معاشرے میں بڑھتی مذہبی جنونیت۔۔۔۔۔۔۔قربِ عباس

یہ جو ہم سماج میں تشدد کے اندر لذت حاصل کرنے والے واقعات ایک تواتر کے ساتھ دیکھ رہے ہیں، یہ جو مذہبی جنونیت سامنے آ رہی ہے، آئے دن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے کیس سننے کو ملتے ہیں۔ ہر دوسرے دن کسی مولوی کی ویڈیو وائرل ہو جاتی ہے جس میں یا تو وہ کسی طالب علم کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنا رہا ہوتا ہے یا پھر بچوں کے ساتھ بد فعلی کر رہا ہوتا ہے۔

میں اس میں براہ راست غربت یا مذہب کو ذمہ دار نہیں سمجھتا کیونکہ غربت کے تناسب کو قائم رکھنے اور پھر اس پر مذہب مسلط کر کے مولوی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے میں مقتدر طبقے کا ہمیشہ سے ہی واضح کردار رہا ہے۔ سو مولویوں ملاؤں کو الزام دینا مناسب نہیں ہے جب ہمیں علم ہو کہ یہ سب سیاسی چالوں کا نتیجہ ہے، ملا کو اتھارٹی بنانے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کا رزلٹ جھیل رہے ہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ایسی چیزوں کو تین چار دھائیوں کے اندر اس قدر سہلولت کے ساتھ نارملائز کیا گیا ہے کہ محسوس تک نہ ہوا، اب یہ واقعات زیادہ اس لیے سامنے آ رہے ہیں کہ پوری نسل مکمل طور پر مولوی بن کر سامنے آئی ہے، یہ وہی کھیپ ہے جن میں سے اکثریت خود جنسی و جسمانی زیادتیوں کے عذاب جھیل کر اس سطح تک پہنچے ہیں۔ یہ انہی میں سے ہیں جنہوں نے کسی دور میں غربت کے باعث ماں باپ سے دوری کے بعد مدرسوں کی قید کاٹی ہے، مانگے کے کھلے ڈھیلے ڈھالے چولے پہن کر، لمبے پھٹے جوتے پیروں میں پھنسا کر در در جا کر روٹی روٹی کی صدا لگائی ہے۔

کچھ ذہن پر زور دے کر سوچیں تو ان میں سے اکثر وہی ماضی میں تلخیاں سہنے والے چہرے ہیں جو آج منبر پر براجمان ہیں۔۔۔ جمعہ کے خطبے دے رہے ہیں، نئی مساجد بنا رہے ہیں، اپنے اپنے حساب سے مذہب کا سہارا لے کر نت نئی دوکانیں کھول رہے ہیں کیونکہ اور کوئی فن یا ہنر نہیں ہے، تعلیم نہیں ہے اور نتیجتاً مذہنی منافرت کو فروغ مل رہا ہے۔

اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ یہ بے چارے محرومیوں کا پہاڑ ہیں، نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہیں، جنسی گھٹن کا شکار ہیں۔ ان کو جیلوں میں پھینکنے کی بجائے کسی ایسے ادارے میں بھیجنا چاہیے کہ جہاں پر ان کے اذہان کو سکون کی سطح پر لایا جائے۔ آپ جیل میں ڈالیں گے وہ سال دو سال بعد زیادہ نفرت اور گھٹن لے کر باہر نکلے گا۔ انہیں ذہنی طور پر rehabilitation کی ضرورت ہے، پاکستان میں ایسا ہونا مستقبل قریب میں ممکن تو نہیں مگر وقت کی ضرورت ہے کہ ایسے ادارے قائم کیے جائیں جہاں پر ان کو نفسیاتی طور پر بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ کم از کم جیلوں میں پھینکنا لعن طعن کرنا اس کا مؤثر حل نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہوسکتا ہے کہ کئی لوگوں کے لیے یہ بالکل غیر اہم ہو مگر میرے لیے تو بہت سنگین معاملہ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply