یہ کیسا مرد ہے بھائی؟۔۔۔۔۔دُر بی بی

‎بلوچ معاشرے میں فن و فنون کی بڑی قدر ہوتی ہے، فُٹ بال ہو یا پینٹنگ یا گائیکی ہو یا کوئی اور فن جو نوجوان کے پاس ہو ، اسے ہم بہت سراہتے ہیں اور سراہنا بھی چاہیے کیوں کہ سراہنے سے ہی فن کار کو حوصلہ ملتا ہے۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ دُنیا بنی ہی فن کاروں کے لیے ہے، جسے وہ ہر صورت خوبصورت بناتے ہیں، کبھی گا کر تو کبھی بنا کر۔

ہمارے معاشرے میں جس طرح فن کو سراہتے ہیں ویسے ہی فن کو قید بھی کرتے ہیں، قید سے مراد قطعاً یہ نہیں کہ اسے کہیں بند کر دیتے ہیں لیکن ہاں اس کی حدیں بنا دیتے ہیں حالاں کہ بقولِ فلسفیوں کے کہ فن ایک ایکسپریشن ہے ، اور ایکسپریشن کی کوئی حد کیسے طے کر سکتا ہے؟۔

‎میری یہاں حد سے مراد ایک آرٹ کو سراہنا تو دوسرے آرٹ کو آرٹ ہی نہ سمجھنے سے ہے۔ مثال کے طور پر ، جہاں ہم سیما سردارزئی کی پینٹنگ دیکھ کر واہ واہ کرتے ہیں ، وہیں ہم احمد بلوچ کو ناچتا دیکھ گالیاں بھی دیتے ہیں۔ احمد خان بلوچ ، ایک نوجوان جو آواران (بلوچستان کا سب سے زیادہ استحصال زدہ علاقہ) میں پیدا ہوا اور اپنی بنیادی تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی۔ اس بندے پر خُدا نے کافی مہربانیاں کی ہیں جیسے کے اس کا ذہین ہونا ، پینٹنگ کرنا اور ناچنا۔ جی ہاں، احمد خان بلوچ کلاسیکل ڈانسر بھی ہیں جو کبھی بارش کے چھلکنے پر ناچتا ہے تو کبھی گھنگرو کی جھنکار پر۔ اس کو کلاسیکل ڈانس بے حد بھاتا ہے اور اس قدر خوش قسمت ہے کہ جہاں ہم جیسے دقیانوس لوگ اسے گالیاں دیتے ہیں وہیں اس کی بیوی نازیہ اور اس کے گھر والے اس پر فخر کرتے ہیں۔

‎ایسا نہیں کہ ہم ہر مرد کو ناچتا دیکھ گالیاں دیتے ہیں، نہیں بالکل نہیں ، جہاں مائیکل جیکسن ناچتا تھا تو ہم بھی اپنے کندھے ہلاتے نہیں رکتے تھے اور جہاں ریتک روشن ناچے تو ہم جھومیں، اور تعریفوں کے پُل باندھیں ، کیونکہ ہم منافقین ہیں ، وہ منافقین جو اپنا کوئی کرے تو گالیاں دیتے ہیں اور دوسرا کوئی کرے تو اس کے ساتھ ناچتے ہیں۔

ہم منافقین ، معاشرتی انتہا پسند ہیں جو عورت اور مرد کو دقیانوسی روایتوں کے دائروں میں قید کر کے سانس نہیں لینے دیتے، بلوچ لڑکی نے سر سے دُوپٹہ اتارا ہی نہیں کہ اس پر ہمارے فتوے پہلے نازل ہو جاتے۔ احمد جیسے نوجوان جو لڑکا اور لڑکی سے بالاتر ہو کر اپنے کسی فن کا مظاہرہ کریں تو ہم فوراً کہہ دیتے ہیں کہ یہ کیسا آدمی ہے؟۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے ہمیشہ کے سوالوں کی طرح یہ بھی سوال قومی عدالت میں اپنے لوگوں سے کرنا چاہتی ہوں کہ ہم اجتماعی آذادی کے بات کرنے والے جب تک فردی آذادی کو ترجیح نہیں دیتے تو ہم کیسے ایک آزاد و برابر سماج کا خواب دیکھ سکتے ہیں؟

آرٹ کو جینے دو اور احمد خان بلوچ کو جھومنے دو !

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply