• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ۔ پاکستان میں ضروری یا مجبوری۔۔ ۔ غیور شاہ ترمذی

اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ۔ پاکستان میں ضروری یا مجبوری۔۔ ۔ غیور شاہ ترمذی

بین الاقوامی سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اسٹیبلشمنٹ ریاست کے اندر (Deep State) ہوتی ہے جو ترقی پذیر ممالک میں اور بعض اوقات ترقی یافتہ ممالک میں بھی کچھ با اثر افراد کا جمہوریت مخالف طاقتور لوگوں کا ایسا گروہ ہوتا ہے جو اپنے مشترکہ مفادات کے حصول کے لئے ریاست کے اندر ریاست قائم کر لیتا ہے۔ یہ نادیدہ ہاتھ کی مانند ہوتا ہے اور اس میں بین الاقوامی، ملکی ملٹری سکیورٹی، عدلیہ اور کاروباری مافیا کے افراد شامل ہوتے ہیں۔ ترکی کے ایک سابق وزیراعظم بلنت ایسی وِٹ (Bulent Ecevit) کے خیال میں Deep state کوئی اتحاد نہیں ہوتا بلکہ یہ مختلف الخیال مگر نہایت طاقتور لوگوں کا عارضی اجتماع ہوتا ہے جو پسِ منظر رہتے ہوئے اپنے اپنے ایجنڈہ پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔

پاکستان کے سابق چیف آف اسٹاف ڈائریکٹوریٹ جنرل آئی ایس آئی بریگیڈیئر (ر) سیّد احمد ارشاد ترمذی اپنی کتاب ’حسّاس ادارے‘ میں چوتھی صدی قبل مسیح کے بھارتی فلسفی اور ’’ارتھ شاستر‘‘ کے مصنف چانکیا کا موازنہ میکاولی سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’چانکیا کا نظریہ حکومت میکاولی سے چنداں مختلف نہیں، وہ بھی اپنے پیروکاروں کو چالاک، سازشی، کمینگی کی حد تک بدلہ لینے کے خواہش مند، ہر لمحہ اوچھے ہتھ کنڈوں اور بدیانتی سے دشمن کو مات دینے پر تیار اور اس ہنر میں تاک دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘

پاکستانی تجزیہ نگاروں میں اسٹیبلشمنٹ عام طور پر استعمال ہونے والی ایسی اصطلاح ہے جو پاکستان میں فوجی حاکمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ پس پردہ ریاستی انتظام کے متعلق یہ افراد، جو مکمل طور پر فوج سے تعلق نہیں رکھتے وہ پاکستان کی سیاست، دفاع اور جوہری پروگرام کے پالیسی فیصلوں کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ یہ نہ صرف پاکستان کے جوہری منصوبوں بلکہ دفاعی بجٹ اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو بھی اپنے مروجہ نظریہ کے مطابق استعمال کرنے کے لیے مشہور ہیں۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی جامع تعریف سٹیفن پی کوہن نے اپنی کتاب “آئیڈیا آف پاکستان“ میں کی ہے۔ کوہن کے مطابق پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ دراصل درمیانی راستے کے نظریہ پر قائم ہے اور اس کو غیر روایتی سیاسی نظام کے تحت چلایا جاتا ہے جس کا حصہ فوج، سول سروس، عدلیہ کے کلیدی اراکین اور دوسرے کلیدی اور اہمیت کے حامل سیاسی و غیر سیاسی افراد ہیں۔ کوہن کے مطابق اس غیر تسلیم شدہ آئینی نظام کا حصہ بننے کے لیے چند مفروضات کا ماننا ضروری ہے۔ جیسے کہ:-

(1):- بھارت کے ہر قدم اور ہر چال کا منہ توڑ جواب دینا انتہائی لازم ہے۔

(2):- پاکستان کے جوہری منصوبے ہی دراصل پاکستان کی بقاء اور وسیع تر حفاظت کی ضمانت ہیں۔

(3):- جنگ آزادی کشمیر جو تقسیم ہند کے بعد شروع ہوئی، کبھی بھی ختم نہیں ہونی چاہئے۔

(4):- وسیع پیمانے پر ہونے والی عمرانی اصلاحات، جیسے کہ زمینوں کی مفت تقسیم وغیرہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہیں۔

(5):- غیر تعلیم یافتہ اور مڈل کلاس طبقہ کو ہمیشہ پامال اور کچل کر رکھنا ہی حکمت ہے۔

(6):- اسلام پسند نظریہ ہونا انتہائی موزوں بات ہے لیکن اسلام کا مکمل طور پر نفاذ ممکن نہ رہے۔ (واضح رہے کہ یہاں اسلام سے مراد وہ مکتب فکر ہے جس کی تشریح براستہ سعودی عرب درآمد ہوتی ہے)۔

(7):- اور یہ کہ امریکا کے ساتھ تعلقات استوار رہنے چاہئیں لیکن کبھی بھی امریکا کو پاکستان پر مکمل طور پر گرفت حاصل نہ ہونے پائے۔

(8):- پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ان کلیدی نقاط میں یہ بھی اکثر شامل کیا جاتا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ہر حال میں ریاست کے انتظام، سیاست وغیرہ پر گرفت مضبوط رکھنی چاہئے۔

نکولو میکاولی 16ویں صدی میں سیاسیات کا نابغہِ روزگار فلسفی ہے جس کی کتابوں کا آج بھی تعلیمی اداروں، تھنک ٹینکس، پالیسی سازوں، خفیہ ایجنسیوں، مقتدر حلقوں اور مدبرین کے یہاں مطالعہ ضرور کیا جاتا ہے۔ بالخصوص ’پاور پالیٹکس‘ کے تناظر میں اُس کی کتاب ’پرنس‘ کا حوالہ دیتے ہیں۔ میکاولی کی پاور پالیٹکس کے کارگر حربوں میں ’ڈیوک حربہ‘ (The Duke’s Tactics) سرکش عناصر سے نبٹنے کےلیےاستعمال کیا جاتا ہے۔ دراصل ڈیوک حربہ پسِ پردہ رہ کر مہروں کے ذریعے ناپسندیدہ عناصر کا بالواسطہ سدباب کرنے کا حربہ ہے۔ ڈیوک حربے کا ذکر میکاولی نے اپنی کتاب ’’ دی پرنس II‘‘ میں اِن الفاظ میں کیا تھا:

’’جب ’ڈیوک‘ نے رومانا پر قبضہ کیا تو اس پر نالائق حکمرانوں کی حکومت تھی جن کے پیش نظر رعایا کا مفاد نہیں بلکہ جن کا مقصد رعایا کو لوٹنا تھا اور جو اتحاد کے بجائے نفاق پیدا کرنا چاہتے تھے۔ نتیجہ یہ تھا کہ ملک میں آئے دن ڈکیتی، فساد اور ہر طرح کی زیادتیاں ہوتی رہتی تھیں۔ ان حالات میں اس نے یہ طے کیا کہ ملک میں امن و امان قائم کرے۔ ملک کو مطیع و فرماں بردار بنانے کے لئے ضروری تھا کہ اچھی حکومت قائم کی جائے۔ چنانچہ اس نے ’رامیرو‘ کو جو نہایت درشت اور مستعد آدمی تھا حاکم بنایا اور اسے کامل اختیارات تفویض کئے۔ اس نے تھوڑے ہی عرصہ میں نہایت کامیابی کے ساتھ ملک میں امن و امان قائم کردیا لیکن جب بعد میں اسے یہ خوف ہوا کہ اتنے غیر محدود اختیارات سے نقصان کا اندیشہ ہے تو ڈیوک نے فیصلہ کیا کہ اس کی اب ضرورت باقی نہیں رہی اور اس نے صوبہ کے مرکز سزینا میں ایک عدالتی مجلس ایک لائق صدر کے ماتحت قائم کی جس میں ہر شہر کو اپنے وکیل کے ذریعے نیابت حاصل تھی۔ اسے یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ گزشتہ مظالم کی وجہ سے لوگوں میں اُس کے خلاف سخت نفرت پیدا ہوگئی تھی۔ اب اس کو دور کرنے کے لئے اور لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر اس نے یہ ظاہر کرنا شروع کیا کہ ان پر جو زیادتیاں ہوئی تھیں ان کا ذمہ دار وہ خود نہیں بلکہ اس کا نائب تھا۔ اس بہانہ سے فائدہ اٹھا کر ایک دن اس نے رامیرو کا سر تن سے جدا کرادیا۔ اور یہی نہیں بلکہ مع تختہ اور خون آلود کلہاڑی کے سزنیا میں اُسے سربازار مشتہر کیا۔ عجیب وحشیانہ منظر تھا۔ جس سے عام لوگ مطمئن بھی ہوئے اور ہکابکا بھی رہ گئے۔‘‘

مفاداتی فریقین ریاستوں کی داخلی سیاست میں بالادست طبقات میکاولی کا یہ ڈیوک حربہ بھی استعمال کرتے آ رہے ہیں اور بین الاقوامی سیاست میں بھی استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی ہیئت، کردار، اجزائے ترکیبی، حالات و واقعات اور طاقتور بااثر افراد کی ذہنی افتاد طبع اور مائنڈ سیٹ (Mindset) کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ تاہم پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو سمجھنے کےلئے اسے دو حصوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

(1):- سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ
(2):- سول بیورو کریسی، سول حکمران۔

وہ ممالک جہاں جمہوری ادارے مضبوط ہوتے ہیں وہاں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سول حکمرانوں کے تابع ہوتی ہے۔ امریکا کا صدر طاقتور ترین فیلڈ مارشل جنرل آرتھر کو سبکدوش کر دے تو وہ چوں و چرا نہیں کرتا۔ ہندوستان کی وزیراعظم اندرا گاندھی اپنے آرمی چیف کو ملاقات کےلئے بلا کر کئی گھنٹے ویٹنگ روم میں بٹھا دیتی تھی۔ ترکی کے وزیراعظم عبداللہ گل نے کئی جنرلوں کےخلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کیا مگر ہمارے ملک میں کوئی سول حکمران ایسا کرے تو اسے معزول کر دیا جاتا ہے۔ پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے یا جلا وطن کر دیا جاتا ہے اور آئین کو معطل کرنے والوں کے خلاف نہ تو حمود چالرحمن کمیشن کی رپورٹ کو قابل عمل سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی ان کےخلاف کارگل کمیشن یا ایبٹ آباد کمیشن کے ذریعے کوئی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ ہماری سول اسٹیبلشمنٹ کے اہم کردار نواز شریف نے بڑی کوشش کی کہ پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے پر مقدمہ درج کیا جائے مگر ایسا نہ ہو سکا بلکہ پرویز مشرف دھڑلے سے پاکستان سے دبئی بھی چلا گیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسے اُس کے اعمال کی سزا دینا کبھی ممکن نہیں ہو سکے گا۔ کیا ایوب، یحیٰی، ضیاء، سرکاری ملازم ہوتے ہوئے بھی آئی جے آئے بنانے والے جنرل حمید گُل، جنرل اسلم بیگ، جنرل اسد درنی یا کارگل کا مس ایڈونچر کرنے والوں کا کسی نے احتساب کیا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے سکندر مرزا اور ایوب خان کے دور میں اپنے سیاسی کرئیر کا آغاز کیا لیکن پھر انہی کی مخالفت کر کے ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت بنائی۔

تین مرتبہ وزیرِ اعظم بننے والے نواز شریف پی پی پی کی مدِمقابل آئی جے آئی کا حصہ بنے جسے اسٹیبلشمنٹ کی واضح پشت پناہی حاصل تھی۔ ادھر پی ٹی آئی کے عمران خان بارہا امپائر کی انگلی کا نعرہ لگاتے دکھائی دیے۔

پی ایم ایل ن لیگ کا حصہ رہنے والے ایاز امیر کہتے ہیں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ آگے بڑھنے کا یہی طریقہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاست دان بےبس نہیں ہوتے۔ میاں نواز شریف اور ایم کیو ایم کے الطاف حسین بےبس نہیں تھے، ان کی یہ دانستہ سوچ تھی کہ اسی سہارے سے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ لوگ جاتے ہیں، ان سے ملتے ہیں ان کی مدد لیتے ہیں۔ ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے اور یہ پاکستانی سیاست کی ایک تلخ حقیقت ہے۔

سیاسی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے اثر کی وجہ نہ صرف سیاست دانوں کی نادانیاں بنی ہیں بلکہ ابتدا سے ہی ہمارے سیاستدانوں کی درست خطوط پر تربیت نہ ہونا بھی ایک وجہ تھی۔

ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ دس، بارہ بڑی پارٹیاں ہمیشہ سے یہ کوشش کرتی رہی ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو ناراض نہ کریں کیونکہ ایسا کرنا ان جماعتوں کے اپنے مفاد میں نہیں ہو گا اور ان کا الیکشن جیتنا مشکل ہو جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں میں نظم وضبط کا فقدان ہوتا ہے، مثلاً انھیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے ارکان کون ہیں وہ عوام کو جماعت میں پذیرائی نہیں دیتے جس کا فائدہ اسٹیبلشمنٹ اٹھاتی ہے۔

دفاعی اور سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار پروفیسر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ ملک کی آدھی عمر جمہوریت کے بغیر ہی گزری لیکن جب جمہوری دور میں اسٹیبلشمنٹ کا اثر ہوا تو کہیں نہ کہیں سیاست دان بھی ناکام ہوئے۔ ہندوستان کے برعکس پاکستان میں صورت حال مختلف رہی ہے، پاکستان پر سکیورٹی دباؤ رہے ہیں۔ جب تک ملک میں بیرونی اور اندرونی سکیورٹی دباؤ رہیں گے تب تک ملک میں فوج کا پلڑا بھاری رہے گا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب بہت سے سویلین امور مثلاً انتخابات، سیلاب اور دیگر کاموں میں فوج کو بار بار بلایا جاتا ہے تو فوج میں یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ وہ کام کو زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں اور عوام میں بھی فوج کا مقام بڑھ جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ فوج نے سیاست میں آ کر رضا کارانہ طور پر سیاست چھوڑی ہو۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اب چونکہ دونوں بڑی پارٹیاں عوام کے مسائل کو حل کرنے میں قطعاً ناکام ہو چکی ہیں اور عوام دونوں بڑی پارٹیوں سے بے حد مایوس ہیں تو ایسے حالات میں اگر اسٹیبلشمنٹ اپنے مفادات کے تحفظ کےلئے عمران خان کی غیراعلانیہ حمایت کرنے پر مجبور ہے تو یہ اس کی ایک فطری اور عملی سوچ ہے کیونکہ عمران خان ایک اچھی بین الاقوامی شہرت کی حامل مشہور شخصیت ہے اور اب تو امریکہ و سعودیہ کو بھی عمران خان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ چونکہ اب ملکی اسٹیبلشمنٹ کا کوئی بھی سٹیک ہولڈر اس قدر طاقتور نہیں ہے کہ وہ اقتدار کا تمام کیک خود ہی ہضم کر جائے۔ لہٰذا اسٹیبلشمنٹ کی مجبوری ہے کہ وہ کسی ایسی شخصیت کو سپورٹ کرے جو عوام میں پاپولر بھی ہو اور اس پر کرپشن کا بھی بظاہر کوئی داغ نہ ہو اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی قابل قبول ہو اور ان کے مفادات کا تحفظ بھی کرنے کا اہل ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حسین حقانی کے میمو سکینڈل سے ہر سیاستدان کو یہ سمجھ آ جانا چاہئے کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ امریکہ، ہندوستان، افغانستان، بلوچستان اور فاٹا کے ایشوز پر جمہوری حکمرانوں کو آزادانہ فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ ماہرین سیاست کہتے ہیں کہ حقیقتاً ایسا ہونا بھی نہیں چاہئے کیونکہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے پاکستان کے اداروں اور معیشت کو جس حد تک تباہ و برباد کر دیا ہے اور وہ کرپشن ذاتی مفادات اور آپس کی لڑائی جھگڑوں میں جس قدر مشغول ہیں۔ ان حالات میں کیسے ممکن ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اسکی تابع سول بیورو کریسی اپنے ادارتی مفادات کے تحفظ کے لئے عمران خاں کی ہنگ پارلیمنٹ بچاتے ہوئے سیاسی عمل کو کنٹرول کرنے کی بالواسطہ کوشش نہ کرے۔ اپوزیشن رہنما جتنا زیادہ عمران خان پر یہ الزام لگائیں گے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ پروموٹ کر رہی ہے اتنا ہی ان کے نزدیک عوام اور نچلے درجے کے سیاستدانوں کی اکثریت آئےگی کیونکہ پاکستانی عوام کی اکثریت کا یہ مزاج ہے کہ وہ سیاستدان جنہیں اسٹیبلشمنٹ کا تعاون حاصل ہوتا ہے۔ لوگ ایسے جیتنے والے گھوڑوں پر خوشی سے انویسٹ کرتے ہیں۔ کیونکہ جب کبھی بھی مضبوط سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت کر کے اقتدار حاصل کر لیتی ہیں تو اقتدار میں آ کر وہ عوام کی بہتری اور بھلائی کےلئے کچھ نہیں کرتیں۔ ایسے میں پاکستان کے عوام، میڈیا اور بیورو کریسی میں یہ سوچ جڑ پکڑ لیتی ہے کہ آزادانہ جموریت سے بہتر ہے کہ کنٹرولڈ جمہوریت ہو تاکہ اسٹیبلشمنٹ کے سٹیک ہولڈرز ایک دوسرے کو فکس کرنے کی بجائے اپنے اپنے حصے کا کیک حاصل کرنے کے بعد تھوڑا بہت عوام کو ٹریکل ڈاﺅن کر دیں تو بس یہی غنیمت ہے۔ عمران خاں کی حکومت انہی پالیسیوں اور سوچ کے تحت بنی ہے اور چلائی جا رہی ہے اب بے شک عمران خان اور اُن کے حمایتی لاکھ کہیں کہ وزیراعظم کی حیثیت سے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی حقیقتاً ان کے ماتحت ہیں اور وہ ان کے باس ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت صرف اسٹبلشمنٹ کے مقاصد پورا کرنے کے لئے حکومت میں لائی گئی ہے۔ اگرچہ ہر جمہوریت پسند کی طرح راقم کی شدید خواہش ہے کہ کاش ایسا ہی ہو جائے جیسا عمران خان اور اُن کی پارٹی کہتے ہیں مگر شاید پاکستان میں یہ کسی بھی سیاستدان اور جمہوریت پسند کے لئے صرف خواب ہی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply