تبدیلی لائیے، خود تبدیل نہ ہوں۔۔۔۔سید شاہد عباس

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے نہ صرف عوام کو ہمالیہ سی بلند اُمیدیں ہیں بلکہ وہ یہ توقع بھی کیے بیٹھے ہیں کہ وہ حکومتی اُمور سر انجام دینے کے حوالے سے سابقہ ادوار کی روش کو نہ صرف ترک کریں گے بلکہ انہیں حقیقی تبدیلی سے روشناس بھی کروائیں گے۔ اور امیدیں بجا بھی تھیں کہ عوام بے چارے کئی دہائیوں سے پسے ہوئے، مجبور، حالات کے مارے ہوئے ان کی دو وقت کی روٹی پوری ہونے کا سبب ہو نہیں پا رہا۔

انتخابی مہم میں ایسی گہما گہمی قائم و دائم تھی کہ بھٹو کا روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ بھی نہ جانے کیسے مگر ایسا لگنے لگا کہ اس دور سے بھی بڑھ کے کچھ نیا ہو گا۔ اور پھر انتخابات ہو گئے، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بن گئی، وزرا بننا شروع ہو گئے، کچھ وزیر بنے، کچھ مشاورت کے زمرے میں کھپائے گئے، جو کسی جگہ کھپ نہ سکے انہیں مختلف اداروں کی چیئرمین شپس سے نوازا جانے لگا۔ اور یہ وہ لوگ تھے جو اسمبلی رکن تو تھے مگر کوئی وزارت، مشیری، یا اختیار پانے سے قاصر رہ گئے تھا یا یہ فرض کر لیجیے کہ نئے نئے اسمبلی رکن منتخب ہوئے تھے۔

ایسے ہی ایک ایم پی ائے صاحب کو پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن کا چیئرمین لگا دیا گیا۔ اس فاونڈیشن کی داغ بیل سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ڈالی تھی جس کے ذمے پنجاب کے سرکاری سکولوں کا انتظام و انصرام لگایا گیا تھا۔ اور اس وقت پاکستان تحریک انصاف اس قدم پہ تنقید کرنے والوں میں پیش پیش تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے ہی اقتدار کا ہما سر بیٹھا تو ان کو خیال آیا کہ ایسے ادارے تو بندے کھپانے کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں لہذا انہوں نے بھی لوگوں کو ایڈجسٹ کرنا شروع کر دیا ایڈجسٹ کرنا یعنی کھپانا۔ اب ان ایم پی ائے صاحب کی نہ تو ذہانت پہ کوئی شبہ ہے نہ ہی ان کے کام کرنے کے انداز پہ کوئی شبہ ہے بلکہ ان کی تو شہرت ماشا اللہ سے اتنی اچھی ہے کہ مخالفین بھی ان کے معترف دیکھے گئے ہیں۔ اور ایسا ہونا بھی چاہیے کہ اعلیٰ شخصیاتی معیارات کی حامل شخصیت کی توصیف اس کا حق بھی ہے۔

عہدے سنبھالے کچھ وقت ہوا۔ اب دورے شروع ہو گئے۔ دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ انتہائی نفیس شخصیت کو بھی ہماری سیاست عام بھیڑ چال کا شکار ہونے سے نہ روک پائی۔ سرکاری سکول کا دورہ تو کیا لیکن ان کے ارد گرد ایک جھمگٹھا اپنی ہی پارٹی کے ہرکاروں کا جمع تھا جنہیں نہ صرف اس سکول کے مخصوص علاقے بلکہ ارد گرد سے بھی بلائے گئے تھے۔ اب حقیقی تبدیلی کیا ہوتی کہ سکول جس علاقے میں واقع ہے اس علاقے سے ایسی شخصیات کو مدعو کیا جاتا کہ جو رائے دینے کی حیثیت و علم رکھتی ہیں۔ یا ایک عام اعلان کر دیا جاتا کہ ایم پی اے صاحب تشریف لائیں گے جس نے رائے دینی ہو جو بھی ان سے بات کرنا چاہتا ہو وہ تشریف لا سکتا ہے۔ لیکن شو مئی قسمت ایسا کچھ نہ ہو سکا۔ اور چند مخصوص افراد ان کی گاڑیوں کے ساتھ چلتے رہے، ان کو مخصوص حالات کی نشاندہی کرتے رہے، اور تصاویر کے لیے فلیش چمکتے رہے۔ حاصل کیا ہوا اس دورے سے؟ مقصد کیا تھا اس دورے کا؟ یہ ایک سیاسی دورہ تھا یا عوامی فلاح کا؟ سکول کے معاملات پہ حق ایک مخصوص سیاسی جماعت کا ہے یا پورے علاقے کا؟ سکول میں بچے ایک ہی سیاسی جماعت کے ہرکاروں کے پڑھتے تھے یا ہر فکر رکھنے والوں کے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم نے توقع کی تھی کہ نیا پاکستان بنے گا اور تبدیلی آئے گی۔ تبدیلی آئے گی کہ جو ہٹو بچو کا شور بلند ہوتا تھا وہ نہیں ہو گا۔ بنا کسی سیاسی وابستگی کے عوامی فلاح کے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔ لیکن تبدیلی تو آنے سے قاصر ہے ہاں مگر شخصیات کر رجحانات تبدیل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جن لوگوں کی شہرت اچھی بھی تھی اور امید تھی کہ وہ معاملات کو بہتر انداز سے چلائیں گے وہ بھی سیاسی رنگ میں رنگے جا رہے ہیں۔ تبدیلی تو ہنوز دلی دور است لیکن خود کو تو تبدیل کیا جا سکتا تھا نا، تو ہمارے مہربانوں نے خود کو تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے اور یہ ثابت کرنا شروع کر دیا ہے دعوے پورے کرنے کے لیے نہیں ہوتے، وعدے ایفا کرنے کے لیے نہیں ہوتے، وہ تو صرف ووٹ بٹورنے کا اک بہانہ ہوتا ہے۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply