شہیدوں کی مائیں پاگل ہوگئیں ہیں۔۔۔۔۔اے وسیم خٹک

آرمی پبلک سکول پر حملے کو چار سال ہوگئے ہیں مگر نجانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ میرا بیٹا میرا لخت جگر اسفندیار اپنے پیارے انداز میں مجھے آواز دے گا اور میں دوڑی دوڑی چلی جاؤنگی اسے اپنی بانہوں میں بھر لوں گی ـ۔ جانتی ہوں یہ نہیں ہوسکتا مگر دل مانتا نہیں ـ لگتا ہے میرا اسفندیا زندہ ہے وہ ایک دن واپس آئے گا ـ میرے آنسو تھم جائیں گے ـ اُس کا کہنا تھا کہ اگر مجھے کوئی یقین دلائے کہ دس  برسوں تک روتی رہو ،میں روؤں گی کوئی ناغہ نہیں کرونگی مگر شرط یہ ہوگی کہ میرا اسفندیار میرے پاس واپس آجائے ۔ـ مگر وہ آئے گا نہیں ـ اسفندیار نے بہت اچھا مقام دیا ہے مگر ہم نے بہت بڑی قربانی دی ہے ـ اسکی آواز میں جیتے جی نہیں بھول سکتی وہ  آواز  میرے  کانوں میں بس گئی ہےـ آنسو بھی اب ساتھ چھوڑ گئے ہیں، ـ آنکھیں بھی اب جواب دے گئیں ہیں مگر کیا کروں ماں ہوں اور مائیں تو پاگل ہوتی ہیں ـ ۔۔۔۔۔۔

یہ الفاظ اس بدقسمت ماں کے ہیں جو آرمی پبلک سکول میں اپنا بیٹا اپنا لخت جگر کھو چکی ہے ـ وہ اب بھی اپنے بیٹے کی راہ تک رہی ہے کہ اسکا بیٹا  آئے گاـ جو کہ ستارہ بن کر آسمان میں ٹمٹما رہا ہے۔ ـ

آج چار سال گزرنے کے بعد بھی پشاور شہر کے چڑیا گھر کے نزدیک اسفندیار کے گھر میں اسفندیار کو یاد کیا جاتا ہےـ جس کے نام پر ایک سڑک کا نام رکھا گیا ہے مگر اسفندیار کے کمرے میں اب بھی اس  کا سب کچھ پڑا ہوا ہے ـ وہ اب بھی اپنے گھر میں زندہ ہے بلکہ ہراے پی ایس کا شہید اپنے گھر میں زندہ ہےـ کیونکہ مائیں بھلاتی ہی نہیں تو زندہ تو ہونگے ـ کئی مائیں تو اب بھی دروازے کی راہ تکتی ہیں جن میں ایک ماں اسفندیار کی بھی ہے ـ وہ موزے جو وہ پہنتا تھا وہ کتابیں جس میں اس نے پڑھائی کی وہ قلم جس سے اُُس نے لکھاـ جس چیز سے وہ کھیلا وہ سامان سب اس کا  انتظارکر رہے ہیں  ـ کہ کب اسفندیار آئے اور اس سامان کو قابل استعمال بنائے گا۔۔۔ـ

یہ ایک اسفند یار کے گھر کی  کہانی نہیں ہے یہ ہراُس گھر کی کہانی ہے جس نے اپنا بھائی، بیٹا کھویا ہے آج ہر جگہ یہی ایک بات ہے ـ کہ زخم بھرتے نہیں ہیں بلکہ وقت کے ساتھ تازہ ہوتے ہیں ـ اور مزید گہرے ہوتے جارہے ہیں کیونکہ معصوم بچوں کا قاتل اندر رہ کر بھی اندر نہیں ہے ـ ہر ماں کو اپنا لعل ان کا بیٹا نظر آتا ہے، بیٹھا ہوا، کھیلتا ہوا، ہنستا مسکراتا اور باتیں کرتا ہواـ مگر ان معصوموں کا خون شاید رائیگاں گیا ہے کہ اب بھی وہی کچھ ہورہا ہےـ کچھ بھی تو نہیں بدلاـ اُس سانحے کے بعد بھی دہشت گردوں کی کمر نہیں ٹوٹی ـآج بھی مائیں جب  آئینوں کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں تو وہ خود کو نہیں پہنچانتی ـ ۔۔مائیں نیم پاگل ہوگئیں ہیں ،ـ یہ مائیں ایسی تو نہیں تھیں ،ـ یہ مائیں ہنستی تھیں، بچوں کے ساتھ کھیلتی تھیں۔ اب وہ بدل گئیں ـ وہ زندہ ہیں مگر مردوں سے بدتر ہیں ـ مائیں زندہ لاشیں بن گئیں ہیں ـ وہ سوچتی ہیں کہ اگر اُن کے بیٹے زندہ ہوتے تو  آج چار سال بعد وہ جوان ہوچکے ہوتے ـ،آج بھی مائیں   بچوں کو اُس یونیفارم میں دیکھتی ہیں تو انہیں ان میں اپنا بیٹا نظر آتا ہے ـ ماؤں کو صبر کرنا تو  آگیا ہے مگر انکی انکھوں میں سوالات اٹھتے ہیں ـ ،مائیں بے خبر ہیں کہ اُس دن کیا ہوا تھاـ کیونکہ ایک سیکورٹی گارڈ کے علاوہ کوئی گارڈ نہیں تھاـ کیونکہ سکول کی چھت سے ماہر نشانہ باز ہٹائے گئے تھےـ کیوں یہ سانحہ رونما ہواـ ماؤں کو بہت دلاسے دئیے گئے ـ انہیں بتایا گیا کہ وہ سارے دہشت گرد مارے گئے ہیں ـ جن کو وہ پہلے بھی دیکھ چکے تھےـ یہ ماؤں کو باور کرایا گیا کہ یہ وہی دہشت گرد ہیں جنہوں نے انہیں تڑپایا ہے مگر ماؤں کو یقین کہاں آتا ہےـ وہ بے یقینی کی کیفیت میں ہیں ـ مائیں اُن فوجی افسران کو بے وقوف سمجھ رہی ہیں جو انہیں بے وقوف بنارہے ہیں، ـ مائیں انصاف مانگ رہی ہیں مگر انصاف نہیں مل رہا ـ دہشتگرد تو ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں مگر ہماری سیکورٹی فورسز بڑا پن نہیں دکھاتے کہ ذمہ داری قبول کریں کہ یہ ہماری غلطی تھی ہم ہی ان بچوں کے قاتل ہیں ـ ہماری نااہلی نے معصوم بچوں کو موت کی وادی میں پہنچایاـ ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مائیں تو مائیں ہیں وہ تو سوال کریں گی ـ ۔۔۔مائیں  جب سانحے کے بعد سکول گئیں دیواروں پر خون دیکھاـ گوشت کی بساند نے انہیں تڑپا کر رکھ دیاـ تب سے ساری مائیں نیم پاگل ہوگئیں ہیں ـ کچھ تو مکمل پاگل ہوگئی ہیں ـ جن کا علاج ہسپتالوں میں ہورہا ہےـ اس صورتحال کا تب اندازہ ہواجب ایک ماں سے ملاقات ہوئی جو شہید اسفندیار کی ماں ہے ـ اُس ماں سے ملاقات کے بعد پتہ چلا کہ یہ ایک ماں نہیں ساری مائیں ایسی ہیں ـ سب پاگل ہوگئیں ہیں ـ کیونکہ سب کے بیٹے جب گھر آئے تھے تو گولیوں سے چھلنی تھے ـ جو انجکشن کی سوئی سے ڈرتے تھے انہیں درجنوں گولیاں لگیں تھیں ـ جوپاؤں میں کانٹا چبھنے سے پریشان ہوتے تھے انہیں چہروں پر گولیاں ماری گئیں تھیں ـ تو مائیں پاگل نہیں ہونگی اور کیا ہونگی؟ حکومت نے صرف سڑکوں اور سکولوں کے نام شہید بچوں کے نام پر رکھ لئے اور بری الزمہ ہوگئے ـ بہت سی ماؤں کا موقف ہے کہ ہمیں سڑکوں اور سکولوں کے ناموں سے کوئی لینا دینا نہیں ہمیں انصاف دیا جائے ہمیں جیتے جاگتے بچے دئیے جائیں کیونکہ بے جان سڑکیں اور بے جان سکولوں کے نام اُن کےبچوں کے نعم البدل نہیں ہوسکتےـ انہیں ان کے بچے واپس دئیے جائیں ـ کیوں ہے ناں پاگلوں والے سوال ـ کہ شہید بچوں کو زندہ اپنے ساتھ دیکھنا چاہتی ہیں ـ کیونکہ ارمی پبلک سکول کے شہیدوں کی مائیں پاگل ہوگئیں ہیں ـ۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply