وجاہت مسعود، تمدنی مکالمہ یا سوفسطائی حیلے ۔پہلا حصّہ

لبرل ڈیموکریسی اور سیکولر ازم کی علمبردار ویب سائٹ " ہم سب" پہ اہلسنت والجماعت نام کی ایک تنظیم کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی سے بات چیت کا خلاصہ شایع کیا گیا۔ اس پہ بہت شدید ردعمل سامنے آیا۔میرا اس انٹرویو نما شذرے پہ اعتراض یہ تھا کہ ایک تو اس کا انٹرو یو/تہمید خوشامدانہ تھی اور دوسرا اسے مختلف مکاتب فکر کے درمیان اختلاف کی خلیج پاٹنے کا عمل قرار دیا گیا جو سرے سے غلط ہے کیونکہ جس تنظیم کے سربراہ کی بات چیت شایع کی گئی وہ کسی بھی طرح سے نہ تو اہلسنت کی اکثریت کی نمائندہ ہے اور نہ ہی دیوبند مکتبہ فکر کی اکثریت و جمہور کی وہ ترجمانی کرتی ہے بلکہ یہ دیوبندی مکتبہ فکر میں ایک خارجی ، تکفیری ، ناصبی رجحان رکھنے والی اور انتہا پسند ، دہشت گرد تنظیم ہے جسے اس کی دہشت گرد سرگرمیوں کے سبب ہر بار کالعدم قرار دیا گیا جب بھی اس نے نام بدل بدل کر کام کرنے کی کوشش کی۔اس انٹرویو پہ جب شدید ردعمل آیا تو پہلا جواب اس انٹرویو کو کرنے والے عدنان کاکڑ کی جانب سے آیا۔ان کا کہنا تھا کہ "جو لدھیانوی نے کہا وہ شایع کردیا گیا ،صحافی کا کام اتنا ہی ہوتا ہے"۔ اس انٹرویو کے انٹرو میں کہا گیا تھا کہ سخت ترین سوالات لدھیانوی سے کئے گئے تو جو بات چیت شایع ہوئی اس میں سخت ترین سوالات کا کہیں وجود نہ تھا اور نہ ہی جوابات سے لگا کہ کوئی سخت سوال پوچھے گئے ہوں گے۔کافی دنوں تک اس انٹرویو کے جواز کے طور پہ وجاہت مسعود، عدنان کاکٹر اور ان کے دوستوں کی جانب سے جو جوابات دئے جاتے رہے وہ مطمئن کرنے والے نہیں تھے۔اس کے بعد وجاہت مسعود باقاعدہ اس کا دفاع کرنے میدان میں اترے اور انھوں نے ایک انٹرویو محمد عمار کاظمی کو دیا۔اس انٹرویو نے وجاہت مسعود اور ان کی ٹیم کو ایک طرح سے بالکل ہی بے نقاب کردیا۔یہ انٹرویو یو ٹیوب پہ موجود ہے اور اس کا لنک جب مجھے میسر آیا تو میں نے اس انٹرویو کو دیکھا۔اور اس میں وجاہت مسعود نے جو عذر پیش کئے وہ بدتر از گناہ تھے۔بلکہ ایک دو سوالوں پہ تو وہ بالکل ہی بے نقاب ہوگئے۔اور اسے آپ زبان کی لغزش بھی کہہ سکتے ہیں اور فرائیڈ نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ پیراکسز یا زبان کا پھسلنا بے سبب نہیں ہوا کرتا۔
وجاہت مسعود نے اپنی ایڈمن ٹیم کے اراکین کی جانب سے ایک تکفیری ، فاشسٹ ،الٹرا کنزرویٹو تنظم کے سربراہ کے انٹرویو کا جواز دینے کے لئے ایسے قیاس بھی کئے جن کو منطق کی زبان میں قیاس مع الفارق بھی کہتے ہیں۔قیاس مع الفارق کا مطلب دو ایسی چیزوں میں مماثلت ثابت کرنا جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوں۔اسے سادہ زبان میں ہم "دور کی کوڑی" لانا بھی کہتے ہیں۔دور کی کوڑی وجاہت مسعود نیلسن منڈیلا کے اپارتھائیڈ حکومت بوتھا پی ڈبلیو سے مذاکرات کے حوالے سے لائے۔اور یہاں انہوں نے کچھ باقاعدہ حقائق چھپائے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ مذاکرات کی پیشکش نیلسن منڈیلا کی جانب سے نہیں آئی تھی۔1985ء میں بوتھا پی ڈبلیو نے نیلسن منڈیلا کو مشروط رہائی کی پیشکش کی اور شرط یہ تھی کہ نیلسن منڈیلا کی پارٹی اے این سی وائلنس کی مذمت جاری کرے۔اس پیشکش کو منڈیلا نے مسترد کیا اور یہ بھی واضح کیا کہ بوتھا حکومت جسے وائلنس کہتی ہے وہ مزاحمت ہے اور مزاحمت کا راستا اس وقت اختیار کیا گیا جب سب راستے بند کردئے گئے۔اور یہ بھی یاد رہے کہ اے این سی کسی بھی نسل یا مذہب کے خلاف جدوجہد نہیں کررہی تھی بلکہ وہ تو آزادی کے ساتھ ساتھ سیاہ فام آبادی کے خلاف ایک نسلی فاشسٹ نظام کے خلاف جدوجہد کررہی تھی۔اور نہ یہ کوئی ایتھنک خانہ جنگی تھی اور نہ ہی یہ کوئی سول وار تھی۔1985ء سے لیکر 1989ء تک بوتھا حکومت نیلسن منڈیلا کو رضامند کرنے کی کوشش کرتی رہی اور جب وہ نیلسن منڈیلا کے بنیادی موقف کو تسلیم کرنے پہ آمادہ ہوئی تو نیلسن منڈیلا ان سے بات چیت پہ آمادہ ہوئے اور اس حوالے سے نیلسن منڈیلا نے یہ انفرادی حثیت سے مذاکرات کئے اور اس بارے اپنے نوٹس میں جو کچھ لکھا وہ واضح کرتا ہے کہ نیلسن منڈیلا نے بوتھا حکومت کے سارے جرائم گنوائے، ان کی ساری بدمعاشی کو ننگا کیا۔نیلسن منڈیلا نے یہ نہیں کیا تھا کہ انہوں نے بوتھا رجیم کو امن کا سفیر ، نسلی تعصب سے پاک،نسلی جرائم سے مبرا قرار دے ڈالا ہو اور اس کی امیج بلڈنگ کی ہو بالکل ویسے جیسے عدنان کاکٹر کے انٹرو سے اور انٹرویو سے انتخاب کردہ مواد کو پڑھنے سے ہوتی ہے۔نیلسن منڈیلا کے بوتھا رجیم سے مذاکرات اور دیگر تفصیلات بارے معلوم کرنے کے لئے درج ذیل لنک کو وزٹ کرکے پڑھا جاسکتا ہے۔
http://www.sahistory.org.za/dated-event/president-p-w-botha-offers-nelson-mandela-conditional-release-prison
http://www.sahistory.org.za/dated-event/nelson-mandela-meets-president-pw-botha-begin-negotiating-end-apartheid
وجاہت مسعود نے اس انٹرویو میں اپنے سننے والوں کے لئے دلیل لانے کے لئے صریحی جھوٹ بولنے سے بھی گریز نہیں کیا ہے۔وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے درمیان 1983ء میں ایک ڈیل ہوئی جس کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو ملک سے باہر گئیں۔اور وجاہت مسعود یہ بھی کہتے ہیں کہ اپریل 1986ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان آمد بھی جنرل ضیاء الحق سے ڈیل کا نتیجہ تھی۔وہ اس حوالے سے کوئی دستاویزی ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہے۔لیکن ہمارے پاس اس زمانے کے کچھ شواہد موجود ہیں۔اگر آپ 82ء اور 83ء دو سالوں کے اخبارات کی فائل اٹھاکر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ایسی افواہیں ضیاء الحق کے حواری پھیلارہے تھے کہ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو جنرل ضیاء الحق سے ڈیل کرنے کی خواہش مند ہیں۔یہ افواہیں اس لئے پھیلائی جارہی تھیں کہ بے نظیر بھٹو کی نظر بندی اور اس دوران کی ان کے کان کی تکلیف میں شدید اضافہ ہونے کے سبب بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا دباؤ ضیاء الحق حکومت پہ بڑھ رہا تھا اور بغرض علاج محترمہ بے نظیر بھٹو کو لندن روانہ کرنے پہ زور دیا جارہا تھا۔جنرل ضیاء الحق اس دباؤ کے سبب محترمہ بے نظیر بھٹو کو لندن روانہ ہونے کی اجازت دینے پہ مجبور ہوا۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے " ڈاٹر آف ایسٹ " میں اس بارے ساری روداد لکھی ہے۔اور اپریل 1986ء میں وطن واپسی سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو ایک بڑی کمپئن یورپ اور امریکہ میں چلائی تھی اس کا احوال تفصیل سے درج کیا ہے۔اور یہ بھی درج کیا ہے کہ کیسے ضیاء الحق پہ پوری دنیا سے دباؤ پڑنا شروع ہوا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ جونیجو تھے جنھوں نے ضیاء کی مخالفت کے باوجود بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پہ لاہور اترنے کی اجازت دی تھی۔بے ںظیر بھٹو کے ہزاروں بیانات،تقاریر،تحریریں،انٹرویو موجود ہیں لیکن کہیں انہوں نے جنرل ضیاء الحق سے ڈیل کا ذکر نہیں کیا۔بلکہ وہ ساری عمر ضیاءالحقیت کو کینسر قرار دیتی رہیں۔لیکن وجاہت مسعود ضیاء الحق کیمپ کا پروپیگنڈا بے نظیر بھٹو کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ تکفیری فاشزم کی پروجیکشن کا جواز تلاش کرسکیں۔
وجاہت مسعود نے ایک اور علمی گمراہی یہ پھیلائی کہ بے نظیر بھٹو کی آخری کتاب جو ان کی وفات کے بعد شایع ہوئی کے بارے ميں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ شاید پولیٹکل اسلامسٹ /جہادازم/تکفیر ازم سے بات چیت اور مفاہمت پہ مبنی ہے جبکہ اس کتاب میں بے نظیر بھٹو نے تو اسلام اور ڈیموکریسی کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ بتلایا اور اس میں انھوں نے سلفی ازم، مودودی ازم ، ریڈیکل پولیٹکل اسلام ازم، اخوان ازم کو مسترد کیا اور مغرب کو یہ طعنہ دیا کہ اس نے سرد جنگوں کے دنوں میں مذہبی پیشوایت اور آمروں کو سپیس دی، سپورٹ کیا اور جمہوری طاقتوں کو دیوار سے لگایا اور انہوں نے اس کتاب میں مغرب کو یہ کہنے کی کوشش کی کہ اگر وہ نائن الیون جیسے واقعات سے بچنا چاہتے ہیں تو ان کو مسلم دنیا میں سیکولر ، لبرل جمہوریت پسندوں کا ساتھ دینا ہوگا تاکہ وہ مذہبی پیشوائیت اور ریڈیکل ازم کو شکست فاش دیں۔
وجاہت مسعود نے گاندھی کی مثال دی۔میں وجاہت مسعود سے صرف یہ پوچھتا ہوں کہ جب بہار، آسام اور مغربی بنگال میں فسادات تھے ، مسلمانوں کا قتل عام ہورہا تھا تو گاندھی اور حسین شہید سہروردی دونوں نے فساد والے علاقوں میں کیا ہندؤ مہا سبھائیوں، آر ایس ایس والوں سے مذاکرات کئے تھے؟ کیا ان کو امن کا سفیر بتلایا تھا؟بلکہ گاندھی جی نے آر ایس ایس کی کھلی مذمت کی اور اس کے سبب ان کو گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔گاندھی جی نے کبھی پنجاب کے ہندؤ فرقہ پرستوں جیسے آریہ سماجی تھے ان کی فرقہ وارانہ سرگرمیوں کے باوجود ان کو گلے سے نہیں لگایا تھا اور جب راجپال جیسے کی کتاب سامنے آئی تھی تو یہ گاندھی جی تھے جنھوں نے پنجاب کے ہندؤ آریہ سماجی ورناکیولر پریس کو گٹر پریس قرار دیا۔ایسی دلیلوں کو مںطق کی زبان میں سفسطہ ، سوفسطائی دلائل کہتے ہیں۔ سادہ زبان میں اسے دودھ کو کالا اور شہد کو کڑوا ثابت کرنا کہتے ہیں۔
(مکالمہ کا اس تحریر اور اسکے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر محترم وجاہت مسعود یا کوئی اور دوست جواب دینا چاہیں تو مکالمہ حاضر ہے۔ ایڈیٹر)

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”وجاہت مسعود، تمدنی مکالمہ یا سوفسطائی حیلے ۔پہلا حصّہ

Leave a Reply