نیا انگریزی ناول ڈیوائن سول۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صفی سرحدی

بھارت کے شہر بنگلور سے تعلق رکھنے والی انگریزی کی شاعرہ عائشہ فاطمہ کا پہلا ناول Divine Souls کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ عائشہ فاطمہ اس سے پہلے انگریزی میں شاعری کرتی رہی ہے لیکن اس بار پبلشر نے انہیں شاعری کے بجائے ناول لکھ کر دینے کا کہا۔ جبکہ یہ ناول انہوں نے اٹھ سال قبل کالج کے زمانے میں لکھ رکھا تھا لیکن اسے مزید بہتر کرنے کیلئے انہوں نے دو مہینے محنت کی اور بہتری کے بعد ناول پبلشر کے حوالے کردیا جسے چنائی سے notion پبلشر نے شائع کردیا ہے۔

عائشہ کا اپنا پورا نام عائشہ فاطمہ ہے لیکن اپنے نام کے ساتھ قلمی نام “مسکان” کا استعمال کرتی ہے۔ عائشہ فاطمہ مسکان کا جنم 1987 کو بنگلور کے ایک تعلیم یافتہ اردو بولنے والے گھرانے میں ہوا۔ لیکن پچپن سے انہیں ماں نے انگریزی سکھائی اس لیے وہ انگریزی بولتی ہے اور انگریزی میں ہی لکھتی ہے انہوں نے ماسٹر انگلش لٹریچر میں کیا ہے۔
انہوں نے پہلی نظم بارش کے متعلق چھ سال کی عمر میں لکھی اور جب اٹھ سال کی ہوئی تو ڈائری لکھنا شروع کردی بیس سال کی ہوئی تو international poet رسالے میں ان کی نظمیں چھپنے لگی 26 سال کی ہوئی تو مشترکہ شاعروں کی کتاب میں ان کی دس نظموں کو جگہ ملی اس کے بعد سے وہ بیمار پڑ گئی اور انہوں نے لکھنا بند کردیا۔ لیکن ایک طویل عرصہ علاج کے بعد جب ان کی صحت بہتر ہوئی تو انہوں نے پھر سے لکھنا شروع کیا۔

ان کے ناول Divine Souls کی کہانی ایک ناکام شادی کے گرد گھومتی ہے ناول کا آغاز فیناس کی منگنی سے ہوتا ہے جو حسرت سے کہتی ہے کاش میرے والدین آج یہاں موجود ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ فیناس کا ایک بھائی ارحم ہوتا ہے دونوں جڑواں ہوتے ہیں جو والدین کے فرینڈلی فرینڈ انکل شروف کے ساتھ رہتے ہیں۔ انکل شروف کی بیوی دل کی اچھی ہوتی ہے پر ان کے مزاج میں چڑچرا پن ہوتا ہے۔ فیناس کا منگیتر اس کیلئے پریشان تو ہوتا ہے لیکن وہ گہرائی سے اس کا دکھ اس کی زبانی سننا نہیں چاھتا تھا تاکہ وہ مزید ڈیپریشن میں نہ چلی جائے اور اس سلسلے میں وہ انکل شروف سے رابطہ کرتا ہے انکل شروف اسے بتاتا ہے ابھی بچے چھوٹے ہی تھے جب دونوں نے اپنے بچوں کو چھوڑ دیا ماں نجانے کہاں چلی گئی پر باپ کے بارے میں سنا تھا کہ اس نے بعد میں پچھتاوے سے بچنے کیلئے کرفیو میں باہر نکل کر موت کو گلے لگا لیا تھا۔ ایک دن فیناس کا بھائی ارحم پارک جاتا ہے اور اسے ایک سایہ تعاقب کرتے ہوئے نظرآتا ہے وہ پلٹ کر دیکھتا ہے تو وہ اس کی ماں ہوتی ہے جو کہ اپنے بچوں پر نظر رکھتی ہے لیکن اس کے سامنے آنے کی ہمت نہیں کرتی تھی۔ جبکہ ان کا شوہر بھی زندہ ہوتا ہے اور وہ بھی دور سے اپنے بچوں پر نظر رکھتا ہے اس نے اپنی موت کی افواہ خود پھیلائی ہوتی ہے۔
ناول کے آخر میں عائشہ فاطمہ مسکان نے یہ یاد دلانے کی کوشش کی ہے کہ اگر انسان نے بعد میں پچھتاوے میں ہی رہنا ہے تو اسے کیا ضرورت ہے کہ وہ ہر رشتہ توڑ کر سب کی نگاہوں سے دور چلا جاتا ہے جب کہ اس نے ایک دن واپس ہی آنا ہوتا ہے۔ اور واپسی کے وقت سلوک کے بارے میں عائشہ کہتی ہے۔ For There is nothing more beautiful than forgiveness

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ناول Amazon سے انلائن ارڈر کرکے منگوایا جاسکتا ہے۔ لنک
https://www.amazon.in/Divine-Souls-All-Beyond…/…/ref=sr_1_1

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply