تماشا لگایا جاتا ہے، اسی طرح میرے گاؤں میں بھی اس تماشے کی پورے جوش و جذبے کے ساتھ تیاری کی جاتی ہے۔ تمام پارٹیوں کے مداری جنہیں ان کی پارٹی کی طرف سے ہونے والے الیکشن کے لیے  نامزد کیا جاتا ہے، ڈیڑھ دو مہینے پہلے ہمارے گاؤں کے چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ الیکشن سے پہلے کے اس تمام عرصے میں اپنے “بندروں” کو اچھی طرح سے تربیت دیتے ہیں۔ جب ان کی ٹریننگ مکمل ہو جاتی ہے تو الیکشن سے ٹھیک دو تین دن پہلے تمام پارٹیاں اپنا اپنا تماشا  پیش کرتی ہیں۔ گاؤں کے لوگ ٹولیاں بنا لیتے ہیں، اور اپنے مرضی کے کسی ایک تماشے میں شریک ہو جاتے ہیں۔ مداری صاحب ایک سٹیج پر بیٹھے ہوتے ہیں اور ان کے تیار کردہ بندر اپنا “بندر ناچ” عوام کے سامنے پرفارم کرتے ہیں۔ آخر میں مداری صاحب آتے ہیں “حالات” کا ر  ونا روتے ہیں، شدتِ  جذبات سے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجاتی ہیں۔ وہ پنڈال میں موجود لوگوں سے ان کے قیمتی ووٹ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جس کا ان کے  خیال میں ان مداری صاحب سے زیادہ اور کوئی “حقدار” نہیں ہوتا۔ دوسرے مداری بھی اپنے اپنے تماشوں میں اسی قسم کا طریقہ کار اپناتے ہیں۔

لوگ بھی بہت ہوشیار ہیں وہ ووٹ اسے ہی ڈالتے ہیں جس کی گاڑی اسے گھر سے لینے آئی ہوتی ہے، یہ اور بات ہے کہ اس کے بعد انہیں اپنا اگلا مقدس اور قیمتی ووٹ ڈالنے تک اس گاڑی کی دھول ہی نصیب ہوتی ہے۔

اب کی بار   ووٹ لینے والے ان مداریوں کو اپنا تماشا ختم کیے ڈیڑھ سال گزر چکا ہے۔ اس عرصہ میں انہیں وہ قیمتی اور مقدس ووٹ بھول چکا ہے، جو انہوں نے میرے گاؤں کے لوگوں سے لیا تھا۔ میرے گاؤں کے مسائل آج بھی وہی  ہیں جہاں “72” سال پہلے تھے، اور مستقبل قریب میں ان حالات میں بہتری کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔

اگر کبھی الیکشن کا سین بن گیا تو پھر سے میرے گاؤں میں میلہ لگ جائے گا، اور مداری اپنے مقدس اور قیمتی ووٹ حاصل کرنے کے لیے اپنے “بندروں کی بازی” لگا دیں گے۔
میرا گاؤں جیسا ہے، ویسے کا ویسا ہی رہ جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply