گرقبول افتد ʻ زہے عز وشرف۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

بائے بسم اللہ
ہمدمِ دیرینہ محمد یوسف واصفی نے بہتّر اشعار پر مبنی ایک منقبت کہی ہےʻ درِ شانِ علی ابنِ ابی طالبؑ! واصفی فکر و سخن کے دسترخوان سے انہیں بڑا لنگر دان ہوا ہے۔ مقامِ حیرت ہے— میزبان غیبت میں ہےʻ اور مہمان حاضر ہے۔ غیبت گویا حاضری کی میزبانی کر رہی ہے۔ آج علی الصبح انہوں نے تیرہ رجب المرجبʻ یوم ولادتِ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے حوالے سے اِسی منقبت کی بحر میں کہا گیا ایک شعر ارسال کیا۔ شعر کیا تھاʻ وجدان کا ایک ہفت خوان تھا۔ سچ پوچھیں تو یہ شعر ہی اِس موضوعِ دلپذیر پر سخن آرائی کا محرک و موجب بنا:
ہے تیرہ رجب ʻیومِ عجبʻ خوب گھڑی ہے
جب گھر میں خدا کے ہواʻ مہمان علی ہے
یوسف واصفی حیران ہیں کہ اِس علم و فضل کے سرکردہ عنوان پر لوگ معرض و معترض کیوں ہیں، ستاروں کو ماننے والے قطبی ستارے کی مرکزی حیثیت و معنویت تسلیم کرنے سے گریزاں کیوں ہیں۔ درحقیقت فضیلت بیان کرنے والے کو فضیلت ملتی ہے۔ تخصیص و فضیلت کے بیان میں خساست سے کام لینے والوں کے حصے میں صرف خفت آتی ہے۔” کشف المحجوب“ میں ایک ایسا زرّیں جملہ درج ہےʻ جو طالبانِ حق کے لیے سرمایۂ سفر و حضر ہے— کم وبیش ایک عشرہ ہونے کو ہےʻ یہ جملہ برادرم ڈاکٹر اویس افضل کی زبانی سنا تو اِس کی حقانیت دو چند روشن ہوگئی، بڑی دُور دُور تک راہ روشن ہوئی۔ فرمایا گیا کہ جوہر ِاِنسانیت بیان کرتے کرتے بیان کرنے والے پر یہ جوہر کھلنے لگتا ہے۔ یہاں سے اِس فقیر نے یہ اَخذ کیا کہ فضائل کا بیان فضیلت دے سکتا ہے۔ رومیؒ ہو ʻجامیؒ ہو، اقبالؒ ہوʻ یا پھر واصفؒ— سب کے سب اہلِ حکمت ودانش فضائل علی کے بیان میں رطب لّلسان ہیںʻ یک زبان و یک جاں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ درِ علم ؑسے تمسک نے اِن پر علم و حکمت کے دَر وَا کر دیے ہیںʻ اِن کے قلوب کسی طاہر ذات نے یوں مطہر کر دیے ہیں کہ انہیں کتابِ مکنون سے تمسک کا اِذن مل چکا ہے— اب یہ جو بھی کہیںٗ وہ کتاب ہے— بلکہ کتاب دَر کتاب ہے!!
حضرت ابو عبدالرحمٰن احمد بن شعیب بن علی، المعروف امام نسائیؒ 215 ھ میں پیدا ہوئے، آپ ایسے معتبر اور قد آور محدثین میں سے ہیں کہ آپ ؒ کی کتاب ”سنن نسائی“ صحاح ستہ میں شامل ہے۔ امام نسائیؒ نے ”خصائصِ علیؑ“ کے نام سے در شانِ علی ابن طالبؑ ایک ہزار سے زائد مستند احادیث مرتب کی ہیں، ان احادیث میں رسولِ کریمﷺ کی زبانِ صادق و اطہر سے وہ ارشادات عالیہ نقل کیے گئے ہیں جو فضائلِ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے باب میں صاحبِ ”ما ینطقُ عن الھویٰ“ نے فرمائے ہیں ۔ یہ مجموعۂ احادیث جب مکمل ہوا تو آپؒ نے چاہا کہ دمشق کی جامعہ مسجد میں اسے بیان کیا جائے۔ آپؒ مسند پر رونق افروز ہوئے اور تفضیلِ علیؑ کا بیان شروع کیا— لیکن عہدِ ملوکیت میں جبر واستبداد کے پہرے سوچوں تک محیط ہو جاتے ہیں، اُموی سپاہیوں نے اِس “جرم” کی پاداش میں اس ضعیف مگر وجیہ صورت وجود کو اِس قدر بے دردی سے زد و کوب کیا کہ آپؒ کی حالت زخموں سے غیر ہوگئی اور زخموں سے چُور حالت میں آپؒ نے وصیت کی کہ مجھے مکہ لے جایا جائے، مکہ پہنچتے ہی آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے، آپؒ کا سنِ وصال303ھ ہے ۔ ایک قولِ علیؑ ابن ابی طالبؑ کا مفہوم خانۂ یادداشت میں یوں موجود ہے کہ ہم اہلِ بیت سے جو محبت کرتا ہے اُس کی طرف دنیاوی مصائب و آلام اس تیزی سے آتے ہیں جس تیزی سے پانی نشیب کی طرف عود کر آتا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ ایک قولِ بوترابؑ یوں بھی ہے کہ ہماری فضیلت ہمارے غیر کے سامنے بیان نہ کرو۔ گویا جو فضیلت کا انکار کرتا ہےٗ وہ غیر کے درجے پر ہے ۔ فضیلت کا انکار کرنے والا تعصب میں ہوتا ہے اور تعصب انسان کو اندھا کردیتا ہے، وہ اپنے عیب دیکھ سکتا ہےʻ نہ کسی دوسرے کی صفت ہی اسے دکھائی دیتی ہے۔
بائے بسم اللہ کی شرح میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، سب سے پہلے اس کی بابت وہ دیکھیےجو خود امیر المومنین امام المتقین نے فرمایا ”یقیناً جو کچھ قرآن میں ہے وہ (سورۃ) فاتحہ میں ہے اور جو کچھ فاتحہ میں ہے وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں ہے اور جو کچھ اس میں ہے ʻوہ اِس کی باء میں ہے اور جو کچھ اِس کی باء میں ہے وہ اِس کے نقطہ میں ہے اور میں اِس باء کے نیچے نقطہ ہوں“ یہ بات اِس حدیث پاک سے متصل ہے جس میں رسولِ کریمﷺ نے فرمایا ” علیؑ قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علیؑ کے ساتھ ہے“ مستند احادیث میں رسولِ کریم ﷺ کا یہ قولِ کریم بھی دَر حقانیتِ علی ابن ابی طالبؑ درج ہے ”علیؑ حق کے ساتھ ہے اور حق علیؑ کے ساتھ ہے“ ان دونوں احادیث میں حضرت علیؑ کا قرآن اور حق کے ساتھ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن یہ بات قابلِ غور ہے کہ حق اور قرآن بھی علیؑ کے ساتھ ہے — قرآن اور حق ہمیشہ کے لیے ہیںʻ ہمیشہ رہیں گے ،اس لیے اب تا قیامت قرآن کی تفسیر کے لیےعلی ابنِ ابی طالبؑ کے دَر کا طالب ہونا پڑے گا— اب ہردَور میں حق کی تعبیر کے لیے یہی دَر کھٹکھٹانا پڑے گا۔ رسولِ کریمؐ کا فرمانِ عالی شان ہے ” میں علم کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے“ اگر مطلق علم کو ذاتِ توحید سے تعبیر کیا جائے تو رسالت مآبؐ کی ذاتِ بابرکات اُس علم کے بے حد وبے کنار دشت میں ایک آراستہ و پیراستہ شہر ہے، اور اِس علم کے شہر میں داخل ہونے کا راستہ ولایتِ علیؑ ہے۔ توحید کا آسمان اس قدر بلند اور وسیع ہے کہ مخلوق اِس میں تنہا سیر نہیں کرسکتیʻ جب تک کہ اسے رسالت مآبؐ کا وسیلہ میسر نہ آئے، اسی طرح آسمانِ رسالتؐ بھی اتنا عمیق اور ہمہ جہت ہے کہ اس میں ایک فرد کو بامعنی رسائی کے لیے ولایت کا واسطہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ کتاب سے کماحقہ ذات کا تعارف ممکن نہیں ۔ ذات سے ذاتی تعارف کسی ذات کے وسیلے سے میسر آتا ہے۔ ذات ہی ذاتی تعلق کی خوشبو سے متعارف کرواتی ہے۔ تصویر اور تصور میں ہم آہنگی مصور کی ذات بہم پہنچاتی ہے۔
بائے بسم اللہ کا ذکر تواتر سے اہلِ علم و حکمت کی تحاریر میں رقم ہوتا رہا۔ حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ” رموزِ بےخودی“ میں بائے بسم اللہ کا ذکر یوں کرتے ہیں:
آں امامِ عاشقاں پُورِ بتُولؑ سَروِ آزادے زِبُستانِ رسُولؐ
اللہ اللہʻ بائے بِسم اللہ پِدرؑ معنیٔ ذبحِ عظیم ʻآمد پِسرؑ
”وہ (امام حسینؑ) عاشقوں کے اِمامؑ ʻ حضرت فاطمۃالزہرا سلام اللہ علیہا کے فرزنداوررسولِ کریمﷺ کےباغ کےایک سروِآزاد ہیں۔ سبحان اﷲ!کیا کہنےʻ باپ (حضرت علیؑ) بسم اﷲ کی باء ہے تو بیٹا ذبحِ عظیم کی شرح ہے۔ ذبح ِعظیم قرآنی تلمیح ہے۔ اسداللہ غالب ایسا صاحبِ دانش و حکمت سخن ورʻ جب علی ابنِ ابی طالبؑ —غالب علی اَمرہٖ —کا ذکر کرتا ہے تو یوں گویا ہوتا ہے:
غالبؔ ندیمِ دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغولِ حق ہوں، بندگیِ بوترابؑ میں
قرآن کریم وہ کتابِ ہدایت ہے کہ جس کے بارے میں کوئی شبہ نہیںʻ لیکن ایک تخصیص یہاں پہلے سے یہ قائم کر دی گئی کہ اس کتابِ ہدایت سے ہدایت انہیں ہی میسر آئے گی جو متقی ہیں۔ حضرت علیؑ ابن ِابی طالب ʻامام المتقین ہیں۔ آپؑ کے کردار کی اقتدا کرنے والے مقتدی ہی نورِ ہدایت سے فیض یاب ہیں— یہ ہیں جو”زمرہ لایحزنون“ ہیں اور دَر جملہ ”کونوا مع الصادقین“ ہیں— یہ ہیں وہ ʻجو حق کی اور صبر کی سلسلہ در سلسلہ وصیت کرتے چلے جاتے ہیں— یہی ہیں وہ استثناء کے حامل انسان جو ازلی خسارے سے مستثنیٰ قرار دے دیے گئےہیں۔ ”ھل اَتٰی“ سے ”ان اللہ اشترٰی“ تک حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان میں قرآن کریم کی اتنی آیات نازل ہوئی ہیں کہ مفسرین ابھی تک شمار کر رہے ہیں۔
کچھ عرصے قبل ٗفارما سےتعلق رکھنے والے ایک دیرینہ شناسا شبیر احمدبٹ نے اپنے والد گرامی محمد رفیق بٹ مرحوم کی تالیف کردہ ایک کتاب دَرفضائلِ علیؑ تحفے میں پیش کی، اس کتاب کی پیشانی پر دو آیات اور ایک حدیث درج تھی۔” یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ “( اس دن ہم لوگوں کو طلب کریں گے ان کے اماموں کے ساتھ) ، اور ” وقفوھم انھم مسئولون“ ( اور انہیں ٹھہراؤ، ہمیں اِن سے سوال کرنا ہے)، اور اس کے بعد ایک حدیثِ مبارکہ درج ہے ، حدیثِ پاک کے الفاظ تھے: ”اِنَّ هُم مَسئولُونَ عَن وِلَايَته على “ ( اِن سے علی ؑ کی ولایت کے بارے میں سوال کیا جائے گا) ۔ سچ پوچھیں تو یہ حدیثِ پاک دیکھ کر چونک گیا، تعجب ہوا کہ یہ حدیث اس سے پہلے نظر سے نہیں گزری۔ چنانچہ اَس حدیث کے سیاق و سباق کی کھوج لگ گئی۔ معلوم ہوا کہ یہ حدیث حضرت ابوسعید خدری  سے مروی ہے اور اسے علامہ ابن حجر عسقلانی نے “صواعق المحرقہ” میں نقل کیا ہے۔ علامہ ابنِ حجر عسقلانی ( 1372ء تا 1449ء) ایک بلند پایہ محدث او رعالمِ دین گزرے ہیں، شافعی مکتب ِ فکر سے تعلق رکھتے تھے، ان کی معروف کتاب بخاری شریف کی شرح فتح الباری ہے ، اس کے علاوہ کم و بیش ایک سو پچاس کتابوں کے مصنف تھے، مفتی اعظم مکہ اور امامِ کعبہ بھی تھے، یہ حدیث انہوں نے ”وقفوھم انھم مسئولون “ کی شرح میں بیان کی ہے۔
حضرت علی ابن ابی طالبؑ کی تکریم و تفضیل انتہائی مفصل اور جدا ہے ʻآپؑ کے القابات و خطابت اتنے منفرد اور جدا ہیں کہ اسلامی تاریخ کا ایک ورق پلٹنے والا نووارد بھی ٹھٹھک کر رہ جاتا ہے۔ ازراہِ تکریم آپؑ کے نامِ نامی کے ساتھ ”کرم اللہ وجہہ الکریم“ لکھا جاتا ہے، وجہ اس کی بخاری شریف میں درج ایک حدیث رسولؐ ہےʻ جس کے راوی حضرت ابوبکر صدیق ہیں۔ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا ” علیؑ کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے“ یہ فرمانِ رسولِ کریمﷺ سن کر جناب ابوبکر صدیق نے حضرت علیؑ کو کرم اللہ وجہہ کہا۔ علی کا چہرہ دیکھنا بھی عبادت ہے اور حدیثِ نبوی ؐ کے مطابق کعبہ مشرفہ کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔ اب مکیں جانے یا مکاں — لامکاں کی داستاں شروع ہوتی ہے کہاں!!
آپؑ کے لیے ”ذوالفقار“ نازل ہوتی ہے۔ جنگ خندق کے موقع پر رسولِ کریمﷺ آپؑ کو ”کلِ ایمان“قرار دیتے ہیں۔ آپ ؑخیبر شکن ہیں،—اہلِ یہود آج بھی اپنے زخم نہیں بھولے، وہ وہیں وار کرتے ہیں جہاں حُبِّ علیؑ کے متوالے موجود ہوں۔ ماضی حال پر گواہ ہے۔سرزمینِ پاک سایۂ بوترابؑ ہے— محمد وعلی کے ہاتھوں کا لگایا ہوا اِک چمن ہےʻدشمنانِ دین پہلے دن سے اسے تاراج کرنے کے دَرپے ہیں۔ خطۂ پاک میں شجاعت کا اعلیٰ ترین تمغہ حیدرؑ کے نشان سے موسوم ہے۔ بدر سے حنین تک علیؑ کی شجاعت کا عَلم نصب ہے۔ شجاعت آپؑ کے گھر کی باندی ہے۔ سخاوت آپؑ کے دَر سے دان پاتی ہے۔ آپؑ کا نامِ نامی ہی ایسا ہے کہ اِس کے زیر و بم سے دلوں کی دھڑکن ایک نئی ترتیب سے آشنا ہو جاتی ہے۔ علیؑ— شعور کی ایک نئی جہت کا نام ہے۔
رسول کریمﷺ نے فرمایا” اے علی! تمہاری اور میری نسبت ایسی ہے جیسے موسیٰؑ کی ہارونؑ کے ساتھ، مگر اس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں“ آپؑ مظہر العجائب والغرائب ہیں۔ فقرِ سلمان و بوذر آپؑ کی اقتدا ِسے داد اور دوام پاتے ہیں— آپؑ بےزر کو بُوذرکرتےہیں۔ آپؑ کے فقر پر رسولِ کریمﷺ نے فخر کیا۔ میدانِ جنگ ہوʻ مسندِ قضا ہوʻ کتاب ہو یا پھر خطاب — ہرجا علیؑ کا علم لہرا رہا ہے۔ بلاغت کی نہج آپؑ کے کلماتِ فصاحت سے ترتیب پاتی ہے۔”سلونی سلونی“ آپؑ کی مسندِ ارشاد ہے— یہ سرمدی کلمہ ہر ولی کے سینے کا جلترنگ پیدا کرتا ہے— شورِ قیامت بپا ہونے تک اِس سرمدی ترنگ سے نت نئے نغمات ِ شعور پیدا ہوتے رہیں گے۔
خطبۂ غدیر میں علیؑ ابن طالب کا تعارف پوری اُمّتِ مسلمہ سے کروا دیا گیا— ”مَن کُنتُ مَولاہُ فھٰذا عَلیِّ مَولاہُ“اس خطبے کا افتتاحیہ ہے، ”لَحمُکَ لَحمِی، دَمُک دَمی، رُوحُک رُوحی اور نَفسُک نَفسِ“ علیؑ اور نبیؐ کی ظاہری اور باطنی نسبتوں کی تفسیر ہے۔ اگر فکری تخریب کاروں کے ہاتھوں تاریخ کی کتابوں میں یہ خطبہ حذف ہونے سے رہ گیا ہے تو ایک مرتبہ ضرور پڑھ لینا چاہیے۔ آج بھی روح کے کسی گوشہ سماعت میں یہ خطابِ رسولؐ اُمّتیوں سےگواہی طلب کر رہا ہے۔ شاہدِ اوّل کے حق میں آج کی گواہی کل کام آسکتی ہے۔ “مَن کُنتُ مَولاہُ فَھٰذا علیّ مَولاہُ” کی شرح میں دائیں بائیں کی تشریحات میں آئیں بائیں شائیں کرنے والوں کے لیے مولانا رومؒ نے ایک شعر کی صورت میں ایک حتمی وضاحت کر دی ہے۔ مفہوم شعر یوں ہے: اے ملّا! تُو پریشان ہوتا ہے کہ مولا کا مطلب یہ ہے ʻاور یہ نہیں ہے، بس اتنا جان لے کہ جن معنوں میں رسولؐ نے خود کو مومنوں کا مولا کہا ہےʻ اُنہی معنوں میں علیؑ بھی مومنوں کے مولا ہیں۔ سب ولی علیؑ کی یاد میں پائے گئے— یا یوں کہیں کہ علی کی یاد میں سب ولی بنائے گئے۔ یاد روح کا سفر ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے کہا تھا:
علیؑ کی یاد ہے واصفؔ علی کو
علیؑ خود اس زمیں کا آسماں ہے
ہر ولی جلوۂ علی ہے۔ ہر ولی پر علیؑ کا پہرہ ہے— یاد کا پہرہ !— خیال کا پہرہ!!
تیری یاد کا ولی ہوں ٗ کہ میں واصفِ علیؑ ہوں
نہ خفی ہوںٗ نَے جلی ہوٗ میں ہوں حرفِ بے نیازی
( ڈاکٹر اظہر وحید )

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply