تمہیں زیادہ ذلیل ہونا چاہیے تھا ۔۔ علی نقوی

ہر روز ہمارے چینلز پر دانشورانِ ملت اس ملکِ خداداد کو دوچار بحرانوں کی وجوہات تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ آج میں آپ کی توجہ ایک ایسی وجہ کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جو مجھے ایک عرصے سے تنگ کرتی رہی ہے۔ اگر آپ آج کے زمانے پر نظر ڈالیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اس وقت جو نسل صاحبِ اقتدار و اختیار ہے وہ کون سی ہے یعنی وہ کس زمانے میں پیدا ہوئی تھی تو جو بریکٹ ہمیں نظر آئے گی وہ پاکستان بننے کے پہلے پچیس سالوں کی ہے، یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے پاس گزشتہ دو تین دہائیوں سے اقتدار و اختیار ہے یعنی سن 1947ء سے لیکر سن 1970ء تک جو لوگ پیدا ہوئے وہ آج ہماری زندگیوں سے متعلق فیصلے لے رہے ہیں چاہے وہ میاں نواز شریف ہوں، عمران خان ہوں، بینظیر بھٹو ہوں، آصف زرداری ہوں، گزشتہ دو دہائیوں میں آنے والے جرنیل ہوں یا عدلیہ کے سنیر جج ہوں۔ ملک ریاض ہوں، میاں منشا ہوں یا گزشتہ دہائیوں سے لیکر آج تک کی بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران ہوں اگر آپ ان پر نظر ڈالیں تو وہ آپ کو اسی قطار میں نظر آئیں گے۔ ان سے پہلے کی نسل کے لوگ سن 1990 سے پہلے اقتدار کے مراکز سے جا چکے تھے اس ملک میں ان پہلے پچیس سالوں میں جو لوگ پیدا ہوئے ان میں ایک بات مشترک تھی کہ ان کی زندگی کے ابتدائی ایام مارشل لاء کے زمانے میں گزرے یعنی جو بچہ 1947 میں پیدا ہوا وہ اپنے ہوش میں تب آیا جب مارشل لاء کا نفاذ ہو چکا تھا، جو بچہ 1960 میں پیدا ہوا وہ ابھی دس سال کا ہوا ہوگا کہ پاکستان مارشل لاء در مارشل لاء سے گزر رہا تھا اور یہی تسلسل پاکستان کو دو لخت کر رہا تھا۔ اسی طرح جو بچے 1970 میں پیدا ہوئے ابھی آٹھ نو سال کے ہی ہوئے تھے کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں دوبارہ مارشل لاء نافذ کر دیا گیا، یہ تو ماہرین نفسیات ہی بتا سکتے ہیں کہ مارشل لاء کے کم سِن بچوں کی دماغی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، لیکن گزشتہ تین دہائیاں جس میں یہ جنریشن ڈلیور کر رہی ہے اس بات کی شاہد ہیں کہ یہ دماغی طور پر صحت مند نسل نہیں ہے ۔ دو چیزیں اس نسل کے لوگوں میں عام طور پر دیکھی جاسکتی ہیں ، ایک خود پسندی اور دوسری ضد۔ رجحانات کی شدت کا عالم یہ رہا ہے کہ اس نسل سے جو مولوی نکلا وہ بھی شدت پسند تھا اور جو لبرل نکلا وہ بھی، مولوی کی داڑھی باہر تھی اور لبرل کی پیٹ میں، تھے دونوں شدت پسند۔ آج کے پچاس سال سے اوپر کے مولوی اور لبرل دونوں کی خواہش یہ ہے کہ ان کے نقطہ نظر سے اختلاف رکھنے والے کو زندہ نہیں رہنا چاہیے اور دنیا اس وجہ سے برباد ہو رہی ہے کیونکہ وہ ان کا نظریہ نہیں مان رہی، یہ نسل سائنس اور مذہب کے درمیان اس طرح سے کنفیوز ہوئی کہ نہ تو سائنٹفک اپروچ پیدا کر سکی اور نہ مذہبی رہ سکی۔ جہاں ایک طرف اس جنریشن میں بے پناہ جہادی پیدا ہوئے وہیں دوسری طرف وہ لبرلز بھی بڑی تعداد میں پیدا ہوئے کہ جن کا مقصد صرف مذہبی نظریات کی تضحیک تھا ۔ تیسرے وہ تھے جو کبھی ایک سے مار کھاتے تھے تو کبھی دوسرے سے۔ اس جنریشن کے بہت سے لوگ صرف اپنے مولوی باپ کی ضد میں لبرل ہوگئے، اور کچھ لبرل باپ کی ضد میں جہادی۔ اس نسل کے جو لوگ مذہب کی بات کرتے تھے ان کا کل فوکس عورت کو برقع پہنانے اور گھر میں قید کرنے پر تھا اور جو لبرل ہوئے ان کا کل فوکس عورت کو سگریٹ پلانے اور اس کے کپڑوں کو اتارنے پر۔ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ برین ڈرین اس نسل کا ہوا ۔جو آسودہ تھا اس نے ملک چھوڑنے میں عافیت سمجھی، آپ دیکھیے کہ آج کل معاملات اس نسل کے ہاتھ میں ہیں ہر اہم سیٹ پر اسی نسل کا کوئی نہ کوئی نمائندہ براجمان ہے، اور مجال ہے کہ وہ کوئی دانش مندانہ فیصلہ لے سکے، مجال ہے کہ اسکو کوئی نئی بات سمجھ میں آ جائے، مجال ہے کہ وہ یہ سوچ سکے کہ جونیئر بھی ٹھیک ہو سکتا ہے،ان لوگوں کو علم اور زبان کے نام پر کیا کیا پڑھایا گیا اس کا احساس تب ہوا جب آج میری نظر سے 1979 کے میڑک کا نصاب گزرا جس سے یہ تاثر ملا کہ ہم اپنے بچوں کو سائنس کی کتابوں میں صرف یہ بتاتے رہے ہیں کہ فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی میں مسلمانوں کا حصہ کیا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنس پڑھائی ہی نہیں گئی کیمسٹری شورے کے تیزاب سے شروع ہو کر گندھک کے تیزاب پر ختم ہو جاتی تھی، بایئو مینڈک کے آپریشن سے آگے نہیں بڑھ پاتی تھی تو یہ سمجھنے میں آسانی ہوئی کہ اس نسل کے لوگوں کو سائنس اور سائنٹفک اپروچ سے اتنی بیزاری کیوں ہوتی ہے؟ کیوں کسی نئی چیز کے تذکرے پر اس نسل کے لوگوں کے ماتھے شکن آلود ہوجاتے ہیں؟ اب سمجھ آتا ہے کہ جب کوئی جونیئر کسی مسئلے کا کوئی سائنسی حل تجویز کرتا ہے تو آپ کیوں نہیں مانتے؟ یہ وہ نسل ہے جو آج کی نسل کے لوگوں کو بد تمیز اور بد تہذیب ہونے کا طعنہ صرف اس بنیاد پر دیتی ہے کہ وہ سوال پوچھتی ہے۔
پاکستان کے مقتدر افراد کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ مجھے آپ پر بالکل بھروسہ نہیں ہے کیونکہ ہم نے آپ کا پھیلایا ہوا مذہبی بیانیہ بھی دیکھا اور آپ کی Enlighten Moderation بھی، دونوں میں آپ کے ذاتی مفادات تھے وہ مذہبی بیانیہ بھی امریکہ کے مفاد میں تھا اور آپ کی گھٹیا، دو نمبر بدبودار ماڈرنٹی بھی امریکہ کے مفادات حاصل کرنے کے لیے ہم پر مسلط کی گئی تھی، اور ان دونوں نظریات کو پھیلانے اور دونوں آمروں کے ہاتھ مضبوط کرنے کا کام اس کنفیوز نسل سے لیا گیا۔ ضیاء الحق اگر اس ملک کے برے ترین حکمرانوں میں سے تھا تو اس کا دفاع کرنے والا نواز شریف تھا جو 1996 میں بھی اعجاز الحق کا ہاتھ پکڑ کر کہتا تھا کہ میں ضیاء الحق شہید کا مشن پورا کروں گا۔
اس کے بعد پرویز مشرف کے دفاع کے لیے چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی موجود تھے جو خود کو سیاسی و جمہوری ورکر کہتے تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرماتے تھے کہ سو بار بھی اگر ہمیں پرویز مشرف کو وردی میں منتخب کرانا پڑا تو کرائیں گے۔ اس جنریشن کے لوگ وکیل صرف اس لیے بنتے رہے کہ ان کا ٹیہکا شیہکا بنا رہے ۔ قانون کی ڈگریاں چنے کی طرح بٹتی رہیں وکالت جو کہ ایک معزز پیشہ تھا بدنام ہوتا گیا مفاد پرست جج، بدمعاش وکیل۔ رشوت کا وہ عالم کہ الامان الحفیظ ۔محاورہ رائج ہو گیا کہ ”وکیل کیا کرنا جج کر لیتے ہیں“ آپ اس جنریشن کا کوئی ایسا آدمی اٹھا کر دیکھ لیں کہ جس کے پاس اختیار ہو آپ کو اس کے رویئے میں ایک واضح بد صورتی اور بھدا پن نظر آئے گا ۔حسِ لطیف نا پید ہے اس جنریشن کے لوگوں میں ۔استاد ہے تو اس میں علم و متانت نہیں ہے، دانشور ہوگا تو اس میں فہم نہیں ہوگی، جج ہو گا تو اس میں عدل نہیں ہوگا، فوجی ہو گا تو اس میں شجاعت نہیں ہوگی، فنکار ہو گا تو اس میں فن نہیں ہوگا، گلوکار ہو گا تو اس میں سرُ نہیں ہوگا، اور اس سب کے ساتھ ساتھ وہ ضد اور تکبر کا پہاڑ ہوگا ایک ایسا متکبر جس کو اپنی جہالت پر ناز ہو، اپنے سے کمزور کی پٹائی اس کا شیوہ اور اپنے سے چھوٹے کی تضحیک اس کا مشغلہ ہو گا، اپنے سے بہتر اس کی برداشت سے باہر ہوں گے، ناپسندیدہ شخص یا نظریے کا تذکرہ اس کے تن بدن میں آگ لگا دیتا ہوگا، مارشل لاء کی پیداوار اس نسل پر شہوت کا وہ غلبہ ہے جو بیان سے باہر ہے آپ ان کے کسی لاغر سے لاغر ترین صاحب کا فیس بک اکاؤنٹ دیکھیں دوشیزائیں ہی دوشیزائیں ملیں گی اور ان صفوں میں محمود و ایاز بلا تفریق اپنا اپنا حصہ ڈالتے نظر آئیں گے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون پروفیسر ہے اور کون ریڑھی بان اس پیڑھی کے ریٹائرڈ پروفیسر سارا دن نوجوان لڑکیوں کی فلٹرڈ تصاویر دیکھ دیکھ کر اپنی سانسیں تیز کیے رکھتے ہیں اور ان لڑکیوں سے بات کرنے کے چکروں میں گندی گالیاں بھی سنتے ہیں اگر کوئی لڑکی سٹیٹس دے تو سب سے زیادہ کمنٹری یہ لوگ کرتے ہیں اور اگر تصویر لگا دے تو پھر تو قیامت ہے۔ اس جنریشن کے بزنس مینوں سے ٹائم اور پیسے نکلوانے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ آپ ان کی کسی خوبرو چنچل حسینہ سے ملاقات کرا دیں۔ اس نسل میں جو لوگ بہتر تھے اور کچھ کرنا چاہتے تھے وہ ملک چھوڑ گئے یا مار دئیے گئے۔
آپ سے صرف یہ کہنا ہے کہ خدا کا واسطہ ہے نئی نسل کو آگے آنے دیں یہ نسل آپ سے بہتر ہے آپ اس نسل کو مار رہے ہیں آپ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہم پر واہیات ترین لوگ مسلط کیے آپ ہی ہیں جنہوں نے نواز شریف اور الطاف حسین جیسوں کو ہیرو بنایا میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا لاہور جیسے عظیم الشان شہر کی نمائندگی نواز شریف جیسا اوسط سے بھی کم درجے کا شخص کر سکتا تھا یا ہے؟ بھٹو صاحب جیسا آدمی دیکھنے کے بعد کس طرح آپ نے نواز شریف جیسے کو لیڈر مان لیا؟ اتنے عظیم ورثے کو آپ لوگوں نے کس طرح ایسے ہاتھوں میں جانے دیا جو ایک کلرک کی ذہنی سطح سے بھی نیچے کے لوگ تھے؟ اور پھر مسلسل انہی کو آزماتے رہے، کیا الطاف حسین کراچی جیسے شہر کا نمائندہ ہو سکتا تھا؟ کن بھیڑیوں کے ہاتھ میں آپ نے ہماری تقدیر دیے رکھی؟ آپ لوگوں کی خاموشی اور کج فہمی نے آج میرے مسائل اتنے بڑھا دئیے ہیں کہ مجھے سوائے اندھیرے کے کچھ نظر نہیں آتا ۔ ہر وعدے، ہر ادارے ہر آنے والی اچھی خبر پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے میں اور میرے جیسے لوگ اگر ملکی سطح کی کوئی اچھی خبر سن بھی لیں تو مایوس ہی رہتے ہیں، میں یہی سوچتا رہتا ہوں کہ یہ کون لوگ ہیں جو میری اور میرے بچوں کی تقدیر کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ جب ملتان میں میٹرو بس کی تعمیر شروع ہوئی تو میں یہ سوچا کرتا تھا کہ کاش کوئی طریقہ تو ہو کہ میں میاں شہباز شریف کو یہ بتا سکوں کہ میاں صاحب آپ یہ کیا پاگل پن کر رہے ہیں، آپ کو یہ کیوں سمجھ نہیں آتا کہ ملتان جیسے گرم شہر میں کنکریٹ کے چھ سو پلرز کیا ستم ڈھائیں گے؟
آپ لوگ بہت ظالم لوگ ہیں آپ کو آپ کے بزرگوں سے بہت بہتر معاشرہ ملا تھا لیکن جو کچھ آپ لوگ ہمارے لیے چھوڑ کر جا رہے ہیں وہ انتہائی گھٹیا، واہیات اور گھٹن زدہ ہے، اس معاشرے میں ہمارا سانس گھٹتا ہے آپ کے بنائے ہوئے نظام سے ہمیں بو آتی ہے، کاش ہم آپ سے آپ کی بد اعمالیوں کا حساب لے سکتے… لیکن ایک بات یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ پچاس یا سو سال بعد آنے والے بچے جب اس دور کا مطالعہ کریں گے تو وہ آپ کو بہت برُے الفاظ میں یاد کریں گے اور یہ سوچیں گے کہ جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا وہ کم تھا آپ کو زیادہ ذلیل ہونا چاہیے تھا۔

بشکریہ

Advertisements
julia rana solicitors london

http://www.girdopesh.com

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply