ایک دن پہلے دفتر کے باہر کھڑے سگریٹ کا کش لگاتے آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھتے اُسی اُداسی نے گھیر لیا جو ایسے موقع پہ آن پکڑتی ہے، جب ہم زندگی کے موضوع بارے سوچنے لگتے ہیں _ میں کہاں تھا؟ کہاں ہوں؟ اور کہاں ہوں گا ؟ مجھے بارش بہت پسند تھی اور صحرا بالکل پسند نہ تھا مگر میں قدرت کی منشاء کے مطابق پاکستان سے بے دخل کر دیا گیا اور ایسے ملک کے صحرا میں پھینک دیا گیا جس کے بارے میں بڑے بول بول چکا تھا کہ اول تو میں کبھی پاکستان چھوڑ کے نہیں جاوں گا . کہیں بھی اور اگر کبھی گیا تو سعودی عرب آخری ملک ہوگا جہاں میں کبھی جانے کا سوچوں گا -مگر میرے وہم و گمان کے بالکل الٹ مجھے پاکستان کی جان لیوا گیلی حقیقت میں ڈوبنے سے بچاتے ہوئے قدرت نے بالکل ویسے ہی اٹھا کر اس صحرا کی خشکی میں اتار دیا، جیسے میں اکثر واش روم میں بیٹھا جب کسی چیونٹی کو پانی میں ڈوبتے دیکھتا ہوں تو اسے اپنی انگلی سے کسی خشک کونے میں اتار دیتا ہوں۔ اور پھر خوشی سے اسے چلتے دیکھتا ہوں۔ اس چیونٹی کی ان بولی دعائیں سن کر مسکراتا ہوں اور دل قدرت کے آگے جھکا کر عاجزی کا نظرانہ پیش کرتا ہوں کہ اس فیصلے کے دن مجھے بھی ایسے ہی بچا لینا –
چند مہینے پہلے اپنی پاکستان یاترا سے واپسی سے لے کر اب تک اپنے دل کی حالت زار اور خشکی پہ سخت اضطراب کی کیفیت میں نہ جانے کہاں سے پاکستان کا اُبلا سِٹّہ مجھے یاد آگیا -سکول کے زمانے میں آدھی چھٹی کے دوران اسکول گیٹ کے باہر ابلے سٹے والا اپنی چھابڑی لگائے کھڑا ہوتا تھا – یا گلیوں میں ہمارے پٹھان بھائی ریڑھی پہ ابلے سٹے ، ساتھ میں مصالحہ اور املی کا کھٹا لگا کربیچتے تھے – اس دور میں بہت محدود جیب خرچ ہوا کرتا تھا جب ہم اسکول جاتے تھے – لہٰذا جو بھی چیز کھاتے تھے اس کا ذائقہ منہ میں کئی گھنٹوں تک محسوس کرتے تھے – اْبلا سٹہ ! مصالحہ اور چٹخارے دار کھٹہ ! اس سے پہلے کہ منہ میں پانی آتا آسمان کی طرف دیکھتے ہی احساس ہوگیا کہ میں ایسی جگہ کھڑا ہوں جہاں نہ تو کوئی ابلے سٹے بیچنے والا ہو سکتا ہے اور نہ ہی میں نے پچھلے چار سالہ قیام کے دوران کسی سبزی منڈی میں بھی سٹے کی شکل دیکھی ہے – مجھے کبھی بھی سٹے کھانے کی اتنی خواہش نہیں ہوئی تھی اور خود پہ ہنسی بھی آئی کہ عجیب انسان ہوں میں بھی – کھڑے کھڑے کیا سوجھتی ہے مجھے بھی – سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مجھے ابلا سٹہ مل جائے یہاں – اپنا سگریٹ ختم کیا اور خود کو تھپکی دیکر کہا کہ چل بیٹا واپس اپنے کولہو پہ اور بن جا پھر سے وہ بیل جو اس کے اردگرد چکر لگا کر تیل نکالتا ہے- اگلے دن چھٹی تھی- رات جلدی سو گیا اور جمعے سے پہلے اٹھ کر ناشتہ بنایا اور گھنٹے بعد مسجد کا رخ کیا – یہاں کی ایک بڑی جامع مسجد کے احاطے میں کچھ لوگ عارضی اسٹال لگا کر مختلف سامان کے ساتھ موجود ہوتے ہیں – کھجوریں ، ٹوپیاں ، پرفیوم، بچوں کے کھلونے ،پھل ، وغیرہ وغیرہ – جمعے سے پہلے کوئی خریداری نہیں کرتا اور اسٹال خالی پڑے ہوتے ہیں – رش بھی نہیں ہوتا اور سب صاف نظر آتا ہے کہ آج مینیو میں کیا کیا ہے ؟ میں نے گزرتے ہوئے نظر دوڑائی — ابلا سٹہ؟ حسب توقع ایک بڑی ساری ناں – مسجد میں داخل ہوکر نماز پڑھی اور حسب معمول مسلمان نماز ختم ہوتے ہی جو کام سب سے پہلے کرتے ہیں وہی میں نے بھی کیا – جوتے کی تلاش ! پھر خیال آیا کہ کھجوریں ختم ہو چکی ہیں اور صبح اٹھتے ساتھ کھانی لازمی ہیں – امی کی پہلی نصیحت میں دیر ہوگئی تھی کہ بیٹا کبھی سگریٹ کو ہاتھ نہ لگانا ورنہ یہ جان نہیں چھوڑتا – لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو پہلے ہی میری جان کو چمٹ چکی ہے تو حقیقت پسندی کا ادراک کرتے ہوۓ انہوں نے نصیحت کی تھی کہ سگریٹ کبھی خالی پیٹ پینے کی عادت نہ ڈالنا- سو صبح صبح کھجور کھانا اچھا بھی لگتا ہے اور مفید بھی – ورنہ میں تو خالی پیٹ سگریٹ کا بہت آسانی سے عادی ہونے کی تمام صلاحیتیں رکھتا ہوں – لہٰذا میں کھجوریں تلاش کرنے لگا – تمام مسلمان ان اسٹالوں پہ ٹوٹ چکے تھے – رش میں سے کھجوروں کا اسٹال ڈھونڈنے لگا – ایک دو اسٹال پہ کھجوریں تو مل گئیں لیکن پسند نہ آئیں اور نکلتے ہوئے سوچا کہ مارکِیٹ سے خریدنا بہتر رہے گا – چلو اور کیا کچھ ہے آج کی اسلامی مارکیٹ میں، ذرا گھوم کے دیکھتے ہیں – اگلے اسٹال پہ ایک باپ دو بچوں کے ساتھ کوئی عربی کھانا بیچ رہا ہے – یہ عجیب سی ڈش تھی جو مجھے پہلی نظر میں سمجھ نہ آئی – پھر اچانک جب سمجھ میں آئی تو میں نے اس اسٹال کے گرد تین دفعہ چکر لگایا کہ کیا واقعی؟ کیا واقعی یہ ابلے سٹے ہیں؟ ایک سفید پلاسٹک کے بیضوی برتن میں پانی کے اندر ہیں تو سٹے اور لگ بھی ابلے ہوئے رہے ہیں – اور بچوں کے ہاتھ میں کیا ہے؟ ایک کے ہاتھ میں کاغذ تھے اور دوسرے کے ہاتھ میں پلاسٹک کے تھیلے اور اس برتن کے پاس پڑی بوتل میں کیا ہے؟ کیا مصالحہ بھی ہے؟ میں نے عربی میں قیمت پوچھی تو پانچ ریال بتائے؟ ارے پانچ ریال میں تو کلو پھل آجاتا ہے _ تو پھر کیا ہوا ؟ یہ جو کل سے خواہش کا ڈھنڈورا پیٹا ہوا تھا آسمان کی طرف دیکھ کر تو کیا اللہ میاں تمہارے لئے اب قیمت کم کر کے دیں؟خود سے سوال جواب میں الجھے بغیر میں نے فورا ًًً پیسے نکالے اور آدمی نے کاغذ پہ سٹہ رکھا اور بوتل سے مصالحے کے بجائے نمک چھڑکا اور مجھے پکڑا دیا – ایک بچے نے عربی میں پوچھا کہ کیا آپ کو لفافہ چاہئے؟ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے نفی میں جواب دیا اور مسکراتا ہوا باہرسڑک کی طرف چل پڑا – کھانا شروع کیا اور مصالحے اور کھٹے کے بغیر پانی اور نمک کے ذائقے کا موازنہ کیا – ارے یہ تو زیادہ مزے دار لگ رہا ہے- مسجد سے گھر تک کھاتا گیا – مسکراتا گیا اور آسمانی سٹہ سمجھ کر مزے لیتا گیا – آسمان کی طرف دیکھ کر اللہ کا شکر بھی کرتا گیا اور تب سے لے کر ابھی تک یہی سوچتا رہا کہ ایسی کون سی بات کی ہے میں نے پچھلے کچھ دنوں میں کہ جو اللہ کو پسند آسکتی ہو؟ کوِئی بھی نہیں – تم تو نماز میں کئی مہینوں سے سخت غفلت کے مرتکب ہو رہے ہو – اسی لئے اللہ نے کئی مہینوں سے تمہاری کسی بات کا جواب نہیں دیا – تم نے کسی کی کوئی خاص مددبھی نہیں کی کہ اس نے دل سے تمہیں دعا ہی دی ہو – تم اس راستے سے کئی مہینوں سے ہٹ چکے ہو جب تمہیں ہم کلامی کا احساس ہوتا تھا – جس صبر کے تم داعی ہو وہ ایک عرصے سے دنیاوی خواہشات اور مستقبل کی فکر سے داغدار ہوچکا ہے – تمہارا دل اپنی خواہشات کی محرومی سے اضطراب کی گرداب میں اٹ چکا ہے اور تمہارا سینہ تنگ اور خالی ہو چکا ہے – تم گناہوں کے مرتکب ہو اور عبادت کے فرائض سے تمہاری روح دور ہوچکی – تم نے جوخود سے عہد کئے تھے تم ان سے غافل ہوچکے – تمہارا وجود سکڑ کر اپنے ہی اندر گم ہوچلا ہے – تم نے کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ جس کا پھل پانے کے تم اہل ہو – یہ تو صرف اللہ کا حسن ہے – رحم ہے – کرم ہے – تم اس چیونٹی کی مانند ہو جو واش روم کے اس حصے میں پھنس جاتی ہے جہاں کوئی رحم دل بھی اپنی انگلی گندی کر کے تمہاری جان بچانے کا سوچے بھی نہیں- ھاں تم نے آسمان کی طرف دیکھا تھا – للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا تھا – ایک معصوم سی خواہش تمہارے اس دل میں پیدا ہوئی جس کا تم نے مناسب الفاظ میں اظہار تک نہیں کیا – مگر وہ جو صحرا میں پھول اگاتا ہے اور جسے کسی چیونٹی کی جان بچانے کے لئے تمہارے جیسے کمزور انسانوں کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اس کی منشا کو سمجھنے کا ادراک اس نے ضرور تمہیں دے رکھا ہے – اگرچہ ایک محدود وقت کے لئے – اور جب تمہارے جیسی چیونٹیاں اپنی ہی بے وقوفی اور حقائق کی نظر اندازی سے کسی مشکل میں پھنستی ہیں تو وہ انہیں صرف اشارے سے سمجھاتا ہے – اگر وہ سمجھ جائیں تو صحیح راستے کی طرف چل پڑتی ہیں اور ہلاک ہونے سے بچ جاتی ہیں – اور اگر اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتیں تو ان کے راستے میں وہی ایک رسّی ہوتی ہے۔ جسے وہ کبھی کھولتے ہیں اور کبھی باندھتے ہیں اور کبھی اس کے اوپر سے گزرنے کا سوچتے ہیں – مگر سیڑھیاں چڑھنے سے پہلے ہی ان کی آنکھ کھل جاتی ہے !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں