ہیومن رائٹس۔۔رفاقت کاظمی

گزشتہ روز ہیومن رائٹس کا عالمی دن گزر گیا۔سوشل میڈیا اور گردونواح میں اسکے پرچار کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے جن میں کچھ سلفی مافیا ہاتھ میں بینر لیے سوشل میڈیا کے ایونٹ کے لیے تصاویر بناتے نظر آۓ۔اپنا دل بھی مچل گیا آخر یہ معاملہ کیا ہے اور کون سے ہیومن رائٹس ہیں جن پر یہ واویلا کیا جا رہاہے یا جن کی تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں کون لوگ ہیں اس کے پیچھے یا کون سی تنظیمیں ہیں جو اس کام کو کدھر اور کیونکر کر رہی ہیں یا اجا گر کر رہی ہیں۔بہت سارے سوال اٹھے اور شاید اسی طرح کے کئی  سوال ایک عام آدمی کے  ذہن میں بھی اٹھے ہوں تو سوچا آج کچھ اس پہ ہی اظہار خیال کیاجاۓ۔

پہلی بات میرے  ناقص علم کے مطابق “ہیومن رائٹس” انگریزی کے دو لفظوں کامجموعہ ہے۔ہیومن کا مطلب انسان اور رائٹس کا مطلب حقوق ہیں۔یعنی دونوں کو ملا کے پڑھا جاۓ تو لفظی مطلب انسانی حقوق بن جاۓ گا۔لفظی معنی کو دیکھا جاۓ تو ہر عام اور خاص کو یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ جہاں انسانوں کے حقوق کی پامالی کی جاتی ہو وہاں پر ان کے حقوق کو پامال ہونے سے بچانے کے لیے اور انھیں بحال رکھنے کے لیے جو کاوشیں کی جاتی ہیں باقاعدہ اور منظم طور پر اس پلیٹ فارم کو ہیومن رائٹس کا فورم یا ہیومن رائٹس کہا جاتا ہے۔

پوری دنیا میں اس کی متعدد تنظیمیں کام کر رہی ہیں ۔اقوام متحدہ کے زیریں بھی ہیں۔کچھ براعظمی کچھ ملکی کچھ صوبائی اور علاقائی سطح پہ بھی کام کر رہی ہیں یہ اعداد وشمار سوشل میڈیا کے مطابق ہیں یعنی اس کے مطابق مختلف تنظیمیں اپنی استطاعت کے مطابق کام کر رہی ہیں۔کیوں کہ اسکا سارا پرچار سوشل میڈیا پہ ہی نظر آتا ہے۔

سوشل میڈیا بہت ہی مزے کی چیز ہے۔میں اس سے بہت زیادہ متاثر ہوں۔۔
بہت سے فوائد میں سے  ،اس کے دو بہت ہی اہم فائدے ہیں۔ایک دنیا کو جوڑ کے رکھ دیا ،لمحوں میں دنیا کے ایک کونے سے خبر دوسرے کونے میں پہنچ جاتی ہے، یہ اس کا مثبت پہلو ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ بندہ دنوں کے اندر مشہور ہو جاتا ہے اور بغیر محنت اور تگ و دو کے شہرت کی بلندیوں پہ پہنچ جاتا ہے۔خیر اس موضوع پہ پھر کبھی بات کرونگا۔یہ علیحدہ سے سیر حاصل بحث والا موضوع ہے۔بات پرچار کی کر رہا تھا سوشل میڈیانے ہیومن رائٹس کے نعرے مارنے والوں اور پرچار کرنے والوں کو بھی مشہور کر دیا ہےہر طرف انکے چرچے ہو رہے ہوتے ہیں لیکن مجھے معذرت کے ساتھ ایسا کیوں لگ رہا  ہے کہ یہ پرچار فیسبک اور ٹیوٹر کی حد تک ہے لوکل تو بے چارے لوکل ہیں ان کے اختیار میں ہی کچھ نہیں ، میں عالمی سطح پہ کام کے دعوے کرنے والوں کا کہہ رہا ہوں۔کیونکہ انکا بھی عملی کام ہوتا ہوا کہیں نظر نہیں  آرہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آۓ روز ہم دیکھتے اور سنتے ہیں مختلف ملکوں یا علاقوں میں حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے دور کیوں جاؤں میں خود کشمیر کا بیٹا ہوں اس کشمیر کا جو پچھلے ستر سال سے دو لخت ہوا پڑا ہے جس کا ایک حصہ تو آزاد ہے لیکن دوسرا حصہ جارحیت اور غاصبیت کا منہ بولتا ثبوت ہے اس علاقے کو بھارت نے مقبوضہ بنا کہ بنیادی حقوق تک غصب کیے ہوۓ ہیں۔اگر ہیومن رائٹس کی تنظیموں کہیں وجود ہوتا تو یہ حال نا ہوتایہ نام نہاد تنظیمیں جو ہیومن رائٹس کا نعرہ مارتی ہیں جو سیلفی مافیا خود کو ہیومن رائٹس کا علمبردار کہتا ہے وہ کشمیر کے معاملے پہ کیوں اندھا گھونگا اور بہرہ بنا ہوا مجھے کیوں لگتا ہے ان نام نہاد ہیومن رائٹس کی تنظیموں میں نا ہیومن ہیں اور انھیں رائٹس کا پتہ ہے اگر اس میں انسان ہوتے تو وہ یوں گھونگے بہرے نا بنے ہوتے جیسے کشمیر کے معاملے پر انکی آنکھوں پہ پٹی بندھی ہوئی ہے یا پھر انھیں کشمیر میں ہیومن نظر نہی آتے اس لیے انکے رائٹس کی فکر نہی ہے اگر ایسا معاملہ ہے تو ان لوگوں کو اپنا قبلہ درست کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں اپنی آنکھوں کی روشنائی پر بھی دھیان دینا ہوگا اور انکے اندھے مقلدوں کو بھی اپنی آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ تباہی کے دہانے پہ تو پہلے ہی سے کھڑے ہیں رہی سہی کثر بھی پوری ہو جاۓ گی ۔اور ان حقوق کے علمبرداروں کو آنکھوں پہ بندھی پٹی کو اتا کر سیلفیوں سے گریز کرتے ہوۓ کام کرنا ہو گا اگر یہ حقیقی معنوں میں خود کو ہیومن رائٹس کا علمبردار کہتے ہین تو مثبت رویہ اختیار کرنا ہوگا وگرنہ دنیا بھری پڑی ہے سیلفیاں بنانے والو سے۔انکا نام بھی اسی فہرست میں رہے گا اور انھیں بھی لوگ سیلفی مافیا کے نام سے ہی یاد رکھیں گے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply