نئے صوبے ۔۔۔ مہر ساجد شاد

 پاکستان میں نئے صوبے بنانے کی بات ہر کچھ عرصہ بعد ایک نعرے کی صورت میں سامنے آتی ہےاور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر دفعہ یہ بعد مختلف پارٹی یا گروہ کی طرف سے کی جاتی ہے، مسائل سے نبرد آزما حکومت پر یہ سیاسی دباو کا ایک مروجہ طریقہ ہے۔ یہ وہی ملک ہے جہاں صوبوں کو یکجا کر کے ون یونٹ بنانے کا بالکل برعکس تجربہ بھی کیا چکا ہے جو یقینا غلط تجربہ تھا۔ 

پاکستان کے صوبوں کا اگر جائزہ لیں تو سب سے زیادہ رقبہ بلوچستان کا ہےاور آبادی سب سے کم ہے، سب سے زیادہ آبادی پنجاب کی ہے اور اسی وجہ سے اسے بڑا صوبہ کہا جاتا ہے۔ سندھ کو اگر دیکھیں  تو یہاں پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ہے لیکن باقی سارا صوبہ پسماندہ نظر آتا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے ایک طرف گلگت بلتستان اور کشمیر ہے دوسری طرف فاٹا کا قبائلی علاقہ ہے جسے وفاقی انتظام سے بدل کر اس صوبہ میں ضم کرنے کا فیصلہ ہو چکا عملدرآمد ابھی باقی ہے۔ اس صوبہ کی لمبی سرحد افغانستان کے ساتھ ہے۔

 یہ درست ہے کہ وسائل کی تقسیم میں سب سے زیادہ حصہ پنجاب کو ملتا ہے لیکن یہ آبادی کی بنیاد پر تقسیم کی وجہ سے ملتا ہے۔ دوسرے صوبے اس پر اعتراض کریں تو صوبہ کی تقسیم اس مسلۂ کا حل نہیں، کیونکہ نئے صوبوں کو بھی آبادی کے لحاظ سے ہی وسائل ملیں گے اور اس خطہ کو پھر زیادہ حصہ ملے گا۔ تاہم زیادہ صوبے بن جانے سے اس خطہ کے حکومتی اخراجات میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہو جائے گا اور یقینا ترقیاتی کاموں کیلئے وسائل میں کمی آ جائے گی۔ 

سوال یہ ہے کہ نئے صوبے کیوں بنائے جائیں؟

وجہ یہ بیان ہوتی ہے کہ اتنی بڑی آبادی میں انتظامی مسائل سے نمٹنے کے لیے اختیارات کی تقسیم ضروری ہے۔ دور دراز علاقوں سے لوگوں کے لیے صوبائی دارالحکومت تک رسائی مشکل ہوتی ہے اس لئے جنوبی پنجاب اور بہاولپور ڈویژن کو صوبے بنا دیا جائے۔ اس اصول کے تحت تو بلوچستان کے بھی چار صوبے بنانا ہوں گے تاکہ پنجاب کی نسبت زیادہ دور دراز کے علاقوں کے لوگوں کو صوبائی دارالحکومت تک رسائی کے مسلۂ سے نجات ملے۔ انہی بنیادوں پر دیکھا جائے تو صوبہ سرحد میں ہزارہ ڈویژن کو بھی فی الفور الگ صوبہ بننا چاہیئے۔ 

پنجاب پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہاں لاہور نے سب سے زیادہ ترقی کی جبکہ باقی صوبے کا استحصال ہوا۔ سندھ میں بھی کراچی سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر ہے۔ باقی صوبہ میں کوئی شہر بھی دیہاتی ماحول سے باہر نہیں نکل سکا۔ پنجاب میں لاہور کے علاوہ دس بڑے شہر ہیں۔ سندھ کا کوئی شہر بھی کراچی کے بعد پنجاب کے ان دس شہروں میں سے کسی شہر کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس لحاظ سے تو سندھ کو بھی فوری طور پر تقسیم کر کے وسائل کی تقسیم نچلی سطح کرنے کی خرورت ہے۔ 

کراچی کے مسائل بھی منفرد نوعیت کے ہیں۔ اس صوبہ پر حکومت کرنے والے اندرون سندھ سے اکثریت کے کر آتے ہیں جبکہ کراچی کی نمائندہ قیادت اقلیت میں ہوتی ہے لہذا کراچی شہر اس حکومت کی ترجیح ہی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر کے بنیادی مسائل پچھلی کئی دہائیوں سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس شہر کو بھی الگ صوبہ بنا کر یا پھر وفاق کے زیرانتظام رکھ کر چلانے کی ضرورت ہے۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

حقیقت یہ ہے کہ انتظامی مسائل کا حل نچلی سطح تک اختیارات کی تقسیم کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو کہ صوبے بنائے بغیر بھی ممکن ہے۔ اگر ترقیاتی کاموں کے لیے شہروں اور ضلعوں کی حکومتوں کو خود مختار بنایا جائے، امن و امان کے لیے سول اداروں کو بااختیار بنایا جائے، انہیں وسائل مہیا کر دئیے جائیں اور وہ اپنے علاقوں کی ضروریات کے مطابق فیصلے کریں، تعلیم اور صحت کی سہولیات کیلئے مربوط نظام بنا دیا جائے جو کہ گاوں اور شہر کے فرق کے بغیر ان سہولیات کی فراہمی یقینی بنائے تو، صوبوں کو تقسیم کر کے نئے صوبے بنانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply