برِ صغیر کے معروف کالم نگار اور پاک و ہند دوستی کا روشن استعارہ کلدیپ نئیر (مرحوم) گزشتہ ایک کالم میں ہی لکھتے ہیں “میں واہگہ بارڈر سے دل شکستہ لوٹا ہوں ،اس وجہ سے نہیں کہ غروب آفتاب کی پریڈ سے سپاہیوں کا جارحانہ (مارشل)رویہ کم نہیں ہوا،بلکہ اس وجہ سے کہ وہاں بڑی خوفناک اور مہیب چیزیں نصب کردی گئی ہیں ،پاکستانی حکام نے وہاں کم از کم دس ایسے بورڈ لگا دئیے ہیں جن میں ایسی شبیہیں کندہ کی گئی ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ ہندوؤں اور سکھوں نے تقسیم ہند کے دوران مسلمانوں کو کس طرح قتل کیا اور لوٹ مار کی،یہ بورڈ اس رخ پر لگائے گئے ہیں جنہیں صرف بھارت کی طرف سے ہی دیکھا جاسکتا ہے ،وہ پاکستانیوں کو اس لیے نظر نہیں آسکتے کہ اس طرف ان کی پشت ہے جو کہ محض خالی بورڈز کی طرح دکھائی دیتی ہے۔”
میرے حساب سے یہ ایک جنگ ہارے ہوئے فریق کا رویہ ہے ۔بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اسلام آباد نے جو ایک غلط سلط نظام تشکیل دیا ہوا ہے،اور جو حکومتِ وقت کی رہنمائی کرتا ہے اس نظام میں وزارتِ داخلہ ،فوج،انٹیلی جنس ،ایجنسیاں ،وزارت خارجہ کے علاوہ عدلیہ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور سابق چند ایک زیرک بیوروکریٹس بھی شامل ہیں ،ان کے خیال میں بھارت کے حلقہ اثر میں اضافہ ہورہا ہے۔ ساس لیے اس کا توڑ کرنا ضروری ہے۔
جیسا کہ کلدیپ نئیر نے بھی لکھا ہے کہ حکومت میں یقیناً کوئی ایجنسی یا ادارہ ہوگا ،جس نے نفرت کی آگ بھڑکانے کی خاطر نئےطریقے وضع کردیے ہیں ،کیونکہ بھارت کے ساتھ امن کی آواز پاکستان میں بھی قوت پکڑ رہی ہے۔اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ سالِ گزشتیہ لگ بھگ ساٹھ ستر افراد واہگہ سرحد پر آگئے تھے،جنہوں نے زیرو پوائنٹ پر موم بتیاں روشن کرکے عداوت کے اندھیرے کو مار بھگایا تھا اور یہ بات ان لوگوں ،اداروں ،محکموں اور ایجنسیوں کو ہضم نہیں ہوتی ،جو اپنے مذموم مقاصد کی خاطر نفرت کو فروغ دینا چاہتے ہیں ۔
کچھ عرصہ قبل ویکلی اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے اپنے رپورٹر کے حوالے سے واہگہ اتاری بارڈر پر قومی پرچم اتارنے کا موقع پر ہونے والی پاک بھارت سرحدی محافظوں کی جارحانہ پریڈ کے بارے میں اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ قومی پرچم اتارنے کی یہ تقریب پینسٹھ برس سے ہر شام باقائدگی سے ہوتا ہوگا۔
“گرم ترین”باردڑ پر دونوں طرف سینکڑوں تماشائی اسے اپنے قومی ترانے سنتے ہیں ،اورسرحڈی محافظوں کو جارحانہ انداز میں اپنے قومی پرچم کو سلامی دیتے دیکھتے ہیں ۔
سورج غروب ہونے سے پہلے نصف گھنٹے تک جاری رہنے والی یہ مضحکہ خیز اور “دلچسپ” پریڈ یا تقریب دونوں ممالک کے درمیان خیر سگالی ،بھائی چارہ،امن اور دوستی کو فروغ دینے کے بجائے چھ دہائیوں سے زائد جاری عداوت کے برقرا رکھنے میں معاون ،مدد گار ثابت ہو رہی ہے،واہگہ بارڈر پر ہر اشم یہ “انڑ ٹینمنٹ “دیکھنے والے پاکستانی و بھارتی عوام کی تعداد بعض اوقات سینکڑوں سے تجاویز کرکے ہزاروں تک جاپہنچتی ہے۔
بعض ازاں تو تقریب میں مزید رنگ بھرنے کے لیے زندہ باد اور “اللہ اکبر” کی نعرہ بازی بھی شامل کرلی جاتی ہے ،جس سے دنیا کا گرم ترین “بارڈر”مزید گرم ہوجاتا ہے ۔
یہی نہیں بلکہ بچے(جو سیاسی نہیں ہوتے)اپنے ننھے ننھے مکے ہوا میں لہراتے ہوئے جارحانہ ترانے گانے لگتے ہیں ،میں نے ایک بار نو عمر سکول کے ایک بچے سے مکے لہرانے کی وجہ پوچھی کہ تم کس کو مکے دکھا رہے ہو،؟اس معصوم”کا جوابتھا” میں نے سکول کی کتاب میں اپنے وزیراعظم لیاقت علی خان کی ایک تصویر دیکھی تھی جس میں وہ انڈیا کو مکہ دکھا رہے تھے۔میں بھی انڈیا کو مکہ دکھا رہا ہوں ۔۔۔”
حب الوطنی کا یہ مظاہرہ بچوں نے اپنے بڑوں سے سیکھا ہے ،لیکن بارڈر پر ایسے مظاہروں کے دوران کچھ ناخؤش گوار واقعات بھی جنم لے لیتے ہیں ،
گزشتہ دنوں جب بارڈر کا گیٹ بند ہونے کی تقریب سے کچھ دیر پہلے دہلی جانے والی پاکستانی بس کو سرحد پار کرنے کی اجازت دی گئی تو بھارتی تماشائیوں کی طرف سے “دہشت گردی روکو” ،دہشت گردی روکو” کی آوازیں بلند ہونے لگیں ۔۔۔
بھارتی تماشائیوں کی جانب سے سرحدی محافظوں کی پریڈ کے انداز کو جارحانہ قرار دیا جائے۔یہی بات کلدیب نئیر بھی کئی بار اپنے کالموں میں لکھ چکے ہیں ۔کلدیپ نئیر نے ایک بار مجھے بتایا کہ واہگہ بارڈر پر آنے والے دہلی کے ایک 22 سالہ نوجوان نے پاکستان رینجرز اور بھارتی بارڈر سکیورٹی فورسز کی جارحانہ پریڈ دیکھنے کے بعد کہا کہ یہ پریڈ حب الوطنی کا جذبہ ابھارنے کی بجائے دونوں ملکوں کو امن پسندی،خیر سگالی اوردوستی پر مبنی ایسا مشترکہ پروگرام ترتیب دینا چاہیے جو ہندو پاک کے باسیوں کے ایک دوسرے کے قریب لائے۔
جاننے والے جانتے ہیں واہگہ برڈر پر لگ بھگ 40 سال کے بعد پرپرچم اترنے کی تقریب کے دوران ایک بار پھر سخت جذبات عود آئے،سرحدی محافظوں کی آنکھیں اور چہرہ سرخ دکھائی دینے لگا ہے۔پرویز مشرف کے دور میں “پاکستانی اور بھارت کے درمیان کشیدہ صورتحال میں کمی کے باعث واہگہ بارڈر پر شام کو پرچم اتارنے کی تعریف یا سلامی دینے کے دوران لگ بھگ 65 سال سے جاری کھردرے اور سخت جذبات میں نرمی آئی تھی اور کئی مواقع پر نہ صرف تحفے تحائف کا تبادلہ ہوا بلکہ مقصد ،سماجی تقریبات بھی منعقد کی گئی تاہم ممبئی پر ہونے والے ”قصابی حملوں ” کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کا اثر واہگہ بارڈر پر کھڑے سرحدی محافظوں پر بھی ہوا ۔اور ان ایک بار پرچم اتارنے کی تقریب کے دوران ایک دوسرے کو غصیلی نظروں ،چہرے پر شدید تناؤ، پاؤں سے زمین اکاھڑنے کی ناکا م کوششوں کو دیکھا جاسکتا ہے ،یہ کوششیں بابِ آزادی کے سائے تلے ہو رہی ہیں ،جبکہ ہمیں “باب دوستی وا کرنا چاہیے ورنہ ان پڑھ سرحد پر میرا منہ چڑاتا ہوا باب آزادی ۔۔۔کیا اس طرف جہاں میں بھوگ رہا ہوں آزادی نام کی کوئی شے ہے؟
کیا اسے آزادی کا نام دیا جاسکتا ہے؟آزادی تو دلوں کو جوڑنے کا نام ہے،لیکن یہ بابِ آزادی ہے،تو دل کرچی کرچی کردئیے ہیں ،سانپ جیسی زہریلی اور جمے پہلو جیسی یہ حد یا سرحد یا جو بھی ہے،اسے باب آزادی کا نام کس سامراج کے غلام نے دیا ہے،؟
میں بھی سوچتا ہوں ،آپ بھی سوچیے!
نہ چھوڑنے کا ارادہ تھا ،نہ ساتھ چلنے کا
عجیب موڑ پہ آکر ٹھہر گئے دونوں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں