سیاسی کارکن کی موت: دوسرا پہلو/نجم ولی خان

کون انکار کرتا ہے کہ موت دکھ بھری ہوتی ہے مگر ایک منطقی سوال ہے کہ کیا اس موت کا سودا آپ نے سب کچھ دیکھتے بھالتے خود کیا ہے یا آپ کے پیاروں پر یہ دکھ جبری مسلط کیا گیا ہے۔آپ ابھی (یا بہتر ہے کہ شام کے بعد) زمان پارک چلے جائیں وہاں آپ کو ڈھیرسارے ظلے شاہ ملیں گے۔ ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے ہوں گے اور منہ میں گالیاں۔ وہ ذرا سے اختلاف پر آپ پر پل پڑنے کے لئے تیار ہیں اور مار پیٹ بھی کر رہے ہیں۔ کرائم رپورٹرز کے مطابق ان میں سے بہت ساروں کے پاس اسلحہ بھی موجود ہے۔ کئی سو نے عمران خان کے گھر کے پیچھے دو پارکوں میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ یہ کوئی سیاسی سرگرمی نہیں بلکہ واضح طور پرایک جنگی منظرنامہ ہے۔

میں اتفاق کر لیتا ہوں کہ دفعہ ایک سوچوالیس سمیت حکومت کے کئی اقدامات غیر ضروری ہیں اور پی ٹی آئی کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی کوشش بھی مگر اس کے لئے عدالتیں موجود ہیں جو پی ٹی آئی کے لئے رات کو بھی کھلتی ہیں اور اتوار کو بھی۔ ہمارے محترم اور مکرم جج صاحبان آئینی، سیاسی اور شہری حقوق کے نام پرکئی کئی روز بیٹھ کے انتظار کرتے ہیں کہ خان صاحب تشریف لائیں تو انہیں ریلیف دیں حالانکہ عدالتی روایات کچھ اور ہیں اوردوسری طرف پاکستان کی سیاسی تاریخ قائدین کی گرفتاریوں سے اور برس ہا برس کی جیلیں کاٹنے کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ایسے میں اپنے کارکنوں کو سکیورٹی اداروں کے ساتھ جنگ میں دھکیلنا ایک سوچی سمجھی سکیم ہے یعنی جو کچھ ہو رہا ہے وہ لیڈران نے بھی سوچا سمجھا ہوا ہے اور انہوں نے بھی جو وہاں اپنے قد سے بھی بڑے اور اپنے بازووں سے بھی موٹے ڈنڈے لے کرکھڑے ہیں۔

ہم سیاسی کارکنوں کو معصوم اور مظلوم قرار دیتے ہیں تو تصویر کا ایک رخ پیش کرتے ہیں۔ کیا ان کے مقابلے پر سرکاری ملازم پولیس والے مجبورنہیں ہیں۔ کیا وہ انسان نہیں ہیں کہ جب انہیں اپنی نوکری کرتے ہوئے ڈنڈے مارے جائیں گے تو وہ بھی غصے میں آئیں گے۔ سیاسی کارکنوں کا غصہ زیادہ مقدس اور محترم نہیں ہو سکتا، غصہ تو غصہ ہوتا ہے اور کسی کو بھی آ سکتا ہے خاص طور پر جب آپ ڈنڈے لے کر کھڑے ہوں اور گالیاں بک رہے ہوں اور اس کے نتیجے میں ایک شرمناک تاریخ رقم ہوتی ہے۔ زمان پارک میں اب جو کچھ بھی ہو گا وہ سوچا سمجھا سودا ہو گا جیسے آپ ٹرین کی پٹڑی پر خود لیٹ جائیں۔ جذباتیت سے پرہیزکیجئے، منطق اور دلیل سے بات کیجئے، صرف پاکستان نہیں دنیا بھر میں سکیورٹی نافذ کرنے والے اداروں کی مزاحمت سنگین جرم اورخطرہ سمجھی جاتی ہے۔ خان صاحب کے عدالتوں میں پیش نہ ہونے پر دو جگہوں سے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہو چکے ہیں (ابھی ایک معطل ہوئے جو ایک سیاسی رہنما کے ردعمل ظاہر کرنے کا درست راستہ ہے) یہاں اگر بلاضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود حکومت عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کرے گی تو اس کی سبکی ہو گی، ریاست کی رٹ ختم ہو گی لیکن کوشش کرے گی تو آگے سے مزاحمت ہو گی۔ اس پر ایک طرف سے ڈنڈے چلیں گے اور دوسری طرف سے آنسو گیس کے شیل۔

اس کے بعد یہ سیاست نہیں بلکہ جنگ ہے اور جو جنگ کے میدان میں موجود ہے وہ اپنی فہم و فراست اور رضا و رغبت کے ساتھ موجود ہے کہ اس میں اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اسے کچھ شہرت ملے یا اس کے ماں باپ کو ظل شاہ کے والدین کی طرح محض آنسو۔ حقیقت پسند بن کے سوچئے کہ یہ اس کی سوچی سمجھی چوائس ہے۔ وہ اپنی جان کو داؤ  پر لگا کے بازی کھیل رہا ہے کہ اگراس نے کچھ ڈنڈے شنڈے کھا لیے اور بچ گیا تو جب اس کی پارٹی کی حکومت آئے گی تو اسے بھی کوئی عہدہ ملے گا۔ اس کی نظر میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں چاہے دس ہزار میں مرنے کا ایک کا بھی رسک ہو اور سوچا جاسکتا ہے کہ یہ مرنے والا میں ہی کیوں، کوئی دوسرا بھی ہو سکتا ہے۔ جو اس جنگ میں فاتح ہو گا وہ علاقے کا کن ٹٹا یا چوہدری بن سکے گا۔ کچھ ٹھیکوں میں اس کی بھی کمیشن ہو گی اور کسی کانسٹیبل ہیڈ کانسٹیبل پر وہ بھی دبکا مار سکے گا۔ کچھ سینیٹری ورکرز اس کی بھی کمانڈ میں ہوں گے۔ رہ گیا کوئی انقلاب تو وہ نہ ستر برس میں پہلے آیا اور نہ اگلے ستر برس آئے گا۔ عمران خان نے جو عثمان بزدار اور فرح گوگیاں پہلے دیں، وہ ان پر شرمندہ نہیں، پھر دے دے گا۔ آپ مانیں یا نہ مانیں ہمیں اپنی سیاست کے اطوار بدلنے ہوں گے۔ یہ بڑے بڑے جلسے اور ریلیاں اس جدید دور میں محض وسائل کا ضیاع بن کے رہ گئی ہیں۔ جب آپ کے پاس انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا موجود ہے تو آپ چند سو روپے کے خرچ میں لاکھوں فالورز تک پہنچ سکتے ہیں تو دس ہزار کے مجمعے کے لئے آپ کوگاڑیوں، کرسیوں، بینروں، سٹیج، ساونڈ وغیرہ وغیرہ پردس کروڑ روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا یہ اچھا نہیں کہ لوگ اپنے گھروں اور دکانوں میں بیٹھے ہوں اورآپ کے دانشمندانہ خطاب سے ملکی مسائل کا حل کشید کر رہے ہوں، اپنے مستقبل کا راستہ دیکھ رہے ہوں اس کے لئے ان سب کو اپنے تمام کام کاج چھوڑ کے بھیڑ بکریوں کی طرح مینار پاکستان سمیت کسی بھی گراونڈ میں جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ملک یا صوبے بھر سے ایک شہرمیں کارکن جمع کرکے آپ کون سی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں، یہ سب نظروں کا دھوکا ہے۔ آپ کوئی بہت ہی خفیہ بات کرنا چاہتے ہیں تو میٹنگ کر لیں، آپ اپنے کارکنوں کو ہدایات جاری کرنا چاہتے ہیں تو ان کا اجلاس طلب کر لیں اور وہ بھی اس لئے کہ آپ پرسنل انٹریکشن چاہتے ہوں ورنہ جلسوں میں کون کسے دیکھتا ہے اور کون کسے جانتا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

میں یہ  نہیں کہتا کہ سیاسی کارکن سیاست نہ کریں مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ وہ صرف سیاست کریں، تخریب کاری نہ کریں۔ وہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں اور اپنے علاقے کے لوگوں کو اپنی پارٹی اور لیڈر کے حق میں کنوینس کریں، یہی کافی ہے۔ مجھے زمان پارک میں ایک پختون کارکن نے بتایا کہ وہ اکتالیس روز سے وہاں پر موجود ہے۔ مجھے علم ہے کہ عمران خان کی رہائش گاہ کے پچھلی طرف کوئی ڈیڑھ، دوہزار کے لگ بھگ کارکن دو پارکوں میں مسلسل ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں مگر یقینی طور پرپی ٹی آئی والے ان کی آمدورفت، رہائش اور خوراک سمیت دیگر اخراجات برداشت کر رہے ہوں گے اوراس کے پیسے کہاں سے آ رہے ہیں یہ سوال بہت اہم  ہے۔؟ میں نے اس کارکن کو دیکھا اور سوچا کہ یہ شخص اپنا کام دھندا چھوڑ کے ڈیڑھ ماہ سے یہاں بیٹھا ہوا ہے تو یہ اپنی، فیملی کی اور ملک کی کیا خدمت کررہا ہے۔ ؟اگر آپ کسی کے بہکاوے میں آ کے ڈنڈے اور اسلحے کے ساتھ پولیس کے مقابلے میں نہیں ہوں گے تو یقینی طور پر اپنے خاندان کے ساتھ مسکرا رہے ہوں گے، ماں باپ کی خدمت کر کے دعائیں لے رہے ہوں گے، اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہوں گے۔ حرام موت مرنے کی بجائے اپنے دفتر یا دکان میں رزق حلال کما رہے ہوں گے۔ چوائس آپ کی اپنی ہے۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply