تعارف اور ترجمہ : احمد سہیل
افتخار نسیم عرف ” افتی” نے اپنی انگریزی نظموں کا مجموعہ MYRMECOPHILE{ معنئی: عضویات} آٹھ دسمبر ۲۰۰۷ کو مجھے بھجوائی تھی، اس کتاب میں اکیاون/ ۵۱ نظمیں شامل ہیں۔ افتی نسیم ۱۵ ستمبر ۱۹۴۶ میں پاکستانی پنجاب کے شہر لائل پور { اب فیصل آباد} میں پیدا ہوئے۔ ان کا انتقال ۲۲جوالائی ۲۰۱۱ مین امریکہ کے شہر شکا گو میں دل کا شدید دورہ پڑنے کے بعد وہ دو دن کومے میں رہ کر ہوا۔ ان کی موت کی ایک بڑی وجہ کثرت مئے نوشی بھی تھی وہ اردو کے پہلے ” گے”/ امرد پرست/ اور ہم جنس پرست شاعر، ادیب، افسانہ نگار، صحافی، نشر کار اور عوامی مقرر تھے۔ وہ فیصل آباد میں ہینجڑوں کی سنگت “مٹرھی” میں بھی رہے۔ جب انھوں نے محسوس کیا کہ وہ پاکستان میں ” گے” ہونے کے سبب غیر محفوظ ہیں تو وہ امریکہ نقل مکانی کرگئے۔ اور شکاگو میں آباد ہوئے۔ انھوں نے اپنی ہم جنسیت کو بڑی دلیری کےساتھ پیش ہی نہیں کیا بلکہ مخصوص احساسات کوببانگ دہل اپنے مخصوص احساسات، حسیّت کو ،معاشرتی اور ادبی شناخت کونئے جمالیاتی رنگوں میں اپنی تحریروں میں پیش کیا۔ ایک دن افتی نسیم نے مجھ سے سوال کیا ۔۔”میری شناخت کیا ہے، میں مرد ہوں یا عورت”؟۔۔۔ پھر خود ہی کہنے لگے ” شاید میں عورت ہی ہوں”۔۔۔۔ تو میں نے ان سے مذاق میں کہا تم ” بہن نما بھائی ہو” تو بہت ہنسے۔ انھوں نے اردو ادب میں فرسودہ قدامت اور اقدار سے اغماض برتا اور اس فرسودگی پر علم بغاوت بلند کیا۔ ان کے ادبی اظہار میں ابہام بھی ہے اس کی وجہ ان کا وہ ذہنی اور اعصابی تناو ہے جو تشکیک ، وجودی بحران ،لایعنیت اور مزاحمت تک انھیں لے جاتا ہے اور غیر مانوس لفظیات ان کی تحریروں میں جگہ پالیتے ہیں۔ وہ محفل پسند انسان تھے۔ فقرے بازی اور لطیفہ گوئی میں ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔اپنی مہمان نوازی کے لیے بھی بہت مشہور تھے۔ افتی غزل کے بھی اچھے شاعر تھے۔ ان کی یہ غزل ملاخطہ ہو:
بارشوں کے بعد ست رنگی دھنک آ جائے گی
کُھل کے رَو لو گے تو چہرے پر چمک آجائے گی
پنکھڑی جتنا بچائے چور جھونکوں سے اُسے
پُھول تو جب بھی کِھلا ، اُس کی مہک آ جائے گی
آج بھی مجھ کو یہ لگتا ہے کہ اگلے موڑ پر !
جس پہ اِک پِیلا مکاں تھا، وہ سڑک آ جائے گی
کچھ نہیں سمجھے گا کوئی، لاکھ تم کوشش کرو!
جب دِلوں کے درمیاں دیوارِ شک آ جائے گی
روز مِلنا بھی نہیں اچھّا نَسِیؔم اُس شخص سے !
ورنہ اِک دِن تجھ میں بھی اُس کی جَھلک آ جائے گی
افتی نسیم کا “گےازم اور شاعری” پر اکثر گیان چند جین، خشونت سنگھ، ، کیرن ہاکنگ، کارا جوسن، سارا سیلری عذرا رضا سےمکالمہ اور خط وکتابت رہتی تھی۔ وہ اردو کے علاوہ انگریزی اور پنحابی { شاہ مکھی} میں لکھا کرتے تھے۔ ان کی پانچ کتابیں ” نرمان ،غزال ،آبدوز، شبری ، افتی نامہ ۔۔۔ کے ناموں سے شائع ہوچکی ہیں۔ وہ شکاگو میں ایک ” گے” انجمن ” سنگت” کے روح روان بھی رہے ہیں۔ افتخار نسیم اپنےہندوستانی جیون ساتھی ” پریم ” کے ساتھ رہا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” کنڈوم”۔ CONDOM
* افتخار نسیم
ترجمہ: احمد سہیل
ہم خلانوردوں کی طرح ملتے ہیں
خلا میں خلا کے ہمراہی
جو ہمارے جسموں کا حصہ نہیں ہیں
ایک دوسرے کو چھونا
یہ کس قسم کا ملاپ ہے
اس طرح تم سے جدا ہو جاوں
یہی بہتر ہے
ہمارے جسموں کی تپش
ہمارے جسموں کو جلاتی ہے
” لے ٹیکس “{ کنڈوم} میں لپٹا ہوا
او۔۔۔ جو یہ راز جانا چاہتا ہے
میرا جسم ٹھیک ہے، جیسا ہونا چاہیے
میں اس کے گرم جسم کا متمنی ہوں
تمہاری جلد
میری بقیہ زندگی کے لیے ہے۔
Facebook Comments
آپ سے اس سے پہلے میری کوئی ملاقات نہ ہےیہ تحریر ہی احمد سہیل سےتعارف کا وسیلہ بنی ہے آپ نے اس تحریر میں جو لکھنا تھا وہ لکھا اور جو کرنا چاہتے تھے اس میں کامیاب بھی دکھائی دیتے ہیں میرا آپ سے صرف ایک سوال ہے کیا امریکا کی اردو شاعری میں آج تک کوئی افتخار نسیم جیسا شاعر ہمارے سامنے آیا ہے جس نے ساری دنیا کو اپنے حصار میں لیا ہو۔
اردو ادب کے حوالے سے افتخار نسیم ایک بڑا نام تھے۔ اس مضمون میں صرف مجھ اُن کی کثرتِ شراب نوشی پر اعتراض ہے۔ مرحوم سے میرا تعلق کئی برسوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اور میں نے اُنہیں کبھی کسی “دیسی” اردو شاعر کی طرح ڈرنک نہیں پایا۔ شراب نوشی میں وہ بہت اعتدال پسند تھے۔