فساد گڑھ اور جھگڑا پور

بربرستان کے براعظم میں دو ریاستوں فساد گڑھ اور جھگڑا پور کا کچھ تنازعہ تھا ۔ تاہم فریقین نے آپس میں امن کا معاہدہ کرلیا تھا اور اس میں یہ بھی طے کیا تھا کہ وہ تمام تنازعات باہمی مذاکرات سے حل کریں گے۔ دونوں ریاستیں اقوام متحدہ کی تنظیم کی رکن بھی تھیں اور اس تنظیم کے منشور میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ کوئی رکن کسی دوسرے رکن کی علاقائی سالمیت یا سیاسی خود مختاری کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرے گا ، نہ ہی اس کی دھمکی دے گا ۔ رکن ہونے کی حیثیت سے دونوں ریاستوں نے یہ ذمہ داری بھی اٹھائی ہوئی تھی۔ تاہم فساد گڑھ میں بعض اندرونی فسادات ہورہے تھے تو موقع غنیمت جان کر جھگڑا پور نے فساد گڑھ پر حملہ کیا ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلالیا گیا اور اس میں متفقہ قرارداد منظور ہوئی کہ جھگڑاپور نے فساد گڑھ پر حملہ کرکے جارحیت کا ارتکاب کیا ہے ۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کوششوں سے فساد گڑھ اور جھگڑا پور کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا اور فریقین نے پھر اقرار کیا کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف جنگی اقدام نہیں کریں گے ۔ کچھ عرصے بعد جھگڑاپور کے شہر مقاتل آباد میں بعض افراد نے ایک شاپنگ مال پر حملہ کرکے ڈیڑھ سو افراد قتل اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں لوگوں کو زخمی کیا ۔ جھگڑا پور کے وزیر دفاع لیفٹنٹ جنرل (ریٹائرڈ) فاتح اعظم نے پریس کانفرنس میں میڈیا کے لوگوں کے سامنے بعض مبینہ ثبوت پیش کیے جن کی روشنی میں اس نے اس حملے کی ذمہ داری”حرکۃ المفسدین”نامی تنظیم پر ڈالی اور قرار دیا کہ اس فسادی تنظیم کی تربیت، مالی امداد اور “لاجسٹک سپورٹ”سب کچھ فساد گڑھ سے ہوئی ہے اور اس لیے اس حملے کی ذمہ داری فساد گڑھ پر ہے ۔
فساد گڑھ کی حکومت نے اس الزام کو مسترد کردیا اور اس واقعے کی تحقیقات کے لیے “جے آئی ٹی” تشکیل دی ۔ کچھ دنوں بعد دنوں بعد جے آئی ٹی کی رپورٹ پر فساد گڑھ کی حکومت نے حرکۃ المفسدین کے سربراہ کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی ۔ بعض اخبارات اور ٹی وی چینلز نے اسی دن ایک اور خبر بھی دی جس میں باوثوق ذرائع کے حوالے سے فساد گڑھ اور جھگڑا پور کے وزراے اعظم کے مشترک کاروباری مفادات کی تفصیل بھی دی گئی۔ فساد پور کی ایک نوخیز سیاسی پارٹی “Interference International” (جو “آئی آئی “کے نام سے مشہور ہے ) کے سربراہ نے اگلے دن پریس کانفرنس میں کہا کہ ہمارا وزیراعظم چونکہ مہافسادی ہے اس لیے وہ پوری قوم کو ذمہ دار ٹھہرا کر دراصل اپنے کاروباری مفادات کا تحفظ کرنا چاہتا ہے ۔
جھگڑاپور اور فساد گڑھ کے درمیان تنازعہ ایک اور خونریز جنگ میں تبدیل ہونے والا تھا لیکن بعض مشترک دوست ریاستوں کی مداخلت کے بعد فریقین اس پر رضامند ہوئے کہ اپنا تنازعہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے ذریعے حل کرائیں ۔ اس دوران میں فریقین کا اس پر بھی اتفاق ہوچکا تھا کہ کارروائی حرکۃ المفسدین نے کی تھی لیکن فساد گڑھ اس کارروائی کے لیے ذمہ داری قبول کرنے سے انکاری تھا ۔ عدالت ، جو کہ اقوام ِ متحدہ کی تنظیم کا عضو ہے ، کے سامنے قانونی سوال یہ تھا کہ کیا بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی روشنی میں مقاتل آباد میں غیر ریاستی تنظیم حرکۃ المفسدین کی جانب سے کیے جانے والے حملے کے لیے فساد گڑھ کی ریاست ذمہ دار ہے ؟ عدالت نے بین الاقوامی معاہدات، رواج ، قانون کے قواعد ِ عامہ، بین الاقوامی عدالتوں کے نظائر اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین کے تفصیلی تجزیوں کی روشنی میں بالآخر فساد گڑھ کوحرکۃ المفسدین کی کارروائی کے لیے ذمہ دار قرار دیا ۔
جھگڑا پور کے وزیراعظم نے اس فیصلے کے بعد کابینہ کی میٹنگ بلائی جس میں اس کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا گیا ۔ تاہم بعض وزرا کی راے یہ تھی کہ چونکہ اس کارروائی کی فوج داری ذمہ داری (criminal responsibility) فساد گڑھ کے دو فوجی افسران ، کرنل چنگیز خان اور میجر ہلاکو خان ، پر عائد ہوتی ہے ، اس لیے ان کے خلاف “بین الاقوامی فوج داری عدالت ” (International Criminal Court)میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ (واضح رہے کہ جھگڑا پور اور فساد گڑھ دونوں نے اس عدالت کے منشور پر دستخط کرکے اس کی توثیق بھی کی تھی ۔ ) انھوں نےکہا کہ چونکہ بین الاقوامی عدالت ِ انصاف نے فساد گڑھ کو اس کارروائی کے لیے ذمہ دار قرار دیا ہے ، اس لیے ان دو فوجی افسران پر مقدمہ چلانا نہایت آسان ہے کیونکہ یہی دونوں حرکۃ المفسدین کی اس کارروائی کے ماسٹرمائنڈ تھے ۔ اس کے برعکس بعض قانونی مشیروں کی راے یہ تھی کہ اس کی راہ میں ریاست کی اعتباری شخصیت کا حجاب حائل ہے ۔ انھوں نے واضح کیا کہ اسی وجہ سے بین الاقوامی فوج داری عدالت کے منشور میں ابھی تک “جارحیت” کے جرم کی تعریف شامل نہیں کی گئی کیونکہ جارحیت بطور ریاست کے فعل کے اور جارحیت بطور فرد کے جرم کے ، دو الگ افعال ہیں ۔ انھوں نے مزید بتایا کہ عدالتِ انصاف نے فساد گڑھ نامی شخص کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے جس کا وجود کرنل چنگیز اور میجر ہلاکو سے الگ ہے اور اسی وجہ سے ان کی ذمہ داریاں بھی الگ ہیں ۔ ایک وزیر صاحب نے غصےمیں آکر کہا کہ یہ ساری محض قانونی موشگافیاں ہیں ؛ ہم جانتے ہیں کہ یہی دونوں ماسٹرمائنڈ ہیں ! قانونی مشیروں نے کہاکہ ہم وہ جانتے ہیں جو ہمیں نظر آتا ہے لیکن قانون اسے اس لیے نہیں جانتا کہ یہ قانون کو نظر نہیں آتا کیونکہ قانون کے لیے یہ افراد ریاست کی اعتباری شخصیت کے حجاب کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں !

Facebook Comments

محمد مشتاق
قانون کے پروفیسر ہیں اور قانون اسلامی میں دسترس رکھتے ہیں۔ آپ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے بطور پروفیسر وابستہ ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply