• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سیدنا محمد ص، زمانہ جدید کے پیغمبر/اسوہ رسول ﷺ امن عالم کی ضما نت ہے۔۔۔ممتاز علی بخاری/مکالمہ عظمتِ محمد ﷺ ایوارڈ

سیدنا محمد ص، زمانہ جدید کے پیغمبر/اسوہ رسول ﷺ امن عالم کی ضما نت ہے۔۔۔ممتاز علی بخاری/مکالمہ عظمتِ محمد ﷺ ایوارڈ

اسلا م امن و سلامتی کا دین ہے جو فسا د اور دہشت گر دی کو ختم کر نے آیا ہے اور دنیا میں بر پا فسا د کا واحد علا ج اسلام ہے۔ بد قسمتی سے فسا دیو ں اور دہشت گر دوں نے اسلا م کو اور نبی ﷺکی ذات مطہر ہ کو نشا نہ بنا یا ہے اور اس کے خلا ف پر و پیگنڈہ شر و ع کر رکھا ہے۔اسلا م عر بی زبان کا لفظ ہے جس کا ما دہ سلم ہے جس کے معنی اطا عت اور سپر دگی کے ہیں، اس کے معنی امن و سلا متی کے بھی ہیں۔
لہذ ا مسلما ن جہا ں اطا عت الٰہی کا نمو نہ ہو تا وہا ں امن و سلا متی کا پیکر بھی ہوتا ہے۔
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اللہ تعا لیٰ اور اس کے رسول ﷺدنیا میں امن و اما ن کا قیام چا ہتے ہیں جبکہ منکر ین اور کفا ر فسا د کے دا عی ہو تے ہیں۔ کفر اللہ اور اس کے رسول کے خلاف  بھی جنگ ہے اور روئے زمین کے امن کے خلا ف بھی۔ قر آن پا ک میں کئی جگہ فسا د کی مذمت کی گئی ہے اور اس میں مبتلا ہو نے سے روکا ہے کیو نکہ یہ انسا ن کے امن و سکو ن کے لئے مہلک ہو تا ہے۔ جس طرح قر آن پا ک امن و فسا د کے با رے میں وا ضح ہدا یا ت دیتا ہے اسی طر ح نبی ﷺکا طر ز عمل اور ارشا دا ت بھی امن اور فسا د کے با رے میں بہترین راہنما ئی مہیا کر تے ہیں۔
سر کا ر دو جہا ں کی ذات گر امی جملہ اوصا ف حمید ہ کا پیکر تھی۔ آپ ﷺ محض ایک نبی نہ تھے بلکہ بیک وقت امیر مملکت، سپہ سالار، قا ضی،ہا دی اور مصلح کے فر ائض سر انجا م دے رہے تھے۔ علا وہ ازیں آپ ﷺ صا حب اولا د بھی تھے۔ آپ ﷺ کی ازواج مطہرات بھی تھیں۔آپﷺ کے خدام بھی تھے، آپ ﷺنے تجا رت بھی کی۔ غر ض کہ نبی ﷺ کی زند گی کا کو ئی پہلو بھی لیں، آپ ﷺ اس میں اپنی مثال آپ تھے۔
حسن یو سف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آنچہ خو با ں ہمہ دارند تو تنہا داری
مکہ مکر مہ میں نبی ﷺ تیرہ بر س تک اپنے حسن بیا ن اور حسن عمل سے مشر کین مکہ کو اسلا م کی دعو ت دیتے رہے۔ اس دوران مشرکین کی طر ف سے تشدد آمیز کا روائیاں ہو ئیں۔ نبی ﷺ اور صحا بہ ؓنے تما م تر مخا لفتو ں اور ایذاء رسا نیو ں کا صبر و تحمل سے مقا بلہ کیا۔ مکہ مکر مہ میں دین حق کے لئے کا وشیں اور مشرکین کے تشدد رویو ں پر استقامت کو قر آ ن نے جہا د سے تعبیر کیا ہے اور یہ ایک پر امن جد و جہد تھی۔ اس سلسلے میں ارشا د با ری تعالیٰ ہے: جن لو گو ں نے ہما ری راہ میں جد و جہد کی ہم ان کو ضر ور اپنے راستے دکھا ئیں گے اور اللہ تعالی ٰ تونیکو کا روں کے ساتھ ہے۔(العنکبو ت)
اکثر مفسرین کے نزدیک یہ سو رۃمکی ہے اور یہا ں ”جا ھد وا“کے معانی انتہا ئی درجے کی محنت و کو شش اور استقا مت کے ہیں۔ یہا ں جہا د کا لفظ مید ان جنگ میں لڑا ئی کے لیے استعمال نہیں ہو ا۔
مکی دور پر امن جد و جہد کا دور ہے۔ تکا لیف،اذیتیں،تحقیر و تذلیل حتیٰ کہ بعض سا تھیو ں کی شہا دت بھی اس پر امن جد و جہد کو تصا دم کی راہ پر نہ لا سکی۔ یہاں تک کہ نبی ﷺ مکہ سے مد ینہ ہجر ت فر ما گئے۔ ہجر ت کے بعد بھی کفا ر مکہ نے تشدد آمیز رویو ں کو تر ک نہ کیا اور مسلما نو ں پر مسلسل دبا ؤ جا ری رکھا۔ اس تشدد کے جو اب میں اللہ تعالیٰ نے مسلما نو ں کو منا سب جو اب دینے اور مید ان جنگ میں مقا بلے کی اجا زت فر ما دی لیکن اس میں بھی اعتدا ل و تو ازن بر قر ار رکھنے پر زور دیا گیا۔ اس مسلح تصا دم کی صو رت میں بھی امن و آشتی اور صلح کی کو ششو ں کو پیش نظر رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلما نو ں کو حکم دیا کہ اگر دشمن صلح کی راہ اختیا ر کر ے تو تمہیں بھی اس سے گر یز نہیں کر نی چا ہیے۔
حضو ر ﷺکی جنگی سر گر میو ں کا جا ئز ہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جنگیں کفا ر کے جا ر حا نہ رو یو ں کا جو اب تھا۔ مشر کین مکہ کی جا رحیت تو واضح ہے۔ یہو دیو ں اور عیسا ئیوں کے خلا ف بھی نبی ﷺکے اقدا ما ت ان کی جا ر حا نہ کا ر و ائیو ں اور سا زشو ں کی وجہ سے تھے۔ مسلما نو ں نے کبھی جنگ میں پہل نہیں کی۔
بنی غطفا ن سے جنگ مو من عو رت کی بے حر متی کی وجہ سے، بنی قر یظہ سے عہد شکنی کے با عث اور غزو ہ بنی نصیر کا با عث نبیﷺ کے قتل کی سا زش تھی۔ حضو ر ﷺنے حا رث بن عمیرؓ کو دعو ت اسلا م کا خط دے کر والیئ شام شر جیل بن عمر و کے پا س بھیجا۔ شر جیل نے اخلا قی قد روں کو بالا ئے طا ق رکھتے ہو ئے حا ر ثؓ کو شہید کر دیا۔ ان کی مظلومانہ شہا دت نے نبی ﷺ کو جنگ پر مجبو ر کر دیا اور آپﷺ نے فو ج مو تہ کی طر ف بھیجی۔ اس واقعہ کو ابھی ایک سا ل بھی نہ گز را تھا کہ شا م میں دشمن کی فو جیں جمع ہو کر مد ینے پر حملے کی تیا ریا ں کر نے لگیں تو نبی ﷺدفا ع کے لیے نکلے۔
حضو رﷺکی سیر ت طیبہ قیا م امن کی ضا من ہے۔ آپﷺنے فتنہ و فسا د کو ختم کر کے امن کا جو نظام متعا رف کر ایا تھا اس کے بارے میں فرما یا:
اللہ تعالیٰ تمھا ری ایسی مدد کرنے والا اور عطا ء کر نے والا ہے کہ ایک ہو دج نشین عو رت مد ینہ اور حیر ہ کے درمیا ن یا اس سے بھی دور سے تنہاطو یل سفر کر ے گی اور اسے چو روں اور ڈا کو ؤ ں کا کو ئی خطرہ نہ ہو گا۔(تر مذی: ابو اب التفسیر،مسند احمد)
مسلمان اور مو من کی تعر یف کر تے ہو ئے فر ما یا کہ مسلما ن وہ ہے جس کی زبا ن اور ہا تھ سے مسلما ن محفو ظ رہیں اور مو من وہ ہے جس سے لو گ اپنی جا نو ں اور ما لو ں کو ما مو ن جا نیں۔ جب دشمن مسلما نو ن کے علا قو ں پر حملہ آور ہو تو مسلما نو ں پر جہا د فر ض ہو جا تا ہے اس کی وا ضح مثال غز ؤ ہ خند ق ہے۔ مشر کین مکہ نے مد ینہ کی شہر ی ریا ست پر حملہ کر دیا تھا تو حضو ر ﷺنے دفا عی حکمت عملی کے تحت خند ق کھد وائی اور ہر شخص نے اس میں حصہ لیا۔
قتا ل کے سلسلے میں نبی اکر م ﷺ کی جو ہد ایا ت ہیں وہ انسا نی تا ریخ میں منفر د اہمیت کی حامل ہیں۔ جہا د کے خلا ف مغر ب کی چلا ئی گئی مہم سر ا سر بد یا نتی اور تعصب پر مبنی ہے۔ نبی ﷺ نے اسیر وں کو قتل کر نے سے منع فر ما یا۔ کو ئی بھی قو م جب فا تح بنتی ہے تو وہ مفتو ح کی عزت، جا ن اور مال کو لو ٹتی ہے اور ان کی زند گی اجیر ن بنا دیتی ہے۔ فتح مکہ کے مو قع پر جب آپ ﷺمکہ میں داخل ہو نے لگے تو فر ما یا: کسی مجر و ح پر حملہ نہ کیا جا ئے۔ کسی بھا گنے والے کا پیچھا نہ کیا جا ئے۔ کسی قید ی کو قتل نہ کیا جا ئے اور جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے وہ اما ن میں ہے۔
بد عہد ی ایک ایسی بر ائی ہے جو مخا لف گر وہو ں میں اکثر پا ئی جا تی ہے۔ اسلام نے اسے بد تر ین گنا ہ قر ار دیا ہے۔ جنگ کی حا لت میں بھی بد عہد ی سے منع فر ما یا ہے۔
دورحا ضر کی فو جو ں کا نظم و ضبط نہا یت شا ندا ر ہے خصو صاً مغر ب نے نظم و ضبط میں کا فی پیش رفت کی ہے لیکن جنگ کے دنو ں میں دشمن کے عا م لو گو ں کو تنگ کر نے کے سلسلے میں کو ئی اصو ل و ضو ابط نہیں رکھتے۔ حضو ر ﷺنے چو دہ سو بر س پہلے نظم و ضبط اور عام انسا نو ں بشمول عو رتو ں، بچوں، بو ڑھو ں، بیما روں، گو شہ نشین زاہدوں، مند روں کے مجا وروں اور پجا ری وغیر ہ کے قتل سے منع فر ما یا۔آپ ﷺ نے آگ میں جلا نے، با ند ھ کر ما ر نے سے، تبا ہ کا ری سے، لا ش کو بگا ڑ نے سے، سفیر کو قتل سے، بد عہد ی اوروحشیا نہ اعما ل کے ارتکا ب سے منع فر ما یا ہے۔ آپ ﷺنے مجا ہد ین کو خبر دار کر تے ہو ئے فر ما یا: جو کوئی منز ل کو تنگ کر ے گا یا راہ گیر و ں کو لو ٹے گا اس کا جہا د نہیں ہو گا۔
جب کبھی آپﷺکو شر و فسا د کی خبر ملی تو آپ ﷺ نے اس کی اصلا ح فر ما ئی۔ عبد اللہ بن ابی رئیس المنا فقین ایک با ر نبی اکر مﷺ کے ساتھ نہا یت گستا خا نہ اند از میں پیش آیا یہا ں تک کہ صحا بہؓ سے ضبط نہ ہو سکا تو وہ لڑنے کے لئے تیا ر ہو گئے۔ ادھر اِبن اُبی کے سا تھی بھی اس کی حما یت میں کھڑے ہو گئے۔ فر یقین با ہم دست و گر یبا ں ہو گئے۔ ایسے عالم میں نبی ﷺ نے مسلما نو ں کو سمجھا بجھا کر الگ کیا اور فر ما یا :صلح فسا د سے بہتر ہے۔
یہ ایک تا ریخی حقیقت ہے کہ انبیا ء کی جد و جہد کے سلسلے میں قر آن پا ک نے جو تا ریخ دعو ت بیا ن کی ہے اس سے وا ضح ہو تا ہے کہ کفر کی قیا د تیں ہمیشہ متشدد رہی ہیں۔ کا فر انہ و مشر کا نہ معا شرے کا عام آدمی اسلام کے پیغا م کو سمجھنا چا ہتا ہے لیکن متشدد قو تیں اپنے سیا سی و قا نو نی دبا ؤ سے انہیں آزادی سے سو چنے اور سمجھنے کا مو قع نہیں دیتی۔
اس وقت مسلما ن پو ری دنیا میں مظلو م ہیں۔ مختلف اقوام مسلما نو ں پر ٹو ٹ پڑی ہیں، ان کی ریا ستو ں کو تبا ہ کیا جا رہا ہے، ان کے وسا ئل کو لو ٹا جا رہا ہے، ان کے بچو ں، بو ڑھو ں اور عو رتو ں کو ما را جا رہا ہے۔ اور اس کے سا تھ سا تھ عالمی سطح پر ان کے خلا ف دہشت گر دی اور تشد د کا الزام لگا یا جا رہا ہے کہ وہ دفاع نہ کر سکیں اور کا فر وں کے مظا لم کا شکا ر ہیں۔ اس وقت اہل کتا ب کا اٹھا یا ہو ا شر ہے جس کی زد میں امت مسلمہ ہے۔ اہل کتا ب کے اربا ب سیا ست نے چو نکہ اپنے مذہب کو چھو ڑ کر بے دینی اختیا ر کر لی ہے اس لیے وہ اس لیے وہ اسلام کو بھی بے وقت کر نا چا ہتے ہیں مسلما ن اپنے مز اج کے اعتبا ر سے اس قا بل ہی نہیں کہ وہ سا زشیں، بد عہد یا ں وغیر ہ جیسی سر گر میاں کر سکیں۔اسلا م اور کفر کے در میان بنیا دی فر ق اعتد ال اور انتہا پسند ی کا ہے۔
اسلام نے اختلا ف کے بھی اصول اور رویے طے کر دئیے ہیں۔ اللہ تعا لیٰ نے کفا ر کے بتو ں کو بھی گا لیا ں دینے سے منع فر ما یا ہے۔ مشر کین وقت نبیA کی تعلیما ت کے اثر کو زا ئل کر نے کے لئے مختلف قسم کے ہتھکنڈوں میں لگے ہو ئے ہیں۔ ان میں نبی اکر م ﷺکو متنا ز عہ ثا بت کر نے کی کو شش بھی شامل ہے تا کہ مسلما نو ں کے دلو ں سے عظمت رسو ل ﷺ کم کی جا سکے۔ اس کے لیے وہ وقتا ًفوقتاً نبی ﷺکی شان میں ہذ یا ن بکتے ہیں۔ اسلام دشمن عنا صر اس امر سے بخو بی واقف ہیں کہ وہ مید ان کا رزار میں مسلما نو ں کا مقا بلہ کر نے سے قا صر ہیں اس لیے وہ مسلما نو ں کو جہا د سے بر گشتہ کر نے کے لیے مختلف کو ششیں کر تے رہتے ہیں۔ مغر ب میں اہا نت انبیا ء کے حو الے سے جو بے حسی پا ئی جا تی ہے اس سے پو را زما نہ وا قف ہے۔ اہل یو رپ مسلما نو ں میں یہی بے حسی پید ا کر نا چا ہتے ہیں۔ ان کا اصل مقصد یہ ہے
وہ فا قہ کش کہ مو ت سے ڈرتے نہیں ذرا
رو ح محمد ﷺ ان کے بد ن سے نکا ل دو
دور حا ضر کے مسلما ن ان کے اصل مقا صد سے انجا ن ان کے ہا تھ میں مہرے بنے ہو ئے ہیں۔ مسلما ن حکمر انو ں اور قو م کی اسلام سے دوری کے نیچے میں قو م رو بہ زوال ہو گئی۔ پو ری قو م مغر ب کی پیر وی میں فحا شی و عر یا نی کی دلد ادہ ہو گئی۔شر افت کی پگڑ یو ں کو اچھا لا جا نے لگا۔
اہل اسلام کی بے حسی کو دیکھ کر دل خو ن کے آنسو روتا ہے کہ آج امت مسلمہ پر ایک نہیں بلکہ کئی زخم لگ چکے ہیں۔ حر مت مسلم اتنی ارزاں ہے کہ پا ؤ ں تلے مسلی جا رہی ہے۔ تأسف ان مسلم حکمر انو ں پر جو کفا ر و مشرکین کی چیرہ دستیو ں سے بچنے کے بجا ئے ان کے آلہ کا ر بنے ہو تے ہیں اور ان کی غلا می و چا پلو سی کر رہے ہیں اس سب کی واحد وجہ
وہ زما نے میں معزز تھے مسلما ں ہو کر
اور ہم خو ار ہو ئے تا رک قر آں ہو کر
دہشت گردی کا موضوع اس وقت عالمی امن و سکون اور فساد کے لئے خاص اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ دہشت گردی کو روکنے والے اور فروغ دینے والے دونوں عوامل کو دنیا کے امن وسکون سے کوئی دلچسپی نہیں۔ہرکوئی اپنی اپنی چالیں چل رہا ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ دہشت گردی کے حوالے سے لگائے گئے الزام میں کتنی حقانیت ہے اور کتناافسانہ۔ ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ ہم سے دانستگی یا نا دانستگی میں ظہور پذیر ہونے والے ایسے کونسے افعال ہیں جو ہم مسلمانوں پر ایسے گھٹیا الزامات کی وجہ بنتے ہیں۔ جو شخص یا گروہ کسی بھی حوالے سے دہشت گردی میں ملوث ہوتا ہے وہ حقیقی اسلامی تعلیمات سے اس کی لاعلمی کا نتیجہ ہے۔
اسلامی تعلیمات،معاشرتی اور اخلاقی قدریں اور انسانی جذبات ہمیشہ ایسی مذموم کاروائیوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ہم سب کو مل کر ایسے افراد اور تنظیموں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جو اسلامی تعلیمات سے روگردانی کرکے اسلام کے نام پر دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں اور امت مسلمہ کے اجتماعی انحطاط کا سبب بنتے ہیں۔ہم اپنے مسا ئل کے حل کے لیے تعلیما ت اسلام اور اسو ۂ محمد ی کو چھو ڑ کر مغر ب کی تعلیم کو قر ار دیتے ہیں اور ہر کا م مغر ب کو نمو نہ بنا کر کر تے ہیں حا لا نکہ اللہ تعا لیٰ نے چو دہ سو بر س پہلے ہی ہما رے لیے یہ اصول مقر ر کر دیا۔
لقد کا ن لکم فی رسول اللہ اسو ۃ حسنۃ ں
تر جمہ: بے شک تمھا رے لیے رسولﷺ کی زند گی بہترین نمو نہ ہے۔
نبی آخر الزمان ﷺ کا پیغام قیامت تک کے لوگوں کے لیے ہے۔ اس پیغام اور رہنمائی سے الوہی رہنمائی اپنے عروج پر پہنچ گئی اور یوں یہی پیغام ابدی اور دائمی ضابطہ حیات قرار پایا۔ محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور قرآن پاک اللہ کی آخری کتاب ہے۔ یہ کتاب سائنس کے اصول بھی وضع کر رہی ہے۔سماجیات،اقتصادیات، اخلاقیات روحانیات اور تزکیہ نفس کی تعلیمات کا مجموعہ ہے۔ الغرض انسان کی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
جس طرح قرآن پاک کی تعلیمات دائمی ہیں اسی طرح سیرت نبی اور احادیث کا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ بات پتہ چلتی ہے کہ نبی ﷺ کی حیات طیبہ بھی قیامت تک کے لیے سارے انسانوں کے لیے رہنمائی کا معیار ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:بے شک تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔
اگر ہم سیر ت طیبہ کو اپنا راہبر ما ن کر اس کی روشنی میں اپنی زند گی گز ارنے کی کو شش کر یں تو ہم دین و دنیا میں اس طر ح کا میا ب ہو ں گے جس طر ح صحا بہ کر امؓ نے اپنی دنیا و عاقبت سنواری۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے
فضا ئے بد ر پید ا کر فر شتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گر دوں سے قطا ر اند ر قطا ر اب بھی

Facebook Comments

ممتاز علی بخاری
موصوف جامعہ کشمیر سے ارضیات میں ایم فل کر چکے ہیں۔ ادب سے خاصا شغف رکھتے ہیں۔ عرصہ دس سال سےطنز و مزاح، افسانہ نگاری اور کالم نگاری کرتےہیں۔ طنز و مزاح پر مشتمل کتاب خیالی پلاؤ جلد ہی شائع ہونے جا رہی ہے۔ گستاخانہ خاکوں کی سازش کو بے نقاب کرتی ایک تحقیقاتی کتاب" عصمت رسول پر حملے" شائع ہو چکی ہے۔ بچوں کے ادب سے بھی وابستہ رہے ہیں ۔ مختلف اوقات میں بچوں کے دو مجلے سحر اور چراغ بھی ان کے زیر ادارت شائع ہوئےہیں۔ ایک آن لائن میگزین رنگ برنگ کےبھی چیف ایڈیٹر رہے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply