• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خونی لیکروں کے درمیان منقسم گلگت بلتستان کے خونی رشتوں کا نوحہ ۔۔شیر علی انجم

خونی لیکروں کے درمیان منقسم گلگت بلتستان کے خونی رشتوں کا نوحہ ۔۔شیر علی انجم

محترم قارئین جنگ کسی بھی معاشرے کیلئے نہ صرف بربادی کا سامان فراہم کرتی ہے بلکہ جنگ  زدہ علاقے معاشی طور پر بھی ترقی اور تعمیر کے عمل میں پیچھے رہ جاتے  ہیں ۔۔ جنگوں کی وجہ سے تقسیم ہونے والے خاندانوں کے دل کی کیفیت اور کرب تو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنکے ماں ،باپ بہن ،بھائی جنگ کیوجہ  سے  ایک دوسرے سے جُدا ہوگئے اور عمر بھر ایک دوسرے سے ملنے کی تمنا دلوں میں بسائے دنیا سے رخصت ہوگئے۔جنگ کی وجہ سے ملکوں کے درمیان منقسم خاندانوں کا درد اور دکھ تو وہی لوگ سمجھ اور محسوس کرسکتے ہیں   جن کے دل میں انسانیت کیلئے جذبہ اورسوچ اور فکر کیلئےضمیر زندہ ہو۔

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بہت ساری جنگیں لڑی جاچُکی ہیں   لیکن آج موضوع جنگ کی جیت اور ہار سے بالائے طاق جنگ کی وجہ سے تقسیم ہونے والے گلگت بلتستان کے ہزاروں منقسم خاندانوں کے درد کو بیان کرنا ہے۔ تقسیم برصغیر کے بعد ریاست جموں کشمیر کا شیرازہ بکھیرنے کے مراحل اور مہاراجہ کشمیر کا الحاق بھارت اور گلگت بلتستان میں اس الحاق کے خلاف بغاوت اور گلگت بلتستان کو بھارت کی جھولی  میں جانے سے روکنے کی تاریخ ساز معرکے سے لیکر 1948 کی جنگ بندی تک کے مراحل میں صدیوں سے زبان، تہذب تمدن ،ثقافت اور مذہب کے رشتے کے بندھن  میں موجود لداخ بلتستان سے الگ ہوکر ایک جسم کے دو ٹکرے ہوگئے ۔مگر لاچار عوام نے آہوں اور سسیکوں کی آہٹ میں درد کو سہہ لیا اور زندگی کو جاری رکھنے کی کوشش لیکن اکہتر کی  جنگ پہلے سے منقسم گلگت بلتستان کے عوام پر قیامت بن کر ٹوٹ پڑی اور ایک ہی رات میں کئی علاقے بھارت کے زیر قبضہ چلے گئے ،  اور سینکڑوں  گھرانے ایک دوسرے سے جُدا ہو گئے۔
اُس دن سے لیکرآج تک یہاں کے منقسم خاندان کبھی دریا کنارے کبھی پہاڑ کی بلندی پر چڑھ کر سرحد کے اُ س پار اپنے آبائی علاقوں ،وادیوں کا نظارہ کرکے غم کے  گیت گاتے ،مرثیہ پڑھتے نظر آتے  ہیں ، اس حوالے سے بہت سی  ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی موجود ہیں۔

گزشتہ ہفتے منقسم خاندانوں کے رہنما حافظ بلال زبیری نے کسی نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنا درد کچھ یوں  بیان کیا کہ وہ اُس وقت فیصل آباد کے مدرسے  میں زیر تعلیم تھے اور سات ماہ تک اُنہیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ اُن کا علاقہ بھارت کے قبضےمیں چلا گیا ۔ اُنکا کہنا تھا کہ اکہتر کی جنگ میں بلتستان میں شامل علاقہ ٹیقشی،تورتک اور چھلونکھا جو 300 مربع میل پر محیط تھے ،پر ایک ہی رات میں انڈیا نے قبضہ کرلیا۔ روتے ہوئے اُنکا کہنا تھا کہ یہ درناک واقعہ صرف میرے ساتھ نہیں بلکہ ہزاروں افراد کے ساتھ پیش آیا کیونکہ اُس وقت کوئی روزگار اور کوئی تعلیم کے سلسلے میں پاکستان اور گلگت بلتستان کے مختلف شہروں میں مقیم تھےجو دردبدر ہوگئے اور 1984 تک  رابطے  کا  کوئی انتظام نہیں تھے لیکن 1984 کے بعد خط اور کتابت کا سلسلہ شروع ہوئے ۔ اُنکا کہنا تھا کہ اُنہوں نے منقسم خاندانوں کو ملانے کیلئے پورے پاکستان میں تحریک چلائی ، بلتستان میں مسلسل احتجاج آج تک کرتے آرہے ہیں لیکن کسی بھی حکمران نے اُن کی ایک نہ سُنی۔

ان  منقسم  خاندانوں کو ملانے کیلئے  گلگت  بلتستان کے عوام گزشتہ دہائیوں سے سراپا احتجاج ہیں ممتاز قوم پرست رہنما سید حیدر شاہ رضوی شہید نے اپنی زندگی اس تحریک کو زندہ رکھنے کیلئے صرف کی  لیکن کامیابی سے ہمکنارنہ ہوسکے۔ اُنہوں نے ان سڑکوں کی بحالی کیلئے “سرحد کھولو اضلاع بناؤ” کے نام سے تحریک چلائی جس کے سبب اُن کے اوپر 51 کے قریب مقدمات بنے جس میں غداری اور بغاوت کا مقدمہ بھی شامل تھے حقوق کی جدوجہد میں وہ کئی بار جیل بھی گئے لیکن اُنہوں نے  آخری وقت تک قوم کو یہی پیغام دیا کہ جنگ  عوام کا قصور نہیں ،ممالک کے مفادات ہیں لہذا جنگ کے متاثرین کی بحالی کا احساس کیا جائے۔ 2013گندم سبسڈی تحریک میں اُنکا ولولہ انگیز خطاب اُنکی زندگی کا آخری خطاب ثابت ہوا اور وہ بیماریوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر 2015 میں خالق حقیقی سے جاملے۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے ممتاز قوم پرست رہنما منظور پروانہ نے بھی اس سڑک کی بحالی کا بیڑا اُٹھا یا اور آج بھی وہ مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں ۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ یہاں کے عوام گزشتہ 71 برسوں سے اپنے رشتہ داروں سے جدائی کا غم برداشت کررہے  ہیں  ۔ انسانی تاریخ کا ایک بڑا المیہ ہے کہ  گلگت بلتستان کے منقسم خاندان  گزشتہ دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ سڑک ویسے تو صرف چند کلو میٹر کی دوری پر ہے لیکن خونی لیکروں نے آج تک بھائی کو بھائی سے،بہن کو بھائی، ماں بیٹے سے اور میاں بیوی سے الگ کیا ہوا ہے۔لیکن انسانی بنیادوں پر ان منقسم خاندانوں کو ملانے کیلئے کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔منقسم خاندانوں کے رہنما حافظ بلال زبیری کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومتوں سے یہاں تک گزارش کی تھی کہ ان منقسم خاندانوں کو ملانے کیلئے کم از کم سرحدوں کے زیرو پوائنٹ آرمی پوسٹوں پر ایک کیمپ لگا کر اپنے عزیزوں سے ملنے کا موقع فراہم کریں لیکن وہ روتے اور بلکتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہماری کسی نے نہ سُنی اور بحیثیت مسلمان ہمارے والدین نے ہمیں آزاد پیدا کرنے کے باوجود آج بھی ہم مجبور ہیں ہمارا کوئی پوچھنے والا نہیں اورہماری بات اور آنسو بھرے مطالبات پر کوئی ایکشن لینے والا نہیں۔

اپنے لوگوں کی جدائی کی  تکلیف اور بچھڑ جانے کا غم تو وہی لوگ محسوس کر پائیں  گے  جس کا بھائی لائن آف کنڑول کی دوسری جانب ہو اور ایک بھائی کی شادی اس جانب ہو رہی ہو اور وہ اس میں شامل نہ ہو پارہا ہو، یہ درد وہی محسوس کر سکتا ہے جس کی ماں بلتستان میں گزر چکی ہو اور اس کی موت کی خبر کئی  برسوں بعد اس کے بیٹے کوکرگل میں مل جائے ، غرض یہ کی لائن آف کنڑول صرف دو علاقوں کو تقسیم ہی نہیں کرتی بلکہ رشتوں ،جذبات اور انسانیت کا بھی قتل کرتی ہے ۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگوں کے باوجود بھی سرحدی رابطہ ہمیشہ سے رہا ہے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کبھی سیاسی بیان بازی اور معاملات کشیدہ ہونے پر واہگہ  بارڈر بند کر دیا گیا ہو ۔ بلکہ ہمیشہ سفارتی چینل کھلا رکھا جا تا ہے ۔ یہاں تک کہ مظفر آباد اور سری نگر کے درمیان سرحدی کشیدگی کے باوجود ان علاقوں کے عوام کو آپس میں ملوانے کی غرض سے مظفر آبا د سری نگر سٹرک کھول دی گئی ہے۔ پونچھ اور راولاکوٹ کا   رابطہ بھی کسی حد تک بحال کیا گیا ۔ لیکن ستم بالائے ستم گلگت بلتستان کی سرحدوں پر حالات دیگر سرحدوں سے کہیں   زیادہ پُرامن ہونے اور آرپار کے عوام کا امن اور آشتی کے حوالے سے ایک مثال ہونے کے باوجود ان علاقوں کے لوگوں کو کبھی بھی اپنے رشتہ داروں سے ملنے کا آج تک موقع نہیں ملا ۔

اس سے بڑا کیا المیہ ہوسکتا ہے کہ  کارگل میں آباد کھرمنگ جسکا کرگل کی طرف راستہ 30کلومیٹر سے بھی شائد کم ہے لیکن اپنے رشتہ داروں اور اہلخانہ سے ملنے وہاگہ کےذریعہ ہزاروں کلومیٹر سفر طے کرکے آنے پر مجبور ہیں اور اُس حوالے سے بھی کئی قسم کے مسائل درپیش ہیں ۔قارئین حکومت پاکستان نے ایک بہتر اور مثبت کام یہ کیا ہوا ہے کہ کرگل کے منقسم خاندانوں کو یہاں سے فون کرنے کی اجازت ہے لیکن ہندوستان کی ظالم اور جابر حکومت نے منقسم خاندانوں کیلئے فون کی سہولت تک پر بھی پابندی عائد کی ہوئی ہے لیکن جب سے سوشل میڈیا آئی ہے لوگ واٹس ایپ فیس بُک کے ذریعے اپنے عزیزوں سے رابطہ کرتے ہیں لیکن اس حوالے سے بھی گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سنگین مسلہ ہے۔

قارئین تحریک انصاف حکومت کی جانب سے کرتارپور سرحد کھولنے کے بعد ایک مرتبہ پھر گلگت بلتستان میں سرحدیں کھولنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے سوشل میڈیا فیس بُک، ٹیوٹر اورواٹس ایپ گروپس میں اس حوالے سے ایک بہتزیادہ بحث کی جارہی  ہے۔ اس وقت دنیا میں سوشل میڈیا کو ففتھ جنریشن وار کے طور پر استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہاں کوئی بھی خبر بغیر کسی سنسر شپ کے عوام اور اقوام عالم تک باآسانی پہنچ جاتی ہے۔اسی طرح واٹس ایپ گروپس بھی ایک مضبوط آواز بن چُکی ہے یہی وجہ ہے کہ آج لوگ احتجاج سڑکوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھرپورانداز میں کرتے ہیں جو کہ زیادہ موثر ثابت ہورہا ہے گلگت بلتستان میں اس حوالے سے عوام کے ساتھ ویسے تو کئی درجن فیس پیج اور ٹیوٹر اکاونٹس متحرک نظر آتے  ہیں لیکن ایک ایسا واٹس ایپ  گروپ بھی ہے جسے گلگت بلتستان کے سیاسی حکومتی اور اہم سرکاری ذمہ دار اداروں میں خاص پذیرائی حاصل ہے ۔ماضی میں عوامی حقوق کی تحریکوں میں قیادت کو ایک پیج پر جمع کرنے اور حکمت عملی  طے کرنے کے حوالے سے اس واٹس ایپ گروپ کا بھرپورکردار ادا کر  رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے اینٹی ٹیکس موومنٹ کے دوران اس وٹس اپپ گروپ کا نام لیکر تنقید کی ۔آج اس گروپ میں جہاں پاکستان ہندوستان سمیت پوری دنیا بھر میں مقیم ریاست جموں کشمیر گلگت بلتستان اور کرگل لداخ کے انٹلیکچول اپنے خطے کے مسائل کا  حل تلاش کرتے ہیں، میں مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اس سڑک کو  انسانی بنیادوں پر کھول کر منقسم خاندانوں کو ملنے کو موقع فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

افواج پاکستان کا گلگت بلتستان کی ترقی اور تعمیر میں جو کرداررہا ہے وہ کسی سے ڈھکا  چُھپا  نہیں مختلف قدرتی آفات کے مواقع پر حکومت کی ناکامی پر افواج پاکستان کی  عوام کی خدمت اور سہولت کیلئے جو ناقابل فراموش خدمات ہیں اُسے عوام بہتر انداز میں محسوس کرتے ہیں لیکن بتایا جاتا ہے کہ عوام کا کچھ افسران کے حوالے سے شکوہ بھی ضرورتھے یقینا ً مقتدر حلقوں نے اس پر نوٹس لیا ہوگا اور آج کل گلگت بلتستان میں ایک ایسے  درویش صفت انسان کو فورس کمانڈر گلگت بلتستان کی ذمہ داری ملی ہوئی ہے ،جو نا  صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے بلکہ اُنہوں نے گلگت بلتستان پر عسکری تربیت سے ہٹ تک تاریخی اور علمی سٹڈی بھی کی ہوئی ہے وہ گلگت بلتستان کے مسائل کو بلکل اسی طرح سمجھتے ہیں جس طرح یہاں کے عوام محسوس کرتے ہیں ۔اُنہوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے تھیسز میں گلگت بلتستان کی تاریخ اور یہاں کی محرومیوں کو بلکل ایسے بیان کیا ہے جیسے ہم ہمیشہ سے لکھتے بولتے رہے ہیں۔ فورس کمانڈر گلگت بلتستان میجر جنرل احسان محمود نے گزشتہ ہفتے بلتستان ریجن کا دورہ کیا اور اپنے اس اہم دورے میں وہ چھوربٹ سے لیکر کھرمنگ گنگنی تک گئے، عوامی مسائل سُنے، فوج کی  زیر استعمال عوامی املاک عوام کو واپس کیں ،ساتھ اُنہوں نےدہائیوں سے حکومتوں سے مایوس عوام کوکرگل سکردو ور خپلو تورتک سڑک کی بحالی کے حوالے سے بڑی خوشخبری سُنانے کا بھی اعلان کردیا ۔یقیناً  اُن کا یہ بیان پالیسی بیان ہوگا اور اس اعلان کے بعد گلگت بلتستان کے منقسم خاندانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ظالم جابر ہندوستان سرکار اس حوالے کوئی نئی چال کھیلتے ہیں یا انسانیت کیلئے ان سڑکوں کو کھولنے کیلئے پاکستان کے ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ۔

محترم قارئین دوسری طرف جب ہم گلگت بلتستان کے منتخب عوامی نمائندوں کی بات کریں تو موجودہ اسپیکر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی حاجی فدا محمد ناشاد جنہوں نے2002 میں کرگل کا دورہ بھی کیا تھا ۔کسی انٹرویو میں شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے ہر دور میں حکومتوں کو خطے لکھے لیکن ہم مایوس ہوئے ۔یاد رہے ناشاد گلگت بلتستان کاوہ سیاست دان ہ جو پارٹیاں بدل بدل کر ہر دو ر میں حکومت کے اہم عہدوں پر فائزہوتے رہے ہیں، حالیہ وہ مسلم لیگ ن میں شامل ہیں اور اطلاع کے مطابق تحریک انصاف کیلئے پر تول رہا ہے، اُنکا کہنا تھا کہ اُنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف سے بھی اس حوالے سے بات کی تھی لیکن اُنہوں نے صاف انکار کردیا۔لیکن ایک عجیب واقعہ تب پیش آیا جب گلگت بلتستان کے حافظ وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمنٰ سے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں کسی نجی ٹی وی کے رپورٹر نے کرگل سڑک کی بحالی کے حوالے سے سوال کیا تو اُنہوں ناقابل یقین انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ خواہش تو ہماری بھی ہے لیکن اس سڑک کی بحالی کیلئے 100 ارب کا بجٹ چاہئے وہ ہم کہاں سے لائیں۔ حالانکہ سکردو کرگل شاہراہ ماضی میں آل ویدھر روڈ رہے ہیں اور بلکل آخری گاوں (ہندرمو) تک سڑک بھی تیار ہے اور یہ اس شاہراہ کو پہلے سے کہیں ذیادہ مضبوط اور وسیع انداز میں بنایا جارہا ہے یہی صورت حال خپلو کی طرف کا بھی ہے (فرانو ) گاوں تک سڑک تیار ہے آگے صرف چند میل کی دوری پر بھارت کے زیر قبضہ بلتستان کا گاوں تورتک آتا ہے۔
لہذا ضرورت اس امرکی ہے کہ جب تک سیاسی قیادت کے ذہنوں میں موجود فتور ختم نہیں ہوتے اسطرح کے پچیدہ مسلے حل نہیں ہوتے۔ وزیر اعلیٰ کے اس تاریخی جھوٹ پر مبنی بیان پر سوشل میں پر اُنہیں آڑے ہاتھوں لیا جارہا ہےسوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ جو سیاسی اور مذہبی دونوں حوالے سے بہت ذیادہ متعصب شخصیت کے حامل انسان ہے اور اُنہیں منقسم خاندانوں کے درد کا احساس نہیں حالانکہ وہ خود کشمیر سے ہجرت کرکے گلگت میں آباد ہیں۔دوسری طرف جب ہم کرگل کی بات کریں تو وہاں کے صحافی دانشور سیاست دان اس حوالے سے ذیادہ فعال نظر آتا ہے لیکن وہ ہندوستان کی ہٹ دھڑمی کے آگے بس ہیں لگتا ایسا ہے کہ ہندوستان اپنے قابض علاقوں پاکستان میں اپنے جرائم چُھپانے کیلئے راستے کھولنا نہیں چاہتے لیکن اگر سفارتی کوشش کیا تو ان سڑکوں کو انسانیت کی بنیاد پر کھلنا ممکن بھی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس حوالے سے گزشتہ سال جموں کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کرگل میں ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کرگل اسکردو اور تورتک خپلو سٹرک کھولنے کی بات کی تھی انہوں نے کہا تھا کہ اس سٹرک سے زمانہ قدیم کے تاریخی روابط پھر سے بحال ہو جائیں گے اور کرگل سنٹرل ایشیا کا گیٹ وے بنے گا ۔
لہذا ارباب اختار خاص طور پر عمران خان کی حکومت کو چاہئے کہ جس طرح سکھوں کے ساتھ انسانی اور مذہبی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کارپور سرحد کھولا بلکل اسی طرح مسلمانوں کے ساتھ انسانی ہمدردی کرتے ہوئے سکردو کرگل سمیت دیگر بند سڑکوں کو کھولنے کیلئے بھارت کے ساتھ مذاکرات کریں اور گلگت بلتستان کے 900 خاندانوں پر مشتمل 22 ہزار منقسم خاندان کو آرپار اپنے عزیزوں سے ملنےکا ۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply