صاحب ویزہ لگ جائے گا؟۔۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

ایک خوشنما باغ کی سیر جو پختونوں کو کروائی جا رہی ہے
فضاء سوگوار تھی ہر طرف ایک ہڑبونگ مچی ہوئی تھی لوگ دھڑا دھڑ یہاں سے وہاں بھاگتے پھر رہے تھے بازاروں میں رش اتنا کہ پاوں رکھنے کو جگہ نہ  تھی، اشیائے خوردونوش اور راشن کی  دکانوں پر دھکم پیل کی وجہ سے بہت سے بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں ہجوم  کی وجہ سے  بُری طرح ہانپ رہے تھے مگر کوئی پُرسانِ حال نہ تھا ۔۔کچھ بچے بھی اُن کے درمیان پھنسے ہوئے تھے ہر ایک کی یہی کوشش تھی کہ اُس کی مطلوبہ اشیاء اُسے جلدی مل جائیں  اور وہ اِس محشر نما جگہ سے نکل جائے، دکانداروں نے اپنی دکانوں کے دروازے بند کر رکھے تھے اور خود بھی اندر ہی موجود تھے باہر سے ہجوم اُن دروازوں کو لاتوں اور گھونسوں سے گویا مسمار کرنے پر تُلا ہوا تھا۔مگر حالت وہیں  کی وہیں ۔۔ یہ حالت صرف ایک دکان یا گودام کی نہیں بلکہ شہر میں موجود ہر اُس جگہ کی تھی جہاں پر انسانی خوراک کی موجودگی تھی، کچھ کمزور قوت برداشت کے لوگ ہجوم میں گر گئے تھے اور دوبارہ اٹھنے کی سکت شاید اُن میں نہ  تھی۔ وہ یا تو بےہوش ہو چکے تھے یا شاید لوگوں کے قدموں کے نیچے کچل کر دائمی اجل کو لبیک کہہ گئے تھے، لوگ  نعرے لگا رہے تھے، ” آزاد پشتونستان زندہ باد زندہ باد” سڑک پر دوڑتی گاڑیوں نے الگ سے ایک قیامت بپا کر رکھی تھی جن میں موسیقی تیز آواز کے ساتھ  بج  رہی تھی۔ جب جب کوئی ایسی گاڑی وہاں اِس ہجوم کے قریب سے گزرتی تو ہجوم سے ایک بار پھر وہی نعرے بلند ہوتے ” زندہ باد آزاد پشتونستان زندہ باد ” اور دوسرے ہی لمحے وہ پھر سے اپنے کام میں مشغول ہو جاتے، کافی دیر گزری کہ اچانک ایک طرف سے کچھ لوگ آئے اور اِسی ہجوم کا حصہ بن گئے، نئے آنے والوں نے یہ بات مشہور کردی کہ اب جو پیسہ اُن کے پاس ہے اِس کے بدلے کچھ نہیں ملے گا کیونکہ ہم ” آزاد پشتونستان ” میں اپنا سکہ رائج کریں گے، یہ بات سنتے ہی جیسے ہجوم پر آسمانی بجلی گر پڑی ہو ۔۔وہ ایک دوسرے کو مردہ نظروں سے دیکھنے لگے.

بیٹا جلدی کرو تمھارے ابا کی طبیعت بہت خراب ہے جلدی سے اسے ہسپتال پہنچا دو نہیں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے، امجد خان کی اماں نے اپنے بیٹے کو پُکارا، وہ جلدی سے اٹھا اور باہر کی طرف دوڑ لگائی جلد ہی اسے ایک ٹیکسی ملی اور وہ اُس میں بیٹھ کر گھر کی طرف آنے لگا کچھ دیر بعد ٹیکسی اُن کے گھر کے باہر رک گئی وہ اترا اور جلدی سے گھر میں داخل ہوا اپنے بابا کو کندھے پر لاد کر گھر سے باہر نکالا اور ٹیکسی تک لے آیا ٹیکسی اسٹارٹ ہوئی اور ہسپتال کی جانب چل پڑی، ہسپتال پہنچ کر امجد خان نے اپنے ابا کو باہر نکالا اور قریب ہی ایک ویل چیئر پر بٹھا کر اسے ہسپتال کے اندر لے گیا حادثات اتفاقیہ میں جیسے ہی داخل ہوا تو وہ ٹھٹک گیا وہ جگہ مریضوں سے بھری ہوئی تھی ہر طرف آہیں اور دردناک چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ کسی کے سر سے خون بہہ رہا تھا تو کسی کی  ٹانگ سے، کوئی دل کے مریض کا سینہ زور زور سے دبا رہا تھا تو کوئی اپنے پیارے کی موت پر رو رہا تھا پوچھنے پر معلوم ہوا کہ چونکہ یہاں پر کام کرنے والے ڈاکٹروں کا تعلق یہاں سے نہیں تھا اس لئے انہوں نے ” آزاد پشتونستان ” بنتے ہی یہاں سے ہجرت کرلی اور فی الحال کوئی ڈاکٹر نہیں اور نہ  ہی کوئی دوائی وغیرہ بچی ہے جو کچھ تھا ختم ہوچکا اور اب اور کہاں سے آئے گا معلوم نہیں، امجد خان نے مایوسی سے سر جھکایا اور اپنے ابا کی طرف دیکھنے لگا جس کا سر ایک طرف کو ڈھلک چکا تھا اُس کى آنکھوں سے دو آنسوؤں کے قطرے نکل پڑے عین اُسی وقت کہیں سے کچھ لوگ نعرے بلند کر رہے تھے،
” آزاد پشتونستان زندہ باد ”

سڑک پر ایک لمبی قطار گاڑیوں کی کھڑی تھی جن میں بچے بوڑھے اور جوان مرد اور عورتیں سبھی تھے گرمی سے اُن سب کا بُرا حال تھا کسی کو معلوم نہ تھا کہ راستہ کیوں بند ہے اور گاڑیاں آگے کیوں نہیں جا رہی بہت دیر ہوئی بہت سے بچے اب مسلسل رونے لگے تھے شاید اُن کو بھوک لگى تھی لوگ گاڑیوں سے اُترے اور اُس جگہ پر جانے لگے جہاں راستہ بند تھا، قریب پہنچے تو دیکھا کہ کچھ لوگ ہاتھوں میں بندوقیں لئے کھڑے تھے اور وہ کہہ رہے تھے کہ اب یہاں سے آگے کوئی نہیں جائے گا پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اب ہم
” آزاد پشتونستان ” کے باسی ہیں لہذا یہاں ہماری سرحد کا  اختتام ہوتا ہے، سب لوگ حیران و پریشان کھڑے تھے کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ سب کیا ہے کل تک وہ اِنہی راہوں پر میلوں دور کا سفر کرتے رہے اور آج اچانک اُن پر یہ راہیں بند کر دی گئی تھی بہت انتظار کیا مگر راستہ نہ کھلا سب لوگ واپس جانے لگے جن میں بہت سے مریض، بہت سے طالب علم، بیرون ملک سفر کرنے والے مسافر وغیرہ شامل تھے اب واپس اُسی جانب جانے لگے جہاں سے وہ آئے تھے، ایک آدمی نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے سبز رنگ کے پاسپورٹ کو دیکھا اور اُسے دل سے لگا لیا اُس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا اور اِسی لمحے اُس نے سنا ” آزاد پشتونستان زندہ باد ”

کئی مہینے گزر گئے اور لوگوں نے یہاں سے وہاں نقل مکانی کی جہاں اُن کو دو وقت کی روٹی عزت کے ساتھ مل سکے مگر ایسی کوئی جگہ نہ تھی جہاں زندگی کے دن پرانے جیسے گزرتے ۔ہر آنکھ آشکبار تھی ہر انسان کا چہرہ گرد میں چھپا ہوا، لوگ در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور تھے کوئی جائے پناہ نہ  تھی نہ  کوئی کام نہ روزگار ۔۔۔اُن بازاروں میں جہاں پر خوشی کے نغمے گونجتے تھے اب ویرانی چھائی ہوئی تھی بچے سارہ دن آوارہ گردی کرتے اور جوان یہاں وہاں دو وقت کی روٹی کمانے خوار ہوتے۔ بوڑھے اپنی پرانی یادوں کو یاد کرکے روتے اور اُن پر ملامت کرتے جن کی وجہ سے اِنہیں یہ دن دیکھنے پڑے تھے، وہ لوگ اب کہیں دکھائی نہیں دیتے تھے جو ” آزاد پشتونستان زندہ باد ” کے نعرے بلند کرتے رہتے تھے شاید وہ کہیں دور جاکر اِن کی اِس حالت کو دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے، نہ  ہی اب وہ تعلیمی ادارے تھے جہاں سے پڑھ لکھ کر اُن کے بچے معاشرے میں ایک مثبت کردار ادا کرتے اور نہ  ہی اب وہ علاج معالجے کے مراکز جہاں پر ہر درد کی دوا میسر ہوتی وہ ایک زندان میں گِھر چکے تھے جہاں سے نکلنے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی تھی، ہر طرف بد نظمی کا بول بالا تھا، اِس ماحول اور اس وحشت سے تنگ آکر امجد خان پیدل چلنے لگا اور اُس جگہ پر پہنچا جہاں سے اُس کو وہ کاغذت ملنے تھے جس کی وجہ سے اُس کے پَر آزاد ہو سکتے تھے اور وہ پھر اُس جہاں میں جاسکتا تھا ۔۔جب وہ وہاں پہنچا تو ایک جمِ غفیر اور انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہجوم تھا ہر ایک کے ہاتھ میں کچھ سفید سفید سے کاغذ تھے جن پر کچھ لکھا ہوا تھا وہ سب لوگ ایک عمارت کے سامنے کھڑے تھے اُس کی نگاہ عمارت کے اُوپری سطح پر گئی اور اُس نے دیکھا کہ ” سبز ہلالی” پرچم ہوا کے دُوش پر نغمہ گو تھا، جب اُس کی باری آئی تو اُس نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاغذات اُس شخص کی طرف بڑھا دیئے جو دوسری جانب بیٹھا ہوا تھا، اُس شخص نے اِس کے کاغذات کی جانچ پڑتال کی اور اُس کی طرف دیکھا اور پھر قلم سے اُس پر کچھ لکھنے لگا اُس نے لکھائی کو دیکھنے کی کوشش کی مگر دیکھ نہیں پایا تب اُس نے بیٹھے ہوئے شخص سے کہا.

Advertisements
julia rana solicitors london

صاحب کیا میرا ویزہ لگ جائے گا میری ماں آخری سانسیں لے رہی ہے مجھے جانے دو، یہاں وہ مر جائے  گی اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے.

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply