• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کچھ یادیں ۔مولانا وحیدالدین خان۔۔افتخار گیلانی

کچھ یادیں ۔مولانا وحیدالدین خان۔۔افتخار گیلانی

مولانا وحیدالدین خان پر تعزیتی کالم تحریر کرنے کا میر بالکل کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ایک کم علم صحافی کا علم کے سمندر پر قلم اٹھانا، تو کجا ، من کجا والی صورت حال ہے۔ روزنامہ 92نیوز کے ادارتی صفحات پر میرے ایک پسندیدہ کالم نگار نے جس طرح اپنی سابق تحریروں سے تائب ہوکر مولانا کی روح سے معافی کی درخواست کی ہے، وہ اس کالم کو لکھنے کا ایک بڑا محرک بنا۔ چونکہ دہلی میں اپنے پچھلے 30سال کے قیام کے دوران مولانا سے کبھی بالمشافہ تو کبھی ان کے درس میں بیٹھنے کا موقعہ ملتا تھا، اسلئے ان سے متعلق چند واقعات آن ریکارڈ لانا ضروری سمجھتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا وحیدالدین خان ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ میں زمانہ طالب عملی سے ہی الرسالہ کا قاری رہا ہوں۔ جس سہل ،نپے تلے اور سائنسی انداز میں وہ مشکل ترین ایشو کو قارئین کے دماغ تک پہنچاتے تھے، وہ انہی کا خاصہ تھا۔ کشمیر کے سوپور قصبہ کے کالج میں جب اپنے ہندو ساتھیوں کے ساتھ کھبی مذہب سے متعلق گفتگو ہوتی، تو الرسالہ میں ان کے دیے دلائل خاصے کام آتے تھے۔ ان سے میری پہلی ملاقات 90 ء کی دہائی کی ابتداء میں ہوئی، جب میں اعلیٰ تعلیم کیلئے دہلی وارد ہوا۔ نظام الدین ویسٹ میں انسٹیٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کا دفتر ہوتا تھا۔ میں کسی کام سے وہاں آیا ہوا تھا، کہ پونا یونیورسٹی کے جرنلز م کے ایک طالب علم عبدالباری مسعود ، جو اب ایک معروف صحافی ہیں، سے ملاقات ہوئی۔ وہ کسی کام سے دہلی آئے ہوئے تھے۔ تعارف وغیرہ کے بعد ، انہوں نے بتایا کہ انکی مولانا وحیدالدین خان سے ملاقات کا وقت طے ہے۔ معلوم ہوا کہ ان کی رہائش گاہ قریب ہی ہے۔ میں بھی مولانا کو بالمشافہ دیکھنے کے شوق میں ان کے تین ممبری قافلہ میں شامل ہوگیا۔ ان کی کوٹھی کے گراونڈ فلور پر ڈرائینگ روم میں چند لمحے انتظار کروانے کے بعد ہمیں پہلی منزل پر ان کے مطالعہ و میٹنگ روم میں لے جایا گیا۔ وہ ایک مسند پر بیٹھے ہوئے تھا، اور سامنے ڈیسک پر کاغذوں کا ڈھیر تھا۔ پورے کمرے میں کتابیں، قومی اور بین الاقوامی جرید ے ترتیب کے ساتھ سجے ہوئے تھے۔ تعارف کے بعد چھوٹتے ہی انہوں نے عبد الباری صاحب سے سوال کیا کہ آخر وہ کیوں ان سے ملنا چاہتے تھے؟ ظاہر ہے کہ ان کا جواب تھا کہ وہ الرسالہ کے قاری ہیں اور ان سے متاثر ہیں؟ بجائے کہ ہم ان سے کوئی سوال و جواب کرتے، انہوں نے الٹا ان سے پوچھا کہ الرسالہ میں کون سی بات ان کواچھی لگتی ہے، اور کس نے ان کو متاثر کیا ہے؟ انٹروگیشن جاری ہی تھا کہ تبلیغی مرکز سے ایک وفد کمرے میں داخل ہوا، تو ہماری جان چھوٹ گئی ۔ و ہ وفدبھی مہاراشٹرا سے تعلق رکھتا تھا اور ان کو کسی پروگرام میں شرکت کی دعوت دینے آیا تھا ۔ اسلئے گفتگو اب تبلیغ اور اسکے طریقہ کار کی طرف مرکوز ہوگئی۔ ان دنوں مولانا کا نشانہ بابری مسجد کمیٹی اور اس کے روح روان سید شہاب الدین ہوتے تھے۔ اس ملاقات میں بھی انہوں نے انکے خلاف بھر پور وار کئے اور بتایا کہ علامہ اقبال کی طرح وہ مسلمانوں کے استحصال کرنے پر تلے ہیں۔ پہلی ملاقات میں یہ انداز ہو گیا کہ وسعت علم کے باوجود وہ ایک طرح کے Information Arroganceکا شکار ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹینکا کی جلدوں اور ٹائم و نیوز ویک کے شماروں کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ، الرسالہ کیلئے ان سبھی بیش قیمت کتابوں و رسائل کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے اور اس میں زر کثیر خرچ ہوتا ہے۔ اسکے بعد بھی اپنے صحافتی کیریر کے دوران ان سے خاصہ واسطہ پڑا۔ نماز عصر کے بعد وہ اپنے اسی کمرے میں ملتے تھے یا اتوار کے روز صبح ان کا درس ہوتا تھا، جو نماز ظہر پر ختم ہو تا تھا۔مجھے یاد ہے کہ ایک بار درس کے دوران انہوں نے حضرت عمر کے زمانے میں ہوئی فتوحات پر نکتہ چینی کی۔ ان کا استدلال تھا کہ ان فتوحات کی وجہ سے دعوت کا کام دب گیا۔ اسی طرح ان کی دلیل تھی صلاح الدین ایوبی اور صلیبی جنگو ں کی وجہ سے یورپ میں اسلام کے دعوتی پیغام کو زک پہنچا۔ عراق اور افغانستان میں امریکہ کی جنگ کی وہ خدائی آپریشن کا نام دیتے تھے۔ ہندو مسلم فسادات پر تو وہ مسلمانوں کو ظالم قرار دیتے تھے۔ ان کہ کہنا تھا کہ فسادات کی ابتدا مسلمان کرتے ہیں۔ میں نے ایک بار ان سے پوچھا کہ یہ نتیجہ انہوں نے کہاں سے اخذ کیا ہے؟ کیونکہ اس دوران مجھے کئی بار فسادات کی کوریج کرنے کا موقعہ ملا تھا اور پایا کہ جانی اور مالی نقصان مسلمانوں کا ہی ہوتاہے۔ آخر اپنے آ پ کو نقصان پہنچانے کیلئے کیوں کوئی آگ میں اپنا سر دیگا؟ ان کا موقف تھا کہ بابری مسجد سے مسلمانوں کر دستبردار ہونا چاہئے، اور وہاں ایک عالیشان رام مندر بنانے میں معاونت کرنی چاہئے۔ اب تو اس جگہ پر رام مندر کی تعمیر ہو رہی ہے۔ کیا اس سے قوم پرست ہندووں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت میں کمی واقع ہوئی ہے؟ وہ تو اب دیگر مساجد کو مندر بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ تو ان کو خدا واسطے کا بیر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بجائے آزادی کی تحریک کے ان کو اپنے کردار و تبلیغ سے وہاں موجود سات لاکھ بھارتی فوجیوں اور نیم فوجی دستوں تک اسلام کا پیغام پہنچانا چاہئے۔ اسکے باوجود الرسالہ کی سیل سب سے زیادہ کشمیر میں ہی ہوتی تھی۔ کچھ تو لوگ واقعی خریدتے تھے۔ مگر تلاشی آپریشنز کے دوران فوج اور نیم فوجی دستوں کے ساتھ آئے اینٹلی جنس کے افراد اس کو نوجوانوں میں بانٹتے تھے۔ سوپور کی جامع مسجد کے پاس بارڈر اسکیورٹی فورس کا بینکر تھا ۔ ایک روز نماز جمعہ سے قبل مسجد میں داخل ہونے والوں کو بینکر کا ایک سپاہی الرسالہ اور مولانا کا ایک تحریر کردہ پمپلٹ بانٹ رہا تھا اور تاکید کر رہا رتھا کہ اس اسلام کو اپنا کر پاکستان والا اسلام ترک کردیں۔ اس سپاہی کے ساتھ بحث کی گنجائش تو نہیں تھی، مگر دہلی واپس آکر میں نے مولانا کے گوش گذار کر لیا۔ ان کا پھر بھی کہنا تھا کہ کشمیریوں نے میر سید علی ہمدانی کے مشن کو فراموش کردیا ہے۔ غالباً 2015میں جموں وکشمیر اسمبلی کے ایک رکن انجینئر عبدالرشید کچھ کشمیری صحافیوں کے ہمراہ دہلی وارد ہوئے تھے ۔ انہوں نے مولانا وحیدالدین خان صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ چونکہ بطور ممبر اسمبلی وہ کشمیر میں بھارتی جمہوریت کا ایک چہرہ تھے ، اسی لئے وہ بضد تھے کہ مولانا صاحب سے جموں و کشمیر کی صورت حال کے بارے میں رائے معلوم کر کے ان کے وسیع تجربے سے کچھ مفید اور قابل عمل اقدامات کیلئے رہنمائی حاصل کریں۔خیر ان کی کوٹھی پر پہنچ کر ہم درس میں شریک ہوگئے۔ نمازِ ظہر تک مولانا کی تقریر اور سوال و جواب کا دلچسپ سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد مولانا نے انجینئر صاحب کے ساتھ کافی گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ کیا اور بھارتی آئین کے تحت کشمیر اسمبلی میں رکنیت حاصل کرنے پر ان کو سراہا۔ علیک سلیک کے بعد ممبر اسمبلی نے مولانا کی توجہ کشمیر کی صورت حال خاص طور سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کرا کے مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے حوالے سے مولانا کا نقطہ نظر جاننا چاہا۔ مولانا نے مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل بتایا کہ کشمیری ”امن‘‘ کا راستہ اپنائیں، لیکن اس سے پہلے انہیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کی گزشتہ کئی دہائیوں کی جد و جہد غلط تھی۔ رشید صاحب نے مولانا سے عرض کیا کہ امن کی خواہش کشمیریوں سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہوسکتی، لیکن انصاف کے بغیر امن کا قیام کیسے ممکن ہے تو مولانا نے فرمایا کہ انصاف کو امن کے ساتھ جوڑنے والے لوگوں کی یہ ذہنی اختراع ہے۔
ان کے بقول کشمیرکا بھارت کے ساتھ الحاق حتمی ہے اور اس کو متنازع کہنے والے غیر حقیقت پسند ہیں۔ ممبر اسمبلی نے ان سے پوچھا کہ جموں وکشمیر کے تنازع کو تو خود بھارتی لیڈر ا ہی قوام متحدہ میں لے گئے تھے، اس میں کشمیریوں کا کیاقصور؟ وہ بے چارے تو صر ف وعدے کے ایفا ہونے کا مطالبہ کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس پر مولانا غصّے سے لال پیلے ہوگئے اور ہال چھوڑ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ منٹ انتظارکے بعد ہم بھی وہاں سے واپس چلے گئے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے 1995میں ہندو توا کو مذہب کے بجائے بھارتی کلچر کی علامت اور ایک نظریہ زندگی قرار دینے کے پیچھے مولانا کی سوچ کارفرما تھی۔ 1990کے انتخابات میں مہاراشٹرا میں شیو سینا کے لیڈر بال ٹھاکرے، منوہر جوشی اور کئی دیگر اراکین کی طر ف سے انتخابی جلسوں میں ہندووں ووٹروں کو لبھانے کیلئے مذہبی نعرے اور مذہبی شعار کے کھلم کھلا استعمال کرنے پر ری پرزنٹیشن آر پیپلز ایکٹ کے تحت ان کو نا اہل قرار دیکر انکے انتخابات لڑنے پر پابندی عائد کی گئی، جس کو بمبئی ہائی کورٹ نے درست قرار دیا۔ یہ کیس سپریم کورٹ تک پہنچا ، جہاں جسٹس جے ایس ورما کی قیادت میں ایک بنچ نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو ویر ساورکر یا ایم ایس گولوالکر کی تصنیفات کے بجائے مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر تکیہ کر کے ہندو تو کو نظریہ زندگی قرار دیکر ہندو انتہا پسندی کو ایک جواز فراہم کردیا۔اس کیس کی سماعت کے دوران ہی معروف قانون دان اے جی نورانی کی دلیل تھی کہ عدالت مولانا وحید الدین خان کی تحریروں کی غلط تشریح کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا اگرخود عدالت میں پیش ہو کر یا کسی تحریر کے ذریعے یہ موقف اختیار کریں، تو شاید کورٹ کو دوبارہ ویر ساورکر یا گولوالر کو ریفر کرنا پڑے گا۔ عدالت کا یہ فیصلہ دور رس اہمیت کا حامل تھا۔ انتخابی جلسوں میں اسی فیصلہ نے جے شری رام کے نعروں کوجواز بخش کر بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کا کام کیا۔ مگر مولانا کا یہ موقف تو تھا کہ ان کی تحریروں کی غلط تشریح ہو رہی ہے، مگر کوئی عملی قدم انہوں نے کیوں نہیں اٹھایا، و ہ ایک راز ہی رہا۔ بقول نورانی اسی فیصلہ کی وجہ سے بطور انعام جسٹس ورما کو دو سال بعد چیف جسٹس اور بعد میں قومی انسانی حقوق کمیشن کا چیرمین مقرر کیا گیا اور اٹل بہاری واجپائی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے مولانا کو 2000ء میں اعلیٰ سویلین ایوارڈپدم بھوشن سے سرفراز کیا۔ اسی سال جنوری میں وزیر اعظم نریندر مودی حکومت نے بھی انکو پدم وبھوشن سے نوازا۔ ہندو فسطائی تنظیموں ، خاص طور پر آر ایس ایس کے ساتھ انکے خاصے دوستانہ تعلقات تھے۔ اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ آر ایس ایس کے ایک راہنما آنجہانی کے آر ملکانی اکثر جماعت اسلامی کے مرکز جو ان دنوں پرانی دہلی میں واقع ہوتا تھا ، تشریف لاکر بحث و مباحثہ میں شرکت کرتے تھے۔مگر مولانا شاید اس دوستی میں کافی دور نکل گئے تھے۔ تقریبا دو ہائی قبل آر ایس ایس کے ایک چوٹی کے لیڈراور ویشو ہندو پریشد کے جنرل سیکرٹری پروین بائی توگڑیا سے مکالمہ کرتے ہوئے ایک بار میں نے پوچھا کہ آیا مسلمان ، جو بھارت کے مکین ہیں کے بار ے میں ا نکی کیا رائے ہے۔ تو انکا کہنا تھا کہ مسلمانوں سے ان کو کوئی شکایت نہیں ہے اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں۔ میں نے پوچھا کہ ہندو جذبات سے ان کی کیا مراد ہے؟ توان کا کہنا تھا۔ ‘‘کہ ہندو کم و بیش 32کروڑدیو ی دیوتائوں پر یقین رکھتے ہیں، ہمارے لئے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبر اسلام کی بھی اسی طرح عزت افزائی کریں۔ مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں، اور نہ ہی اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں‘‘ اپنے دفتر کی دیوار پربابا گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا، کہ دیگر مذاہب یعنی سکھوں، بدھوں اور جینیوں نے ہندو ئوں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا۔ مجھے یاد آتا ہے کہ گجرات فسادات کے بعد 2002 ء میں ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اْس وقت کے سربراہ کے سدرشن سے ملنے ان کے صدر فتر ناگ پور چلا گیا تھا۔ جس میں اعلیٰ پایہ کے مسلم دانشور شامل تھے۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کیلئے آرایس ایس کو قائل کرنا تھا اور اْن کے سامنے مسلمانوں کے نظریہ کو رکھنا تھا۔اس وفد کے ایک رکن کے بقول، ’’کہ جب ہم نے سدرشن جی سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندووٗں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا رسہ کشی کے ماحول کو ختم کرکے دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا ہے؟‘‘اسکے جواب میں کے سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا ’’کہ ضرور آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم مسلمانوں کیساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کیلئے شرط ہے۔ آپ لوگ (مسلمان)کہتے ہو کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے، آپ ایسا کہنا چھوڑ دیجئے اور کہیے کہ اسلام بھی برحق اور سچا دین ہے تو ہماری آپ کیساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے۔‘‘ اسلام ہی حق ہے کے بجائے اسلام بھی حق ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے او یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں، بلکہ خود ساختہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جاتاہے۔ مگر غور کرنے کا مقام ہے کہ ا س مطالبے کو ماننے سے ایمان کا کیا حشر ہوجائیگا۔ مولانا کے سہل اور سائنسی انداز تحریر کی وجہ سے اور امن و امان پر زور صرف کرنے سے وہ بھارتی میڈیا کے بھی لاڈلے تھے۔ جب بھی کبھی ادراتی صفحات کے ایڈیٹروں کو اسلام کے حوالے سے مضمون کی ضرورت ہوتی تھی تو حکم ہوتا تھا کہ مولانا سے رابطہ کرکے ان سے مضمون لکھوایا جائے۔ کسی وقت میں مولانا کے بجائے ان کے صاحبزادے اور ملی گزٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر طفر الاسلام کا نام تجویز کرکے ان سے مضمون لکھنے کی گذارش کروانے میں کامیاب ہوجاتا۔ مگر مجھے یاد ہے کہ ادارتی صفحہ کے انچارچ پارسا وینکٹیشورا راوہ اور مونوبینا گپتا مولانا کے مضمون پر ہی اصرار کرتے تھے۔جن دنوں میں تعلیم ختم کرنے کے بعد نوکری کی تلاش میں تھا، تو ایک دن میںا ن ان سے درخواست کی کہ اردو اخبار قومی آواز میں رپورٹر کی جگہ خالی ہے، شاید ان کی سفارش سے کام بن جائے گا، تو ان کا جواب تھا کہ کبھی اردو اخبار کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھنا۔ انہوں نے کہا کہ کسی انگریزی اخبار میں اگر چپراسی کی بھی نوکری کرنی پڑے گی تو اس کوفوقیت دے دو۔ اسی طرح ایک بار سید حامد اور مولانا ابو الحسن علی ندوی نے ملک گیر سطح پر خاصا چندہ جمع کرکے مسلمانوںکے ایک قومی انگریزی اخبار نکالنے کا بیڑا اٹھایا۔ یہ اخبار پہلے ہفتہ وار One Nation Chronicleاور بعد میں ماہ نامہ کی صورت میں Nation and The World کے نام سے منظر عام ہر آکر غروب بھی ہو گیا۔ اس کی تیاری کے دوران میں نے ایک بار پھر ان سے سفارش کرنے کی درخواست کی، مگر انہوں نے پھر دھتکار دیااور کہا کہ یہ اخبار زیا دہ دیر چلنے والا نہیں ہے۔ بس انگریزی مین اسٹریم میڈیا کا دامن تھام کر جرنلزم کی سیڑھیاں طے کر لو۔ مولانا انگریزی یا ہندو وں کے شائع کردہ اخبارات یا میڈیا سے مرعوب تھے یا اردو یا مسلم میڈیا سے خائف تھے، پیچھے مڑ کر دیکھنے سے لگتا ہے کہ ان کا مشورہ نہایت ہی مناسب تھا۔مصلحت کے مطابق وہ مسلم مخالف ہندوتنظیموں اور مسلمانوں کے درمیان رابط کا ایک ذریع ہوسکتے تھے ۔ شاید وہ کوئی بڑا رول بھی ادا کرسکتے تھے، مگر افسوس، اکثر معاملات میں وہ خاصے دور چلے گئے تھے۔ جس میانہ روی کہ و ہ تلقین کرتے تھے وہ خود ان کے پاس موجود نہیں تھی۔ کبھی لگتا تھا کہ وہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے بی جے پی کے آلہ کار بنے ہوئے تھے اور اپنے دعووں کو اسی سانچے میں ڈھالنے کی کوششیں کرتے تھے۔وَاللّٰہ اَعلَم بِالصَّواب۔ میری تو بس یہی دعا ہے کہ اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرکے ان کی مغفرت فرمائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply