پہلے پارے کا خلاصہ

اس پارے میں دو سورتیں ہیں سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ کی 141 آیات۔ سورۃ الفاتحہ اگرچہ نزولی اعتبار سے بعد میں آتی ہے لیکن ترتیب کے اعتبار سے قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ہے۔ سورۃ الفاتحہ کی بے انتہا فضیلت ہے، مفسرین نے اس کے 36 نام بتائے ہیں ۔ یہ وہ واحد سورت ہے جس کی فضیلت اللہ تعالی نے خود قرآن کریم میں بیان کی ہے۔ ارشاد ہے *ولقد آتیناک سبعا من المثانی والقرآن العظیم* اس آیت میں سورۃ الفاتحہ کو بار بار پڑھنے والی سات آیات کہا گیا ہے۔ اس سورت میں اللہ تبارک وتعالی نے اپنا تعارف کروایا ہے، اور اس کے لیے اپنی صفت رحمت کو خاص طور سے استعمال کیا ہے۔ یہ سورت ایک بھرپور دعا ہے، اس کے آخری حصے میں مومنین کو خصوصی طور پر دعا سکھائی گئی ہے۔ یہ دعا سب سے زیادہ نفع بخش ہے اس کے ذریعے اس چیز کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ مانگنے والی چیزوں میں سب سے اہم چیز ہدایت ہے۔ اس راستے کی طرف ہدایت جو اللہ تعالی تک پہنچا دے، وہ جو نیک اور متقی لوگوں کا راستہ ہے۔
اس سورت میں انسان اللہ تعالی سے یہ دعا کرتا ہے کہ مجھے وہ ہدایت دے جو مجھے سیدھا راستہ بتا دے۔ اس درخواست کے جواب میں اللہ تعالی اپنی پوری کتاب قرآن کریم ہمیں عطا فرماتے ہیں۔ اسی چیز سے سورۃ بقرہ شروع ہوتی ہے۔ سورۃ البقرہ پہلی سورت ہے جو پوری مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ اس سورت کا آغاز مومنین کے تعارف سے کیا گیا ہے کہ وہی اس کتاب سے ہدایت حاصل کرتے ہیں، اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ ہدایت اور تقویٰ کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان ہر اس چیز پر ایمان لائے جو محمد علیہ الصلاۃ والسلام پر نازل کی گئی، اور وہ دو صورتوں میں ہے: قرآن اور سنت۔ پھر ان ہدایت یافتہ لوگوں کی صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، کتب اللہ پر ایمان لاتے ہیں، اور آخرت پر یقین رکھتے ہین۔ جو یہ شرائط پوری کرے گا وہی ہدایت یافتہ ہوگا اور وہی کامیاب ہوگا۔
اس کے بعد دوسرے گروہ یعنی کفار کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر تیسرے گروہ منافقین کا ذکر ہے جو ایمان اور کفر کے درمیان میں رہتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کے ایمان کا انکار کرتے ہیں کیونکہ ان کا اعتقاد اور عمل ایک جیسا نہیں ہے، ان کے قول اور فعل میں تضاد ہے۔ اسلام، دین اور مسلمانوں کا مذاق اڑانا منافقت کی سب سے بڑی نشانی بتائی گئی ہے۔ ساتھ ساتھ مثالوں سے منافقین کا حال ظاہر کیا گیا ہے۔
پھر اللہ تعالی تمام انسانیت سے خطاب کرکے اپنی عبادت کی طرف بلاتے ہیں، اپنی پہچان کے لئے اپنی قدرت کی بعض نشانیوں کا ذکر کرتےہیں۔ پھر اپنی کتاب کی ثقاہت اور authenticity کو چیلنج کے ذریعہ سے واضح کرتے ہیں۔
اس سب کے بعد کافروں کو جہنم کی وعید اور مسلمانوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے نیز جنت کا مختصر تعارف کروایا گیا ہے۔ کفار، منافقین اور مومنین کے بعد ایک اور گروہ فاسفین کا ذکر کیا گیا ہے جن کی سب سے بڑی خصوصیت یہ بتائی ہے کہ وہ اللہ سے کیے ہوئے وعدے توڑتے ہیں اور قطع رحمی کرتے ہیں۔
اس کے بعد انسانیت کے آغاز اور تخلیق آدم کے بارے میں کلام کیا گیا ہے اس ضمن میں حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش اور ان کو اپنا خلیفہ بنانے اور اس سلسلے میں فرشتوں اور آدم کے امتحان کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اللہ کے حکم سے فرشتوں نے حضرت آدم کو سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا جس کی وجہ سے وہ راندہء درگاہ ہوا پھر اس نے آدمی کو طرح طرح سے بہکانا شروع کیا یہاں تک کہ آدم علیہ السلام سے نادانستہ طور پر بھول ہوگئی اور وہ جنت سے زمین پر اتار دیے گئے۔ پھر اللہ تعالی سے نے انہوں نے توبہ کی جو قبول ہوگئی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ انسان کو پیدا ہی دنیا کے لیے کیا گیا تھا، جنت میں صرف امتحان کی غرض سے آدم علیہ السلام کو رکھا تھا، اور یہ بتانا مقصود تھا کہ اگر نافرمانی کی تو جنت نہیں ملے گی۔
تمام انسانوں سے خطاب اور تخلیق آدم کے ذکر کے بعد اللہ تعالی بنی اسرائیل سے مفصل خطاب کرتے ہیں اور حضرت موسی السلام کے واقعات بیان کرتے ہیں۔ سب سے پہلے انہیں ایمان کی طرف بلایا گیا اور دین کی کے چیدہ چیدہ نکات کا ذکر کیا گیا، آخرت سے ڈرایا گیا کہ وہاں کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا اس کے بعد ان نعمتوں کو بیان کیا گیا جو اللہ تعالی نے ان کو دی تھیں شاید کہ وہ ایمان لے آئیں۔ خصوصی طور پر اس واقعہ کا ذکر ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور پر گئے تو ان کی غیر موجودگی میں ان کی قوم نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا پھر بھی اللہ تعالی نے ان کو معاف فرما دیا اور ان کو من و سلویٰ کی نعمت عطا فرمائی، بارہ قبیلوں کے لیے بارہ چشمے معجزانہ طور پر جاری فرمائے لیکن یہ نہایت ناشکری سرکش اور گستاخ قوم ثابت ہوئے اور نتیجتا عذاب میں گرفتار ہوئے۔ درمیان میں عمومی طور پر ان چیزوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن کا اللہ تعالی نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا اور اس لیے ذکر کیا گیا ہے تاکہ ہم بھی اس پر عمل کریں، ان میں ایک اللہ کی عبادت، والدین سے حسن سلوک اور اس کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں سے اچھا سلوک، لوگوں سے اچھی اور بھلی بات کرنا، نماز قائم کرنا اور زکوۃ ادا کرنا ہے۔ اس طرح ان کی اس غلط فہمی کی بھی تردید کی گئی کہ جنت میں صرف یہودی اور عیسائی جائیں گے۔ بلکہ جس کسی نے بھی اللہ کے لئے اپنا چہرہ جھکا دیا اور نیکی کرتا چلا گیا، اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آیا تو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور وہ ہر قسم کے خوف اور غم سے آزاد ہوگا۔ مختلف فرقے اور لوگ ایک دوسرے کو گمراہ قرار دیتے رہتے ہیں، لیکن اللہ تعالی نے واضح کردیا کہ اس کا فیصلہ صرف اللہ کرے گا کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر ہے۔ کسی قوم میں ہونا کوئی کامیابی کی نشانی نہیں ہے۔
اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظمت کا ذکر ہے کہ وہ اپنے رب کی ہر آزمائش میں کامیاب ہوئے، اور انعام کے طور پر انہیں سب لوگوں کا پیشوا بنایا گیا۔ پھر اللہ نے ان کے اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ہاتھوں خانہ کعبہ کی تعمیر کروائی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ ان کی اولاد میں ایسا نبی پیدا ہو جو ساری دنیا کو ہدایت دے۔ یہ بشارت ہمارے نبی حضرت محمد علیہ السلام کے ظہور سے قبول ہوئی۔ ہمارے نبی علیہ الصلاۃ والسلام سارے عالم کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے اور آپ کے ذریعے ساری دنیا کو ہدایت ملی۔
آخر میں پھر اس بات کی تردید کردی گئی کہ آباء واجداد پر فخر کرنے سے کوئی جنت میں نہیں جائے گا بلکہ ہر کسی کا عمل اس کے ساتھ ہے۔ ہر کوئی اپنا حساب خود دے گا اور کسی سے کسی اور کے عمل کا حساب نہیں لیا جائے گا۔ چناچہ اللہ کے دین کو اپنا لو، اللہ کے دین سے اچھا اور کیا ہوسکتا ہے۔ دوسروں کے عمل پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے انسان کو وہی کچھ ملے گا جو اس نے کمایا۔ حسب نسب کوئی فائدہ نہیں دے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply