دی پارٹی از ناٹ اوور۔۔محمد اسلم خان کھچی

آج کل سیاسی حلقوں میں محترم سہیل وڑائچ صاحب کا خواب زیرگردش ہے۔ تمام حکومت مخالف پارٹیاں بشمول حکومتی”غدار ” آس لگائے بیٹھے ہیں کہ مائنس عمران فارمولہ پہ عمل درآمد ہونے کو ہے ۔
وڑائچ صاحب کے کالم پہ لوگ اس لیے بھی پُریقین ہیں کیونکہ جب نواز شریف صاحب کے خلاف ” پانامہ ہنگامہ” شروع ہوا تو سہیل وڑائچ صاحب نے کالم لکھا” دی پارٹی از اوور”۔
اس کے بعد کچھ حالات و واقعات ایسے بنتے گئے کہ ان کا لکھا گیا کالم سچ ثابت ہو گیا
یوں سمجھیں کہ ان کا ” تْکا ” لگ گیا۔

اب دوبارہ جناب محترم وڑائچ صاحب نے مایوس عوام اور بالخصوص ایک اپوزیشن پارٹی   پیپلزپارٹی   میں جان ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ منظر نامہ تبدیل ہونے والا ہے۔ بادی النظر میں انہوں نے پیپلزپارٹی کے مایوس کارکنوں میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کی ہے کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ   ن لیگ   مائنس عمران فارمولہ کو سپورٹ کرنے کی بھیانک سیاسی غلطی کبھی نہیں کرے گی ۔
مائنس عمران فارمولہ اس لئے بھی ممکن نہیں کیونکہ پاکستان میں اس کے نتائج بڑے الٹے ہوتے ہیں۔ مائنس ہونے والا زیادہ قوت کے ساتھ واپس آتا ہے۔ اسکی زندہ مثال میاں نوازشریف صاحب ہیں۔ جب انہیں مائنس کیا گیا تو   گو نواز گو  کا نعرہ، مجھے کیوں نکالا میں تبدیل ہو گیا اور میاں نوازشریف صاحب ایک طاقتور مظلوم لیڈر کے روپ میں ابھر کے سامنے آئے۔
میاں نوازشریف صاحب اپنے طویل دور حکمرانی کی وجہ  سے بھی  زیرِ عتاب آئے ۔ تمام الزامات کے باوجود انہیں ایوان اقتدار سے نکالنے میں عرصہ لگ گیا۔
126 دن کا دھرنا ,علامہ طاہر القادری صاحب کی لاشوں کی سیاست ,پارلیمنٹ پہ دھاوا , پی ٹی وی پہ قبضہ ان سے استعفیٰ دلانے میں ناکام رہا۔اور بلا آخر  نظریہ ضرورت   کا پرانا داؤ استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا سہارا لے کے انہیں حکومت بدر کیا گیا۔

یہ درست ہے کہ طویل دور حکومت کی وجہ سے میاں نوازشریف صاحب کا پورا خاندان مالی بدعنوانیوں کے الزامات کی زد میں تھا۔دور حکمرانی طویل دورانیے پہ مشتمل ہو توIrregularitiesسرزد ہونا عام سی بات ہے اور ایسا ہی کچھ میاں نواز شریف صاحب کے ساتھ ہوا ۔ اس کے ساتھ ساتھ مریم نواز شریف صاحبہ کی وجہ سے بھی نوازشریف صاحب کو کچھ کمپرومائزز کرنا پڑے۔
ایوان اقتدار سے نکالے جانے کے بعد میاں نوازشریف صاحب نے اپنی سیاسی زندگی میں پہلی بار   نظریاتی   نکتہ نظر اختیار کیا لیکن انہیں نظریاتی بنتے بنتے بہت دیر ہو چکی تھی۔ اگر وہ چند سال پہلے نظریاتی ہو جاتے تو آج وہ واقعی پاکستان کے   طیب اردگان   ہوتے ۔
چلو دیر آید درست آید۔
کچھ تو تبدیلی آئی اور اب اگر مریم صاحبہ نے   ووٹ کو عزت دو  کے بیانیئے پہ من و عن عمل کیا تو آئندہ دور دور تک ان کے مقابلے میں کوئی لیڈر نظر نہیں آتا۔ چاہے وہ شہبازشریف صاحب ہوں۔ عمران خان ہو یا پیپلز پارٹی ۔ یہ بیانیہ ملک میں اتنا مقبول ہے کہ شاید تمام پارٹیاں مل کے بھی محترمہ مریم نواز صاحبہ کا راستہ نہیں روک پائیں گی ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اگر ماضی کی روش اختیار کرتے ہوئے کمپرومائز  کرتی ہیں تو عین ممکن ہے ان کا مستقبل بھی اصغر خان صاحب جیسا ہو جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان صاحب اس وقت ملک کے کمزور ترین حکمران ہیں۔ کمزور معاشی پالیسیوں اور ورکنگ کیپیسٹی کے فقدان کی وجہ سے ملک تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ اسد عمر صاحب کا معیشت پہ   اوور کنفیڈنس  اس ملک کی معیشت کو لے ڈوبا ہے ۔تمام اکانومسٹ کا متفقہ خیال ہے کہ موجودہ حکومت کو ابتدا میں ہی آئی ایم ایف کے پاس چلے جانا چاہیے تھا لیکن کمزور معاشی پالیسی اور اسد عمر صاحب کی ضد کی وجہ سے ملک دن بدن معاشی دلدل میں دھنستا چلا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت کمزور معاشی پالیسیوں کی آڑ لیکر موجودہ سیٹ اپ کو تبدیل کرنے کی افواہیں زور پکڑ رہی ہیں ۔ انہی افواہوں کو بنیاد بنا کے سیاسی آسٹرولوجسٹ بھی بضد ہیں کہ  مائنس ون   پہ اتفاق ہو گیا ہے اور عمران خان کی جگہ جناب پرویز خٹک صاحب مستقبل کے پرائم منسٹر ہیں۔
تبدیلی کی یہ سوچ بس عقل کا  دیوانہ پن     لگتی ہے۔

پوری پی ٹی آئی جانتی ہے کہ عمران خان ہی پی ٹی آئی ہے۔ اگر عمران خان کو پی ٹی آئی سے مائنس کر دیا جائے تو نتیجہ صرف  زیرو   کی صورت میں نکلے گا۔ اگر اس وقت حکومتی پارٹی ارکان اور اپوزیشن مل کر عمران خان کو مائنس کر دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ   خٹک حکومت   بقیہ مدت پوری کرے گی۔
ماضی کی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ عمران خان Non compromising person ہے۔ وہ موجودہ ارکان کو دوبارہ چانس نہیں دے گا ۔نئے سرے سے اپنی صفیں ترتیب دے گا اور دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرے گا جو اس بار وہ کر چکا ہے۔

اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو موجودہ پی ٹی آئی ارکان کا مستقبل ن لیگ کے ساتھ ہے لیکن   ن لیگ  کے پاس اتنی گنجائش ہی نہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے موجودہ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ارکان کو اکوموڈیٹ کر سکے ۔
پیپلز پارٹی تقریباً ختم ہو چکی ہے لہذا وہ ان لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرے گی اور اس میں کامیاب بھی ہو جائے گی ۔ سیدھا سادہ مطلب یہ ہوا کہ اگر عمران مائنس فارمولہ اپلائی ہوتا ہے تو اگلی حکومت پیپلز پارٹی کی ہو گی اور ن لیگ ہاتھ ملتی نظر آئے گی۔

میرے خیال میں ن لیگ مائنس عمران فارمولہ کو کسی بھی صورت میں سپورٹ نہیں کرے گی کیونکہ اس فارمولے سے وہ صرف  کھو   رہی ہے جبکہ پیپلزپارٹی  بینیفشری   نظر آ رہی ہے اور   ن لیگ   کبھی نہیں چاہے گی کہ اس کی کسی سیاسی غلطی سے طاقت کا توازن پیپلزپارٹی کی طرف منتقل ہو بلکہ اگر موجودہ حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ ن لیگ یہ چاہتی ھے موجودہ سیٹ اپ اسی طرح چلتا رہے ۔بجٹ اپروول اسکی واضح مثال ہے ۔ موجودہ حکومت کی بیڈ گورننس ن لیگ کے حق میں جارہی ہے بلکہ ن لیگ تو ہر صورت میں پنجاب حکومت کے موجودہ سیٹ اپ کو بھی برقرار رکھنے کی کوشش میں ہے ۔

آپ ذرا غور کیجیے۔۔۔ جب بھی پنجاب حکومت ہچکولے کھاتی ہے تو ن لیگ کے ارکان وزیر اعلیٰ صاحب سے ملنا شروع کر دیتے ہیں۔ ممبران کا وزیر اعلیٰ صاحب سے ملنا دراصل موجودہ حکومت کو سپورٹ کرنے کی ایک کڑی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے ڈیلیور کرنے میں ناکامی کی صورت میں   ن لیگ  کو آئندہ انتخابات میں اقتدار میں آنے سے اسٹیبلشمنٹ بھی نہیں روک پائے گی۔ اس لئے ن لیگ مائنس عمران فارمولے پہ عمل کر کے اپنے پاؤں پہ کلہاڑا کبھی نہیں مارے گی۔

عمران خان کو کمزور سمجھنے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ عمران خان ایک اٹل حقیقت ہے۔ 2018 میں عمران خان کا ساتھ دینے والا ووٹر ابھی تک عمران خان کے ساتھ قدم جما کے کھڑا ہے اور یہ بات تمام پارٹیاں اور اسٹیبلشمنٹ جانتی ہے ۔عمران خان کی سحرانگیز شخصیت اور اسکی صرف ایک تقریر اس کے ووٹرز میں ایک نئی روح پھونک دیتی ہے۔ ووٹر تکلیفوں سے گزرنے کے باوجود بھی مطمئن ہے اور امید لگائے بیٹھا ہے کہ عمران خان ہی اس ملک کی ترقی کا ضامن ہے۔

اس لئے مائنس عمران کی باتیں کرنے والے اس بات کو بھول جائیں کہ   پارٹی از اوور ، ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔۔
یا تو موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی یا پھر مڈٹرم الیکشن ہوں گے۔۔
پیپلز پارٹی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ اس وقت ن لیگ ہی ملکی بڑی پارٹی ہے،موجودہ سیٹ اپ پانچ سال پورے کرے یا مڈٹرم الیکشن ہوں۔۔دونوں صورتوں میں بینیفشری   ن  لیگ ہی ہو گی
اس لئے میرے خیال میں پارٹی ابھی چلے گی۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں کچھ عرض کردوں۔۔میں نے بھی ایک خواب دیکھا ہے ۔خواب میں کچھ واقفان حال ملے جو بتا رہے تھے کہ اگلے تین سے چھ ماہ میں کچھ نیا ہونے جا رہا ہے ۔ موجودہ سسٹم کی جگہ کوئی نیا سسٹم آرہا ہے۔۔۔ اشرافیہ, مافیا جیل جاتا نظر آرہا ہے۔۔۔ سسٹم کوئی بھی ہو لیکن عمران خان قیادت کرتا نظر آ رہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply