تہذیب اسلامی کے درخشاں پہلو۔۔۔۔ ملک گوہر اقبال خان رما خیل

مسیحی اسپین کے بادشاہ اروون بن اذخوش نے 351 ہجری میں قرطبہ کا دورہ کیا جب وہ قرطبہ کے شاہی قصر الزہراء میں داخل ہوا اور اس کی چمک دمک اور خدم و حشم اور اسلحہ و سامان دیکھا تو بہت متحیر ہوا۔ جب وہ خلیفہ المستنصر کی مجلس میں پہنچا تو اس نے اپنے سر سے تاج اتار لیا اپنی چادر رکھ دی اور اس وقت تک جھکا رہا جب تک خلیفہ نے اجازت نہ دی۔ پھر وہ کھڑا ہوا اور چند قدم آگے بڑھا اور سجدے میں گر پڑا پھر کھڑا ہوا اور چند قدم آگے بڑھنے کے بعد پھر سجدے میں گر پڑا خلیفہ تک پہنچنے تک کئی مرتبہ ایسا ہی کیا اور پہنچتے ہی اس نے خلیفہ کا ہاتھ چوما پھر الٹے پاؤں چلا تاکہ خلیفہ کی طرف پشت نہ ہو جائے اور اپنی مخصوص نشست پر براجمان ہوا۔ تو خلیفہ المستنصر نے فرمایا تمہاری آمد پر ہم تمہیں خوش آمدید کہتے ہیں تمہاری یہ آمد تمہارے لیے باعث خوشی ہو کیونکہ ہمارے نزدیک تمہارے بارے میں اچھا گمان اس سے زیادہ ہے جس کی تم توقع کرسکتے ہو۔ جب خلیفہ کا کلام ترجمہ کرکے بادشاہ کو سمجھایا گیا تو وہ بیحد خوش ہوا اور کہنے لگا میں اپنے آقا امیر المومنین کا ادنیٰ غلام ہوں اس کی مہربانی پر میرا بھروسہ ہے اور اس کی عزت افزائی کا میں امیدوار ہوں۔ خلیفہ نے کہا تم کو ہمارے ہاں ان لوگوں کا مقام حاصل ہے جن کے بارے میں ہم اچھی رائے رکھتے ہیں اور تم کو معلوم ہو جائے گا کہ ہماری طرف جھکنے اور ہماری سلطنت کے زیر سایہ رہنے سے تم کو کیا فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ عزیزانِ من۔ اسپین کے بادشاہ کا قدم بہ قدم سجدہ ریز ہونا اور خود کو مسلمانوں کے خلیفہ کا ادنیٰ غلام کہہ کر فخر کرنا یہ اس کی کوئی سیاسی چال تھی اور نہ بادشاہ کے سامنے اس کی خوشامد۔ بلکہ اس زمانے میں اطراف و جوانب کے اقوام سلطنتِ اسلامیہ کے زیرِ سایہ رہنے کو ہی فخر اور اس میں اپنے لیے بقاء سمجھتے تھے۔ کیونکہ اس وقت روئے زمین کے سارے اقوام پر مسلمان تہذیبی لحاظ سے غالب تھے اور دنیائے علم و فن میں بھی مسلمان سب سے آگے تھے جس کی بدولت مسلمان دنیا کی خشکی وتری کے مالک و مختار تھے۔ مسلمانوں کے اس تہذیبی عروج کے زمانے میں باقی دنیا کا کیا حال تھا اس کا اندازہ آپ اس وقت کے یورپ کے حالات سے لگائیں جس کو آج جدید تہذیب کا علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ یورپ کی تمام سرزمین لق و دق جنگلات کا گہوارہ تھا۔ زراعت نہایت پسماندہ حالت میں تھی۔ شہروں کے گردونواح میں گندے پانی کے جوہڑ ہوتے تھے جن سے مضر صحت اور جان لیوا بدبو ہر طرف پھیلتی رہتی تھی اور غریب انسان مہلک امراض کا شکار ہو کر فصل کی طرح کٹتے رہتے تھے۔ پیرس اور لندن میں گھر لکڑی اور بھوسہ ملی کیچڑ سے تعمیر ہوتے تھے نہ کھڑکیاں ہوتی اور نہ دروازے والے کمرے ہوتے تھے۔ بچھونے کے نام سے بھی یہ لوگ واقف نہ تھے گھاس پھوس زمین پر بچھاتے اور اس پر پڑے رہتے صفائی ستھرائی سے قطعاً ناواقف تھے۔ حیوانات کی گندگی اور باورچی خانے کی گندی چیزیں گھروں کے سامنے ڈال دیتے جن سے بدبو کے بھپکے اٹھتے رہتے تھے۔ تمام خاندان ایک ہی کمرے میں سوتا اور بسا اوقات تو پالتوں جانور بھی اسی کمرے میں ان کے ساتھ ہوتے۔ سڑکوں کے ساتھ نہ نالیاں ہوتی تھی اور نہ انہیں ہموار کیا جاتا تھا اور نہ روشنی کا کوئی انتظام تھا۔ گیارہویں صدی عیسوی اور اس کے بعد تک کی یورپ کی حالت کا اعتراف تو خود یورپی مصنفین بھی کرتے ہیں۔ 17 ویں صدی عیسوی تک یورپ کے ہسپتالوں کی بہترین مثال پیرس کے (اوتیل دیو) ہسپتال کو کہا جاسکتا ہے جو اپنے زمانے کا سب سے بڑا ہسپتال تھا “ماکسی ٹورڈو” اور ” ٹینوں”نے درج ذیل الفاظ میں اس ہسپتال کے حالات ذکر کئے ہیں۔ اس ہسپتال میں ایک بیڈ پر تین سے لیکر چھ مریض پڑے رہتے تھے۔ عمارت کے کمرے بدبودار اور ہمیشہ تاریک رہتے تھے اور بغیر ہوادار کھڑکیوں اور روشن دانوں کے تھے۔ جن میں ہر وقت قریباً 800 سے زیادہ مریض زمین پر پڑے رہتے تھے۔ اور ہر قسم کے مریض ایک بستر پر اکھٹے پڑے رہتے یعنی ایک ٹائفائیڈ کا مریض جو بخار سے پھنک رہا ہے وہ ایسے مریض کے پاس پڑا ہے جو جلد کے امراض کا شکار ہے اور وہ اپنی گلی سڑی جلد کو خون آلود ناخنوں سے کھرچ رہا ہے جس کے سبب پیپ بستر پر بہہ رہی ہے۔ اگر اہل ثروت لوگ باہر سے کھانا پکا کر نہ بھیجتے تو مریض بھوک سے مر جاتے جیسا کہ بعض اوقات بدہضمی اور زیادہ شراب نوشی سے مرجاتے اگر کوئی مریض مر جاتا تو اس کی لاش اکثر 24 گھنٹے تک چارپائی پر پڑی رہتی اور بعض اوقات لاش پھول جاتی اور سڑ جاتی جس کی بدبو سے مریضوں کا دم گھٹ جاتا تھا۔ اور اس زمانے میں ان کے ڈاکٹرز علاج کرنے میں کتنے ماہر تھے اس کا اندازہ آپ اس واقعے سے لگائیں جسے مشہور حکیم اسامہ بن منقذ نے اپنی کتاب الاعتبار میں ذکر کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہم نے ایک ڈاکٹر ان کی طرف بھیجا وہ دس دنوں میں واپس آگیا ہم نے وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ میرے پاس ایک فوجی لایا گیا جس کے پاؤں میں ایک پھوڑا تھا جب اس کی پٹی کی گئی تو پھٹ گیا تو ایک انگریز ڈاکٹر وہاں پہنچا اس نے لوگوں سے میرے متعلق کہا کہ یہ کیا جانتا ہے جو علاج کرے گا پھر اس نے فوجی سے کہا کہ تم دو پاؤں کے ساتھ موت چاہتے ہو یا ایک ٹانگ کے ساتھ زندگی؟ فوجی نے کہا زندگی۔ اس انگریز ڈاکٹر نے ایک تگڑے فوجی کو حکم دیا کہ اسکے پاؤں کو کلہاڑی کے ایک ضرب سے کاٹ پھینکوں اس نے ایک وار کیا اور میں یہ تماشا دیکھ رہا تھا لیکن ایک ضرب سے اس کی ٹانگ نہ کٹ سکی تو اس نے زور سے دوسرا وار کیا تو ٹانگ کے اندر سے گودا باہر نکل آیا اور بہنے لگا جس سے مریض فی الفور فوت ہو گیا۔ تو یہ وہ کارنامے ہے جو طبی میدان میں وہ سرانجام دیتے رہے۔ عزیزانِ من۔ اس کے برخلاف اس وقت عالم اسلام میں سینکڑوں ہسپتال موجود تھے جن میں بغداد کا عضدی ہسپتال، دمشق کا نوری ہسپتال، مصر کا منصوری ہسپتال اور مراکش کا ہسپتال سرفہرست ہے۔ یہ ہسپتال اس زمانے کے بہترین ڈیزائن کے مطابق تیار کیے گئے تھے ان ہسپتالوں میں ہر قسم کے پھل دار اور خوشبودار درخت لگائے گئے تھے ان ہسپتالوں کے تمام وارڈز اور کمروں سے صاف پانی کی نہریں گزاری گئی جو سفید سنگ مرمر سے بنائی گئی تھی۔ ان ہسپتالوں کے لیے نفیس بستر تیار کئے گئے تھے۔ ہر مریض کو علیحدہ چارپائی اور بستر دیا جاتا تھا۔ مختلف قسم کے مریضوں کے لیے الگ الگ وارڈز تھے۔ طب کی مختلف شاخوں کے ڈاکٹرز علیحدہ علیحدہ مقرر کئے گئے تھے اور طبی مباحث اور لیکچرز کے لیے الگ مقامات متعین تھے۔ جہاں پر بڑے ڈاکٹرز طلبہ کو طبی موضوعات پر درس دیا کرتے تھے۔ مریضوں کو کھانا الگ الگ برتنوں میں دیا جاتا تھا مریضوں کے کپڑے دھونے،کمروں اور بستروں کی صفائی کرنے کے لیے خدام مقرر تھے۔ اور ہفتے میں ایک دن حاکم وقت خود ہسپتال کا معائنہ اور مریضوں کی عیادت کرتا تھا۔ جو مریض یہاں سے تندرست ہو کر نکلتا اس کو پورا لباس اور جو مرجاتا اس کی تجہیز و تکفین ہسپتال کے ذمہ ہوتی تھی۔

اسلامی تہذیب نے مغربی تہذیب کے مقابلے میں تقریباً 900سال پہلے ہسپتالوں کے میدان میں اعلیٰ ترین معیار قائم کیا تھا۔ جس کے بارے میں مشہور جرمن مستشرق”مارکس مایرہوف”کہتے ہیں کہ( عربی ہسپتال اور گزشتہ زمانے کے اسلامی نظام ہمیں ایک ایسا سبق دے رہا ہے جو ہمارے لئے نہایت ناگوار اور کڑوا ہے ہم اس کی صحیح قدر اس وقت تک نہیں کرسکتے جب تک ہم اس نظام کا اس وقت کے یورپین ہسپتالوں کے نظام سے موازنہ نہ کرلیں)

آپ اس وقت کے لندن اور پیرس کے تہذیب کو تو پڑھ چکے ہیں اب آپ اس وقت کے یورپ کے پڑوس میں آباد شہر قرطبہ کا حال ملاحظہ کیجئے۔ قرطبہ اندلس کا دارالحکومت تھا رات کے وقت یہ قمقموں سے روشن ہوتا تھا لوگ 10 میل تک ان چراغوں کی روشنی میں سفر کرتے جاتے لیکن اس کی روشنی ختم نہ ہوتی تھی۔ اس شہر کی تمام گلیاں پختہ تھی اور ہر قسم کا کوڑا کرکٹ سڑکوں سے اٹھادیا جاتا تھا۔ پورا شہر گھنے باغات میں گھرا ہوا تھا باہر سے آنے والے لوگ ان باغیچوں اور پارکوں میں سیر و تفریح کرتے ہوئے آتے تھے۔ اس کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ تھی اور تمام لوگ تعلیم یافتہ تھے۔ لاکھوں گھروں اور ہزاروں محلات پر مشتمل اس شہر میں 600 مساجد تھے۔ 80 بڑے مدارس اور 50 ہسپتال جن میں تعلیم اور علاج مفت ہوتا تھا۔ اور رہی قرطبہ کی مرکزی جامع مسجد تو وہ آج بھی اپنی فنی اور اختراعی لحاظ سے زندہ جاوید یادگار ہے جس کے لیے انگریز مؤرخ کا یہ قول نقل کردینا کافی ہے کہ (انسان کی آنکھوں نے آج تک جو چیزیں دیکھی ہے ان سب سے خوبصورت ترین چیز یہ عمارت ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

سلطنت اسلامیہ کے اس چھوٹے شہر قرطبہ کا یہ حال تھا تو بغداد، دمشق اور مصر کیا کہنا وہ تو اس سے بڑے اور زیادہ تہذیب یافتہ شہر تھے۔ آج اس ملک کے نوجوانوں سے میری گزارش ہے کہ اگر سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے سے کبھی آپ کو فرصت ملے تو آپ اپنی تاریخ کا بھی کچھ مطالعہ کریں اور اس سوال کا جواب ڈھونڈے کہ آج ہماری حالت اس زمانے کے لندن اور پیرس جیسا کیوں ہے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply