موت کی چہل قدمی۔۔۔۔ سرور غزالی

27 جنوری 1945 کو آوش وٹز کا کنسنٹریشن کیمپ آزاد کرایا گیا۔ مگر چند دن قبل ہی ایس ایس فوج نے بیشتر قیدیوں کو موت کی چہل قدمی کے لیے مغرب کی جانب روانہ کر دیا تھا۔ وینر باب جو کہ ان دنوں صرف 20 سال کے نوجوان تھے انہوں نے بعد میں اپنی کہانی سنائی کہ جہنم سے نکل کر جہنم میں آنا کیا معنی رکھتا ہے۔ آج کا دن یوم آزادی ان قیدیوں کے لیے تھا جنہیں آوش وٹز سے بچایا جا سکا تھا۔ آوش وٹز، برلن سے تقریبا” 556 کلو میٹر دور پولینڈ میں واقع ایک مقام ہے جہاں دوسری جنگ عظیم کے دوران آوش وٹز میں نازیوں نے تقریبا” 1،1 ملین افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ریڈ آرمی کی جانب سے ستائیس مارچ انیس سو پنتالیس کو ان میں سے کچھ افراد کو دلائی گئی اس آزادی کو سن دو ہزار پانچ سے عالمی یوم برائے یاد ہالو کاسٹ کے قیدیوں کے طور پر منایا جاتا ہے۔
جبکہ بے شمار آوش وٹز کے قیدیوں کے لیے اس دن بھی جہنم سے آزادی ممکن نہ ہو سکی تھی چونکہ چند دن قبل ہی ان میں بیشتر کو وہاں سے نکال کر کسی اور جگہ لے جایا گیا تھا۔ اس کنسنٹریشن کیمپ کی تعمیر کا حکم ہائیرچ ہملر نےسن انیس سو بیالیس میں اپنے دورء آوش وٹز کے دوران دیا تھا۔ دو سال قبل ہی یہ ملڑی کیمپ آوش وٹز جنوبی پولینڈ میں بنایا گیا تھا۔ اور اسے رفتہ رفتہ ترقی دی جارہی تھی۔ جو بعد میں آوش وٹز برکناوء جرمنوں کے سب سے بڑے انسانی جانوں کے تلف کیے جانے کے کیمپ سے مشہور ہوا۔
ریڈ آرمی کی فوجی صرف چھ دن دیر سے پہنچے جو کیمپ کے باقی ماندہ انسانوں کے لیے موت و زندگی کے مابین فرق کا باعث بن گئے۔ اکیس جنوری انیس سو پنتالیس کو قیدیوں کو آوش وٹز کے کیمپ سے باہر نکال کر مغرب کی جانب پیدل روانہ ہونے پر مجبور کیا گیا۔ کمزور لاغر اور بدحال قیدیوں کے جسم پر صرف نیلے اور گرے رنگ کے دھاری دار گاون تھے۔ ان کے پاوں میں لکڑے کے جوتے اور موزوں کی جگہ کسی اخبار کا ٹکڑا لپیٹا ہوا تھا۔ یہ کپڑے اور جوتے سردی سے بچاو کے لیے ناکافی تھے۔ ان کے پیچھے پیچھے گرم وردی اور فوجی بوٹ میں ایس ایس فوج کے جوان تھے جو انسانوں کو کسی ریوڑ کی مانند ہنکائے جارہے تھے۔ اور جو کوئی بھی کمزوری یا لاغر ہونے کی وجہ سے لڑکھڑا کر گر گیا اسے اٹھانے کی زحمت کرنے کی بجائے فوری طور پر گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا گیا۔ یوں یہ قافلہ لاشوں کے درمیان آگے بڑھتا رہا۔
لیون شوارز باوم آج ستانوے سال کے ہو چکے ہیں۔ انہوں   نے بھی  یہ قید جھیلی اور زندہ بچ رہے۔ عرصہ دراز تک خاموش رہنے والے یہ بہادر انسان کہتے ہیں کہ انسان ہی انسانوں کے ساتھ وہ سب کچھ کر گذرتا ہے جو ہم نے جھیلا۔ ان کا سوال ہے کہ میرے والدین ایک اچھے اور محبت کرنے والے انسان تھے انہیں کیوں مار دیا گیا۔۔۔۔ انہیں کس جرم کے بدلے میں اذیت دی گئی۔۔۔۔ شوارز باوم کا یہ انٹرویو سنتے ہوئے مجھے اپنے وہ تمام رشتہ دار یاد آجاتے ہیں جو مشرقی پاکستان میں تین سے تئیس مارچ سن انیس سو اکتھر میں مارے گئے۔ شوارز باوم اور مجھ میں ایک نہیں کئی ایک قدریں مشترک ہیں۔ ان کے خاندان کے سگے اگیارہ افراد مارے گئے۔ میرے قریبی اکتالیس رشتہ دار شہید ہوئے ہم دونوں نسل کشی کی جنگ سے بچ کر نکلنے والے ماضی کی یاد کا بوجھ اٹھائے پھرنے والے انسان ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply