وارنٹ آفیسر مسکین اور گندے انڈے(1)۔۔عاطف ملک

اگر آپ بیوروکریٹ یا ریٹائرڈ فوجی کے پاس بیٹھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ وہ تو ماضی میں جی رہا ہے۔
اس کے پاس آپ کو سنانے کے لیے اپنی نوکری کی کہانیاں ہوتی ہیں، وہ کہانیاں سناتا ہے، بے دریغ، بے بریک، بے حساب، بے جواب، بے خواب۔ آپ کا سننا ضروری نہیں، ہوں ہاں کرنا بھی ضروری نہیں، آنکھ ملانے کی ضرورت بھی نہیں، کان کھجائیے، بے زاری کا اظہار کریں، ماتھے کو رگڑیے، کچھ کرلیں ماضی میں سانس لیتا حال سے بے خبر ہی رہتا ہے۔

کہانیاں دواقسام کی ہوتی ہیں۔ اگر کہانی سنانے والے کاعہدہ چھوٹا رہا ہو تو وہ بڑے عہدیداروں سے کہانی شروع کر کےاپنے تک لائے گا۔ جیسے جیسے کہانی سنانے والے کا عہدہ بڑا ہوتا چلا جاتا ہے، اس کی کہانیاں تیزی سے اپنی  جانب آتی ہیں، اور پھر وہ مقام آتا ہے کہ کہانی سنانے والا اپنے ہی گرد والہانہ رقص کر رہا ہوتا ہے، دیوانہ وار ناچتا ہے۔ یہ چھب دکھاتی طوائف نہیں ہوتی بلکہ وقت کا مارا، حقیقت سے فرار مانگتا ناچار نچیا ہوتا ہے۔ ایسا ناچنے والا جو اپنا تماش بین بھی خود ہی ہے۔ یہ زندگی کا رقص نہیں بلکہ حسرتوں کا ناچ ہے۔ مور کا سنا ہے کہ پنکھ پھیلائے ناچتے اپنے پیروں کو دیکھ کر روتا ہے، یہ نچیا اپنے ماضی کو یاد کر کر کے روتا ہے، ہائے گئے وقت نچایا کرکے تھیا تھیا۔

وہ جو جی سر، جی سر کی مداح کا خوگر رہا ہوتا ہے، وہ ریٹائر ہونے کے بعد وقت کی تبدیلی دیکھتا ہے، محسوس کرتا ہے مگر مانتا نہیں۔ اس انکار سے وہ اپنا سراب خود تراشتا ہے اور اس کی پیاس اسے ناچنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ اپنا خدا خود ہوتا ہے، خود کو سجدہ کرتا ہے، وقت اور مقام سے قطعِ نظر اپنے خود تراشیدہ بت کے سامنے حالتِ سجدہ میں پڑا رہتا ہے۔

میں سینئر ٹیکنیشن شاہد، ریڈار فٹر فضائیہ میں ایک چھوٹا عہدیدار رہا ہوں۔ شاید آپ نہ جانتے ہوں کہ ریڈار فٹر کیا ہوتا ہے، یہ ریڈاروں کے مکینک ہوتے ہیں۔ جب ریڈاروں کے اینٹینا گھومنا بند ہوجاتے ہیں تو ہم ہی انہیں دوبارہ گھومنے پر لے کر آتے ہیں۔ جب ریڈاروں کے ٹرانسمیٹر یا ریسیورکام کرنا چھوڑ جائیں کہ فضا کی ہوائی تصویر گم ہوجائے تو ہم ہی وہ لوگ ہیں جو معاملہ درست کرتے ہیں۔ یہ درستی کا معاملہ گھنٹوں سے لے کر کئی راتوں اور دنوں کی قربانی لے سکتا ہے۔ جان لیجیے کہ دشمن کے جہاز تک کی رہنمائی میں ہم ایک کردار ہیں، کئی اور کرداروں کی طرح چپ چاپ اپنا کام انجام دیتے۔

میرے کام کو چھوڑیے، آپ ایک کہانی سنیں۔ میری کہانی کسی بڑے افسر کی نہیں بلکہ اپنے ایک انچارج وارنٹ آفیسر کی ہے۔ اگر آپ فوج کے  عہدوں سے واقف ہوں تو جانیے کہ سینئر ٹیکنیشن حوالدار ہوتا ہے، جی وہی حوالدار جو بازو پر تین فیتیاں لگاتا ہے جبکہ وارنٹ آفیسر صوبیدار ہوتا ہے۔ صوبیدار جس کا نام سن کر اٹھی مونچھوں والا، یونیفارم کے کاندھے پر لکیر کے ساتھ ایک ستارہ لگائے کرخت، چست، لمبا، چوڑا، حکم دیتے فوجی اہلکار کا خیال آتا ہے۔ مگر آپ کو مایوسی ہوگی میری کہانی کا وارنٹ آفیسر ایسا نہیں ہے۔ وارنٹ آفیسر سرفراز کو اگر آپ کہیں مل لیتے تو آپ کو یقین نہ آتا کہ وہ کاندھوں پر ستارہ لگاتا ہے۔ وہ درمیانہ قامت  تھا، بات کرتا تو لگتا کہ منت کر رہا ہے۔ بڑوں کے سامنے جی جی کی گردان لگاتا، چھوٹوں کو حکم دیتا تو لگتا کہ درخواست گذار ہے۔ یونٹ میں کسی نے اُس کا نام مسکین رکھ دیا، اب وہ وارنٹ آفیسر مسکین کے نام سے جانا جانے لگا۔ مگر نہ جانے کیوں مجھے وہ مسکین نہیں لگتا تھا، مجھے محسوس ہوتا تھا کہ جب وہ جی جی کررہا ہوتا ہے، جب وہ درخواست گذار ہوتا ہے تو اس کے لبوں پر دور ایک ان دیکھی مسکراہٹ ہوتی ہے۔ وہ مسکراہٹ جو کسی اور کو نظر نہیں آتی، وہ مسکراہٹ صرف اس کے اپنے لیے ہوتی ہے۔

یونٹوں میں سپاہیوں سے لے کر افسروں تک کے نام رکھے جاتے ہیں۔ یہ نام شناختی کارڈ پر لکھے ماں باپ کے دیے گئے ناموں سے الگ ہوتے ہیں کہ یہ نام عمل اور وقت عطا کرتا ہے۔ وقت اور عمل کے دیے گئے نام انمٹ سیاہی سے لکھے جاتے ہیں۔ یہ نام فوجی گھوڑے کی پشت پر گرم سلاخ سے داغے گئے شناختی نمبر کی مانند ہوتے ہیں، ایک دفعہ شخصیت پر لگ گئے تو پھر کھرچے نہیں جاسکتے، چاہے حاملِ نام جتنی مرضی کوشش کرلے یہ نام شناختی علامت رہتے ہیں۔

فوج میں لوگ ملتے ہیں اور پھر بکھر جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے کسی گاؤں میں بینائی کی گم ہوتی شمع رکھتا بوڑھا حوالدار، پنجاب کے کسی بڑے شہر کے بنک کے دروازے پر اڑی رنگت کی سلوٹوں بھری پتلون پہنے خصاب سے کالی کردہ مونچھوں والا ریٹائرڈ لانس نائیک، سندھ کے کسی قصبے میں کریانے کی دکان چلاتا ریٹائرڈ فوجی حوالدار، پشاور میں ویگن اڈے کا منتظم نیوی کا ریٹائرڈ پیٹی افسر، لاہور میں مشہور بیکری کی چین کی دکان کے کاونٹر پر کھڑا ریٹائرڈ وارنٹ آفیسر، قلات میں پرائیوٹ سکول میں ناکافی تنخواہ پر کلرک ریٹائرڈ چیف ٹیک، سکیورٹی ایجنسی چلاتا ریٹائرڈ کرنل، پراپرٹی ڈیلنگ کا کام کرتا ریٹائرڈ میجر، کسی ٹائیکون کا ملازم ریٹائرڈ جنرل، ٹی وی ٹاک شو پر ایکسپرٹ کہلاتا ریٹائرڈ ائیر مارشل،ان سب کے اصل نام لوگ بھول جاتے ہیں، عمل اور وقت کے عطا کردہ نام زندہ رہتے ہیں۔ ایک دفعہ رکھے نام پھر نہیں بدلتے۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ نام بدل جاتے ہوں۔

مگر کبھی کبھی یہ عطا کردہ نام بدلتے ہیں۔ یہ کہانی بھی ایسے ہی ایک استثنا کی ہے، سرفراز سے مسکین کا عُرف عام پانا اور پھر سے سرفراز ہونا، یہ کہانی روایتی کہانی نہیں ہے۔

یہ نام کیسے آتے ہیں؟۔۔ سب سے پہلے جانیے کہ  عام طور پر یہ نام دو طریقوں سے آتے ہیں۔ فوجی بیرک میں جائیں تو لائن میں بستر لگے ہوتے ہیں۔ لوہے کے فریم کی چارپائیاں جو فولڈ ہوجاتی ہیں، ان پر بچھی چادریں، ایک طرف  سرہانہ اور پائنتی پر موسم کے لحاظ سے چادر، کھیس یا رضائی طے کرکے پڑی ہوتی ہے۔ سرہانے کے غلاف پر کی گئی کڑھائی کسی رشتے یا بنتے رشتے کا واسطہ لیے پردیس میں شب کو ساتھ ہوتی ہے۔ چارپائی کے پیروں کے نیچے ایک لوہے کا ٹرنک پڑا ہوتا ہے۔ یہ ٹرنک فوجی کے ساتھ اس کے نصیب کی مانند ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اس ٹرنک کے اوپر فوجی کا نام موٹے حروف میں لکھا ہوتا ہے۔ نام کے ساتھ کبھی یونٹ کا نام اور کبھی آبائی علاقے کا نام خوشخط لکھا ہوتا ہے کہ بیرک میں کوئی نہ کوئی بچپن میں سرکنڈے کی قلموں اور تختیوں کی مشق سے گذرا ہوتا ہے۔ سرکنڈے کی قلم، لکڑی کی تختی اور گاچنی کی ڈلی،عامیوں سے دل لگائیں تو خصوصیت عطا ہوتی ہے۔

ان ناموں کے آخر میں خود چُنے اضافی نام بھی درج ہوتے ہیں؛ پردیسی، پنچھی، زخمی وغیرہ۔ عموماً یہ نام ایک اداسی کی فضا اوڑھے ہوتے ہیں۔ ہجرت چاہے رزق کے لیے ہو، چاہے عارضی ہو، چاہے بے نام سے گاوں سے رونق بھرے شہر کی جانب ہو، ایک بے کلی کی چادر اوڑھے ہوتی ہے۔

یہ اضافی نام حاصل کرنے کا پہلا طریقہ ہے، عموماً یہ میرے جیسے نچلے عہدے کے ملازمین میں زیادہ مروج ہے۔ دوسرا نام حاصل کرنے کا طریقہ جو افسران میں زیادہ اور نچلے عہدیدران میں کم مستعمل ہے، اسے سمجھنے کے لیے کہانی کو مزید پڑھنا ہوگا۔ ان ناموں میں اچھے برے تمام رنگ ہوتے ہیں۔ اگر آپ ان ناموں کو سُن لیں تو بھی اندازہ ہوجائے گا کہ یہ نام کیسے آئے ہونگے مثلاً شبیراینجل، اسلم ٹوکہ، فلاں ڈوگی وغیرہ۔ یہ نام عمل اور وقت عطا کرتا ہے۔ بخدا نام ہی کافی ہوتا ہے، نام سننے کے بعد ان نامیوں کی خصوصیات کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑتی۔

میں اور وارنٹ آفیسر سرفراز عرف مسکین ایک موبائل ریڈار یونٹ میں تعینات تھے۔ یہ یونٹ سال کے کچھ ماہ چھاونی میں رہتی اورباقی عرصہ باہر مختلف مقامات میں رہتی تھی۔ جب میں تبادلے کے بعد اس یونٹ گیا تو یونٹ کا آفیسر کمانڈنگ، جسے مختصراً او-سی بھی کہا جاتا ہے، نرم گفتار اور ماتحتوں کا خیال رکھنے والا تھا۔ ایک دن صبح یونٹ میں خبر پھیلی کہ او-سی کا تبادلہ ہوگیا ہے۔ ماتحت اُس کے جانے کی خبر سن کر افسردہ ہوگئے مگر فوج میں تبادلے ایک معمول کی  بات ہیں، ایک گیا اور اگلا آیا۔ سو لوگ اگلے کی بابت پتہ کرنے لگ جاتے ہیں کہ جس سے اب واسطہ پڑے گا وہ کس قماش کا ہے۔

عملے نے اگلے صاحب کی موجودہ پوسٹنگ کی جگہ سے اُن کے بارے میں معلومات حاصل کیں، اطلاعات کچھ اچھی نہ تھیں۔ پرانا او-سی گیا اور نیا آیا، بلکہ اُس کے آنے سے پہلے اُس کا سامان آیا۔ ٹرک پر جو سامان آیا تھا اس کے ساتھ پچھلی یونٹ کے دو ملازم ایک کتا بھی لائے تھے۔ یونٹ میں ایک تیز طرار ریڈیو آپریٹر تھا جو کہ ٹیلیفون ایکسچینج  میں کام کرتا تھا اور مختلف افراد کی کھوج لگا لاتا تھا۔ کسی نے اس سے نئے او-سی کی بابت پوچھا تو ستم ظریف بجائے ان کے بارے میں بتاتا، کہنے لگا کہ ان کا کتا اچھی نسل کا ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

عاطف ملک
عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل ، موسیقی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے، اور آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں۔ یہ تحاریر ان کے ذاتی بلاگ پر بھی پڑھی جاسکتی ہیں www.aatifmalikk.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply