نئے وزیر اعظم کے لیے چند عوامی مشورے

عدلیہ کی طرف سے نا اہل ٹھہرائے جانے کے بعد کیا جانے والا خطاب اس قدر جذباتی ثابت ہوا کہ ن لیگی کارکنوں کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ یقیناً یہ ایک غیر جمہوری فیصلہ تھا اور اقامہ کی بنیاد پر تاحیات نا اہلی کوئی معمولی بات نہیں، پر میاں صاحب آپ کے جذباتی خطاب سے کچھ پسِ پردہ چلنے والے معاملات کی طرف اشارے ملے۔ جن کی بنا پر آپ کو نااہل ہونا پڑا۔ یہ جو ماضی سے اب تک جمہوریت اور آمریت کے درمیان رسہ کشی ہو رہی تھی اس کا کچھ انجام تو ہونا ہی تھا۔ ماضی میں کیے جانے والے فیصلے، اچھالے جانے والے تخت اور دی جانے والی پھانسیوں نے بالآخر آپ کی آنکھیں کھول ہی دیں۔ اور اس کا خمیازہ بھی آپ نے بھگت ہی لیا۔ جو ہونا تھا وہ تو اب ہو چکا۔ اب آگے کی سوچیے۔ نئے وزیرِ اعظم کے لیے شہباز شریف کا نام تجویز کیا گیا ہے لیکن توجہ طلب امر یہ ہے کہ جن”نظریات” کی پیروی کرنے کا ذکر آپ نے 6 بار اپنی آخری تقریر میں فرمایا، کیا شہباز شریف ان”نظریاتی” اصولوں کو آگے لے کر چلنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟

ن لیگ کو ماضی کے فیصلوں سے سبق سیکھتے ہوئے چند اہم اقدامات کرنے ہوں گے۔ پانامہ کے سارے واقعے سے عوام اور ن لیگ کے درمیان جو خلیج پیدا ہوئی ہے اس کو پُر کرنے کے لیے موٹر وے اور رنگ برنگی ٹرینوں کے جال سے زیادہ عوام کو بنیادی ضروریاتِ زندگی فراہم کرنا ہے۔ یہ شوبازی اور رنگ بازی سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اس وقت ملک کی سالمیت کےلیے بیرونی خطرات سے زیادہ اندرونی دشمنوں سے نمٹنا ضروری ہے۔ ملک کو اس وقت ضربوں، تقسیموں اور نفیوں سے فائدہ ہو یا نہ ہو، پر تمام سیاسی جماعتوں کو تمام تر اختلافات بھلا کر جمع ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ملک اور جمہوریت کو ایک ڈگر پر لایا جا سکے۔

منتخب ہونے والے وزیرِ اعظم کے لیے ضروری ہے کہ وہ جمہوری اداروں کو مضبوط اور اداروں کی بالا دستی قائم کرے۔ جن آئینی شقوں کی وجہ سے ن لیگ اس غیر متوقع صدمے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہے اور اس سے جمہوریت کو جو نقصان پہنچا ہے اس میں تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے ترامیم کرنی چاہییں۔ ملک کے وسیع تر مفاد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آپسی تضادات کو دور کرتے ہوئے اتحاد کو قائم کریں۔ اور جو سب سے اہم کام حکمرانوں کے کرنے کے ہیں وہ عوام کے لیے صنعتی ترقی، تعلیم اور صحت کے حوالے سے کیے جانے والے فیصلے ہیں۔ غریب عوام کے لیے میٹرو بس سے زیادہ اہم وہ سڑک ہے جو کسی بھی چھوٹے گاؤں کو شہر سے ملاتی ہے۔ جس کی وجہ سے کسان کو اپنی مصنوعات شہر تک لانے میں آسانی ہوتی ہے یا جس پرکوئی حاملہ عورت ایک نئی زندگی کو جنم دینے سے پہلے خود ملکِ عدم نہیں سدھارتی۔

لوگ بیماریوں کی وجہ سے لقمہ اجل نہ بنیں۔ اس لیے چھوٹے قصبوں میں دیہی مراکزِ صحت کے قیام کے علاوہ ان مراکز کا فعال اور معیاری ہونا بھی ضروری ہے۔ تعلیم کے مواقع ہر کسی کے لیے یکساں ہوں۔ صاف پانی اور بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ بقیہ ماندہ وقت میں ان منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر حل کر کے عوام میں گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کیا جا سکتا ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ سابق وزیرِ اعظم جگرا بڑا کر کے دورانِ اقتدار جمہوریت کی سالمیت کے لئے اہم فیصلے کر لیتے۔ اب جب خالی ہاتھ ہیں اور پارٹی میں آپ کے نظریات کو سمجھنے والے ارکان نہ ہونے کے برابر ہیں تو بھلا آپ کیسے مورچہ سنبھالیں گے۔ ابھی جمہوریت ایک ننھی کونپل کی طرح ہے جسے ہر طرح کے سرد و گرم سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے پھلنے پھولنے کے لیے سیاسی جماعتوں کا اتحاد ضروری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کے علاوہ ملک کے دوسرے صوبوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سوتیلا رویہ بدلنا ہو گا۔ بلوچستان میں ہونے والے پے در پے دہشت گردی کے واقعات اور بلوچوں کے حقوق کے لیے بھی دل کو بڑا کریں۔ پارہ چنار والے واقعے پر وہاں کی عوام اپنے وزیرِ اعظم کی منتظر تھی، اس وقت آپ نے کوئی اہمیت نہ دی اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے “پہنچنے والے” پہنچ گئے۔ اسی طرح لاہور دھماکے کے شہدا کے ورثاء آپ کے منتظر رہے پر آپ کے لیے مالدیپ کا دورہ زیادہ اہم تھا۔ اور بہت سے ایسے واقعات جن سے مستقبل میں سبق سیکھنا نہ صرف ن لیگ بلکہ تمام اپوزیشن جماعتوں کے لیے بھی ضروری ہے تاکہ ہر ایراغیرا نتھو خیرا اپنے نمبر بڑھانے کے لیے عوام کے جذبات کو استعمال نہ کرے۔سمجھنے والے سمجھ گئے ہوں گے۔ جو نہیں سمجھے ان کے لیے دعائے خیر۔

Facebook Comments

مہر ارم بتول
وومنز سٹڈیز اور انتھرپالوجی میں ڈگری حاصل کی اور سیاسی و سماجی موضوعات پر قلمکاری کے ذریعے ان موضوعات کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے جڑے ایشوز پر روشنی ڈالنے کی سعی کرتی ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply