رمضان، باعثِ رحمت یا زحمت۔۔ڈاکٹر محمد شافع صابر

آج میں فروٹ لینے بازار گیا، تو   قیمت سن کر حیران رہ گیا، کیونکہ رمضان سے قبل یہ فروٹ سستا تھا، اب ہر  پھل  کی قیمت میں بیس سے تیس روپے اضافہ کر دیا گیا تھا۔ رمضان میں جو چیز سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہے،وہ کھجور ہے، اسکے فی پیکٹ میں 30 سے 40 روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ تمام ڈیپارٹمنٹل سٹورز مشروبات کی قیمت میں اضافہ کر چکے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء تو مہنگی ہوئی ہی  ہیں ، باقی کاروباری طبقے نے بھی ہر چیز میں اضافہ کر دیا ہے۔

مثال کے طور پر،لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹیلرز کی دکانیں بھی بند تھیں، اب کھلی ہیں تو انہوں نے سلائیوں میں اضافہ کر دیا ہے، عید کے بہانے پہلے تو حامی ہی نہیں بھرتے، پھر ارجنٹ سوٹ کا کہہ کر منہ مانگے دام وصول کر رہے ہیں۔ اسی طرح جس کا جہاں داؤ لگ رہا، وہ لگا رہا ہے۔

یہ اس سال ہی کی بات نہیں، ہر سال جیسے ہی رمضان آتا ہے، وطن عزیر میں مہنگائی کا طوفان آ جاتا ہے، ہر چیز کو مہنگا بیچا جاتا ہے۔ لوگ پہلے چیزیں خرید کر رکھ لیتے ہیں کہ رمضان میں مہنگے داموں بیچیں گے۔

اس سال، کرونا کی آزمائش کے پیش نظر امید تھی کہ ایسی حرکتیں نہیں کی جائیں گی، لیکن بدقسمتی سے یہ امید، امید ہی رہی۔اس سال بھی پچھلے سالوں کی طرح رمضان کو ناجائز منافع کا  ذریعہ بنایا گیا۔ پوری  دنیا میں، جب بھی رمضان آتا ہے، تو  سٹورز پر سیل لگ جاتی ہے کہ یہ مسلمانوں کا بابرکت مہینہ ہے، چیزیں سستی کر دی جاتی ہیں کہ مسلمانوں کو کوئی دشواری پیش نہ  آئے، بلکہ اسی طرح عیدین، کرسمس اور دیگر تہواروں کی موقعوں پر کلیئرنس سیل لگا دی جاتی ہے کہ تمام لوگ ان خوشیوں میں برابر کے شریک ہو سکیں۔

لیکن وطن عزیز میں گنگا الٹی بہتی ہے، یہاں تہواروں کے نام پر سیل تو دور کی بات، ہر چیز کو دوگنی قیمت میں بیچنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ میں خوش ہوں کہ کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے گارمنٹس اور کپڑوں کے کاروبار سے وابستہ لوگ، اس سال رمضان اور عید پر ناجائز منافع نہیں کما پائیں گے۔

اس ناجائز منافع خوری، گراں فروشی، اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کر کے،ہم سوچتے ہیں کہ ہمیں کرونا جیسی وبا کی آزمائش کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے۔ ان سب کے باوجود ہم یہ کہتے اور مانتے ہیں کہ کرونا ہمارے اعمال کا نہیں، بلکہ عریانی، خواتین کے تنگ لباس کی وجہ سے ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ ہم ان گناہوں کو گناہ سمجھتے نہیں، بلکہ اسے اپنا حق سمجھتے ہیں۔ایسے تاجروں کے بقول، سال بعد تو رمضان آتا ہے، اب بندہ اس میں بھی نہ  کمائے تو کمائے کب؟ اس بھونڈی دلیل کے ساتھ وہ اپنے اس عمل کو جائز گردانتے ہیں۔

ضلعی اور شہری حکومتیں، نام نہاد پرائس کمیٹیاں تشکیل دیکر سمجھتی ہیں کہ ان کا کام ختم ہو گیا ہے، کی،کمیٹیوں والے آتے ہیں، کچھ دکانداروں کو جرمانہ کر کے چلتے  بنتے ہیں اور بعد میں دکاندار منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں، اس سال بھی ہر جگہ یہی ہو رہا ہے۔

ابھی کل ہی سوشل میڈیا میں ایک پوسٹ نظر کے سامنے سے گزری، جس میں ایک مسیحی باپ اپنی کمسن بیٹی سے کہہ رہا ہے کہ، بیٹی دعا کرو کہ مسلمانوں کا برکتوں والا مہینہ جلدی گزر جائے تاکہ قیمتیں دوبارہ کم ہو جائیں۔ ہم اپنی ان حرکتوں سے اسلام کی کونسی تصویر پیش کر رہے ہیں؟؟

رمضان برکتوں والا مہینہ ہے، لیکن ہم نے اپنی حرکتوں کی وجہ سے اسے باعث زحمت بنا دیا ہے۔ ہم نے رمضان کا تشخص خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جو چیز سب سے زیادہ افسوسناک ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی ان اجتماعی غلطیوں کو غلطی سمجھتے ہی نہیں، الٹا اسکو ڈیفیڈ کرتے ہیں۔

اب اس سارے معاملے کا حل کیا ہے؟؟ میرے نزدیک تو اس معاملے کا دور دور تک کوئی حل نظر نہیں آ رہا، ضلعی حکومتیں جرمانہ کرتی ہیں، لوگ جرمانہ بھر کر، وہی کام دوبارہ شروع کر دیتے ہیں۔ہاں اگر کبھی وقت ملے، تنہائی میں بیٹھ کر غور کریں، اپنے اعمال کا جائزہ لیں، اپنی غلطیوں کو پرکھنے کی کوشش کریں، تو ہمیں ان آزمائشوں، ذہنی بے سکونی کی شاید وجہ مل جائے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حرام وقتی طور پر زیادہ لگتا ہے، اسکی چمک آنکھوں کو چنداں کر دیتی ہے،لیکن اس میں برکت نہیں ہوتی، شاید اسی لیے ہم جتنا بھی کما لیں، ہمیں کم ہی لگتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہماری آزمائشوں، بے سکونی اور بے برکتی کی وجہ یہی اعمال ہیں۔ ان اعمال کو ٹھیک صرف WILL POWER سے کیا جا سکتا ہے۔ ہر انسان کے شعور میں نیکی اور برائی کا کانسپٹ موجود ہے، اب یہ انسان پر ہے کہ اس نے کس راستے پر چلنا ہے۔ وہ اپنے اعمال سے اس برکت والے رمضان کو باعث رحمت بناتا ہے یا باعث زحمت، یہ اس پر منحصر ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply