• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عالمی یوم سیاحت اور پاکستان میں سیاحت کو درپیش مسائل(2،آخری حصّہ) ۔۔ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری

عالمی یوم سیاحت اور پاکستان میں سیاحت کو درپیش مسائل(2،آخری حصّہ) ۔۔ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری

بات کریں اگر پنجاب کے سب سے بڑے شہر اور سیاحت کے دل لاہور کی تو یہاں پر بھی کچھ اچھے اقدامات دیکھنے کو ملے ہیں جیسے والڈ سٹی لاہور کی طرف سے گلی سورجن سنگھ کی تزئین و آرائش اور اندرون شہر میں مختلف معلوماتی بورڈز آویزاں کرنا، محکمہ آثارِ قدیمہ کی جانب سے مقبرہ علی مردان کی بحالی کی تجویز، دائی انگہ کے مقبر کی تزئین وآرائش، نادرہ بیگم کے مقبرے کی مرمت و بحالی، لاہور قلعے کے اندر بہت سے تاریخی مقامات کی تزئین و آرائش اور مختلف باغوں کی آرائش وغیرہ ۔
لیکن ، لاہور کو اس سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے جو میں اگلی سطور میں بیان کروں گا ۔

یہ تو تھے چند حکومتی اقدامات لیکن اگر نجی سطح پر سیاحت کے حوالے سے خدمات کی بات کی جائے تو بہت سی تنظیمیں اور افراد اپنے طور پر اس انڈسٹری کے لیئے بہترین کام سر انجام دے رہے ہیں۔ کوئی ہوٹل انڈسٹری پر کام کر رہا ہے تو کوئی اپنی ٹریولنگ ایجنسی اور سرمایہ کاری سے سیاحت کو فروغ دے رہا ہے۔ اس ضمن میں بائیکر کلب بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔
”کراس روٹ انٹرنیشنل کلب” ہمیشہ کی طرح اس سال بھی عالمی یومِ سیاحت بھرپور طریقے سے منانے جا رہا ہے۔ گزشتہ سالوں کے ایونٹ پشاور(خیبر پختونخواہ)، خنجراب (گلگت بلتستان)، زیارت (بلوچستان)، کراچی (سندھ) اور بنجوسہ (آزاد کشمیر) میں منعقد کیئے گئے تھے جبکہ اس سال یہ دن پنجاب میں لاہور، ملتان اور کوہ سلیمان کے مختلف مقامات پر بیک وقت منایا جائے گا۔ اس حوالے سے بائیکرز اور سیاحوں کی اس تنظیم نے اپنا لوگو بھی جاری کر دیا ہے جسے چھاتی پر چسپاں کیئے بہت سے نوجوان بائیکرز بھی اس سال ایونٹ کا حصہ بنیں گے۔
اس حوالے سے چیئرمین مکرم ترین خان کا کہنا ہے کہ ؛
”ہمارا مقصد صرف اور صرف پاکستان میں سیاحت کی ترقی اور حوصلہ افزائی ہے جس کے لیئے ہم ہر سال مختلف صوبوں میں یہ دن مناتے ہیں اور تقریبات کا انعقاد کر کے اس شعبے سے جڑے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ”
دوسری جانب سرائیکی وسیب میں سیاحت کے لیئے کام کرنے والی تنظیم ”وسیب ایکسپلورر” کی سرگرمیوں کا گراف بھی بلند سے بلند تر ہوتا رہا۔ اس تنظیم نے کوہِ سلیمان کے متواتر دوروں سے اس پہاڑی سلسے میں موجود خوبصورت آبشاروں، پہاڑی چوٹیوں اور نخلستانوں کو نمایاں کیا ہے جن میں گربن، نوروز، یکبائی، فورٹ منرو اور مبارکی جیسے علاقے شامل ہیں۔ علاوہ ازیں وسیب ایکسپلورر کے احباب نے ملتان سے گوادر کا سفر کر کے ہنگول نیشنل پارک اور مکران کوسٹل ہائی وے، سفر پربت کے ذریعے شمال کے علاقوں اور ڈیرہ جات کو لگنے والے بلوچستان کے علاقوں جیسے رکھنی اور بارکھان کے مختلف خوبصورت مقامات اور آثارِ قدیمہ کا دورہ کر کے انہیں اپنی تحریروں اور تصویروں کے ذریعے عوام کے سامنے لا رکھا ہے۔
”مسافران شوق” بھی منچلوں کی ایسی ہی ایک تنظیم ہے جو گوجرانوالہ کی گود سے جنمی ہے ۔ اس میں شامل احباب نے دور دراز علاقوں کے سفر کر کے تاریخی ورثے کو کھوجا اور سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر کے ذریعے خوب داد پائی۔
اس کے علاوہ اور بہت سی تنظیمیں اور افراد ہیں جو سیاحت کے آسمان پر چمک رہے ہیں۔ میں اپنے ارد گرد کے ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو خود تو بائیکر یا سیاح ہیں ہی لیکن دوسروں کو بھی سیاحت کی ترغیب دیتے ہیں اور ہر طرح سے انہیں آسانیاں فراہم کرتے ہیں جن میں قدیر گیلانی (آزاد کشمیر) ،ذیشان رشید (گوجرانوالہ)، ڈاکٹر مزمل حسین (ملتان)، وحید پاشا (فیصل آباد)، اصل دین (کمراٹ)، جمن جمالی (گورکھ ہلز)، احسان اعوان (سون سکیسر)، ہمایوں ظفر (ڈیرہ غازی خان) اور یوسف مشتاق (لاہور) شامل ہیں۔
یہاں سماہنی کے سلطان اشفاق مغل کا ذکر نہ کرنا بددیانتی ہو گی۔ جناب اشفاق مغل صاحب آزاد کشمیر کی خوبصورت وادئ ، سماہنی سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے گھر کے بھرپور دیسی و خالص ماحول میں سینکڑوں سیاحوں کی مہمان نوازی کر چکے ہیں۔ یقیناً اس وادی میں سیاحوں کی آمد میں اضافہ ان کی کوششوں سے ممکن ہوا ہے۔
یہ وہ احباب ہیں جن کو میں جانتا ہوں، ایسے اور بہت سے انمول ہیرے ہیں جو اپنی اپنی جگہ پر سیاحت کے لیئے بہترین کام کر رہے ہیں ، میں انہیں بھی خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔
میں سمجھتا ہوں کہ سیاحت کی صنعت ایک بہت بڑی صنعت ہے جس میں جتنا کیا جائے کم ہے۔ ابھی تاریخ و آثارِ قدیمہ کو محفوظ کرنے کے لیئے بہت سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جیسے لاہور میں بند پڑے بہت سے مقبرے حکومتی توجہ کے متقاضی ہیں جن میں مقبرہ شہزادہ پرویز، جانی خان کا مقبرہ اور نصرت خان کا مقبرہ شامل ہیں۔ اسی طرح بہت سی عوامی جگہیں بغیر کسی علامتی بورڈ اور نشان کے گمنام پڑی ہیں۔ شہر کی صفائی کے حالات بھی ناگفتہ بہ ہیں جن کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہیئے۔ جگہ جگہ پڑے کچرے کے ڈھیر لاہور شہر کا حسن گہنا رہے ہیں۔

بہت سی پرانی اور تاریخی جگہوں پر نئی تعمیرات سے ان کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ لاہور شہر کے بہت سے قدیم مندر (جیسے بنسی دھر مندر، بھدرکالی مندر، لال مندر) ایسے ہیں جو اب بھی بہتر حالت میں موجود ہیں لیکن وہاں اب بہت سے خاندان رہائش پذیر ہیں۔ حکومت ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے ان خاندانوں کو کوئی دوسری اور بہتر جگہ الاٹ کر کے ان مندروں کو اب بھی بحال کر سکتی ہے۔ لاہور کا جین مندر جو کب سے گری ہوئی حالت میں پڑا ہے اس کی بحالی بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف مذہبی سیاحت میں اضافہ ہو گا بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر کو بھی خاطر خواہ فائدہ ہو گا۔

وسیب کی بہت سی عمارتیں اور قلعے کھنڈر بنتے جا رہے ہیں لیکن ارباب اختیار چین کی نیند سو رہے ہیں۔ کوٹ مٹھن کے مقام پر کھڑا نواب آف بہاولپور کا بحری جہاز ”انڈس کوئین” زنگ آلود ہو کر مٹنے کے قریب ہے، چولستان میں پھیلے کئی قلعے تباہ و برباد ہوتے جا رہے ہیں، ملتان جیسے قدیم شہر میں ایک بھی میوزیم نہیں ہے، خانپور میں مائی کا مقبرہ ابتر حالت میں ہے، ضلع بہاولنگر میں ریلوے کی بہت سی تاریخی و قیمتی عمارتوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ یہ اور ایسے کئی معاملات ابھی حل طلب ہیں لیکن پنجاب حکومت اس طرف توجہ دینے کو ہی تیار نہیں ہے۔

سندھ اور بلوچستان کا حال تو اور ہی برا ہے۔ ان حکومتوں نے دو چار مقامات کو بحال کر کے یہ سمجھ لیا ہے کہ بس ! اب سیاحت پر اور کام نہیں کرنا۔
بلوچستان حکومت سے تو یہ تک نہ ہو سکا کہ اپنے سیاحتی و تاریخی مقامات کو سوشل میڈٰیا پر ڈھنگ سے پروموٹ ہی کر دے۔ یہ کام بھی بلوچ نوجوان اور سیاحت کے شوقین افراد ہی کر رہے ہیں۔ مانا کہ مکران کی ساحلی پٹی پر کچھ سکیورٹی مسائل ہیں جن کی وجہ سے سیاح وہاں جانے سے کتراتے ہیں، لیکن کوئٹہ ، بولان اور زیارت جیسی جگہوں پر تو سہولیات مہیا کی جا سکتی ہیں۔ مولا چھٹوک اور بولان کے کچھ اور مقامات پر سیاحوں نے متواتر جانا شروع کر دیا ہے حکومت کو چاہیے کہ ان جگہوں پر سیاحوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرے۔

سندھ میں سیاحتی حوالے سے یہ دو سال بہت مایوس کن رہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت سندھ نے کرونا کے دوران اپنے تمام سیاحتی مقامات کو کوئی لفٹ نہیں کروائی۔

سیاحت کے حوالے سے سردیوں کو ہی سندھ میں اہم سیزن مانا جاتا ہے اور سردیوں میں بلکل کرونا اپنے عروج پر تھا اس لئے تمام ٹور کمپنیاں بھی بے بس اور بے حال ۔ سندھ میں درگاہوں اور مزارات پر لوگوں کی آمد کو بھی ٹورزم مانا جاتا ہے جو رواں سست روی کا شکار رہا۔

سندھ کی تاریخی جگہیں کافی حد تک ویران رہیں ۔

اس سال ہونے والی مون سون کی بارشوں نے رنی کوٹ اور کوٹ ڈیجی کے قلعوں کو کافی نقصان پہنچایا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ ٹورزم کارپوریشن کو کینجھر جھیل کے علاوہ پہاڑوں پر بھی ایک ماسٹر پلان بنانا چاہیے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔

سندھ کے مختلف مقامات پر کیبل کار / چیئرلفٹ ، پیراگلائیڈنگ ، گلیمپنگ پوڈز اور ہاٹ ائیر بیلون کی سہولیات کی فراہمی پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔ یہ وہ اقدامات ہیں جن کو کر کہ سندھ حکومت اپنا زرِ مبادلہ بڑھا سکتی ہے۔
میری حکومت سندھ اور بلاول بھٹو سے یہ التجا ہے کہ خدارا اس صوبے میں دم توڑتی سیاحت کو دوبارہ بحال کرنے پر توجہ مرکوز کریں ورنہ حالات بہت خراب جا رہے ہیں۔

آزاد کشمیر میں سماہنی ، سہیڑہ اور باغسر سمیت بہت سی جگہوں پر پرانی اور خوبصورت باؤلیاں اب بھی قدرے بہتر حالت میں موجود ہیں جن کو ذرا سی توجہ دے کر اور بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ سرائے سعد آباد، جن پری کی کوٹھیاں، قلعہ کرجائی، راولاکوٹ میں پہاڑی پر واقع گوردوارہ اور ایسی بہت سی بے شمار تاریخی جگہیں ہیں جنہیں توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت آزاد کشمیر ان کو مرمت کر کے اگر بحال کر دے تو یہ سیاحت کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔

ایک نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ جہاں انڈیا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک ریلوے کو سیاحت سے منسلک کر کے کروڑوں ڈالر اوپر کما رہے ہیں وہیں ہمارا محکمہ ریلوے نہایت پستی میں جانے کے باوجود خواب غفلت میں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ موجودہ دور حکومت میں مری، مظفر آباد، زیارت، سوات اور اس جیسے دیگر سیاحتی مقامات کو ریلوے لائن کے ذریعے ملک سے جوڑا جاتا تاکہ عوام کو بسوں اور ویگنوں میں دھکے نہ کھانے پڑتے۔ اس سے ایک طرف ملک کی بڑی شاہراہوں پر ٹریفک کا دباؤ کم رہتا تو وہیں ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی آتی۔ لیکن اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ بہت سے ٹریک بند کر کے ریلوے اسٹیشن ویران کیئے جا رہے ہیں، ٹرینوں کی تعداد کم کی جا رہی ہے اور ریلوے کے بہت سے اثاثے گل سڑ رہے ہیں۔
وزیراعظم صاحب ، ذرا ایک نظر ادھر بھی۔۔۔۔
بہت سے علاقوں میں سستی اور مناسب رہائشی سہولیات اور کھانوں کا نہ ملنا بھی سیاحت کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے جس کی ایک اہم وجہ ہوٹل مالکان کی من مانیاں ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے سردی و گرمی کے موسم میں سیاحتی سیزن کے عروج پر ریستوران و ہوٹل مالکان اپنے من مانے ریٹ وصول کرتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں پانی کی چھوٹی بوتل تک سو سو روپے میں دستیاب ہوتی ہے جو میں سمجھتا ہوں منافع خوری کی سب سے گھٹیا قسم ہے۔ حکومت ایسے لوگوں پر نظر رکھے اور مناسب پابندیاں لگائے تو ان علاقوں میں جانے والے سیاحوں خصوصاً فیملیز کی مشکلات میں بہت حد تک کمی آ سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تو محض چند باتیں تھیں جو آپ کے سامنے رکھی ہیں ورنہ کہنے کو تو اور بہت کچھ ہے جو بعد کے لیئے رکھ دیتے ہیں۔
میں جناب محمود کھوسہ (بلوچستان) ، جُمن جمالی (سندھ)، مقصود احمد (پنجاب) اور عثمان قریشی کے تعاون کا مشکور ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply