بکاؤ مال/ ڈاکٹر نویدؔخالد تارڑ

باہر گلی میں ایک پھیری والا آواز لگا رہا ہے۔
“تازہ مکھن صرف 450 روپے کلو ، دیسی مکھن صرف450روپے کلو۔”

کیا خالص مکھن ساڑھے چار سو میں مل سکتا ہے ؟ بالکل نہیں!

لیکن اگر اس سے پوچھا جائے تو وہ قسمیں کھانے پہ بھی تیار ہو جائے گا کہ یہ بالکل خالص مکھن ہے، اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں۔
وہ قسم مکھن کے لیے نہیں کھا رہا ہو گا ، ہمارے لیے کھا رہا ہو گا تاکہ ہم سے وہ ساڑھے چار سو وصول کر سکے۔ اس نے اپنے ایمان ، اپنے کھرے پن کی قیمت ساڑھے چار سو مقرر کر رکھی ہے۔ کیوں کہ اس کی پہنچ ہی اتنی ہے ، وہ اسی ساڑھے چار سو کو اپنی حد سمجھتے ہوئے اس کے لیے ہر جھوٹ بولنے کو تیار ہو گا۔

لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جنھوں نے اپنے ایمان کی ، اپنے سچ اپنے کھرے پن کی قیمت نہیں مقرر کر رکھی ؟ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم اپنی حد بڑی سمجھتے ہیں ، ہماری پہنچ آگے تک ہے تو ہم نے اپنی قیمت بڑھا کر طے کر رکھی ہے۔ کوئی چار ہزار کے لیے ہر طرح کا جھوٹ بولنے کے لیے تیار ہو جائے گا اور کوئی چار لاکھ یا چار کروڑ کے لیے۔ لیکن ہم سب اپنی بولی لگا کر بکاؤ مال ہی تو بنے بیٹھے ہیں۔ ہمارا کھرا پن ، ہماری دیانت داری کہاں ہے ؟

کوئی اپنی پچاس ہزار کی نوکری بچانے کے لیے اپنے باس کو خوش کرنے کی کوشش میں جھوٹ بولتا رہتا ہے۔ کوئی جاب میں کام چوری اور کاہلی پہ پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹ اور فریب کا سہارا لے رہا ہوتا ہے۔ کسی کو کروڑوں کی ڈیل پہ اپنا ایمان ڈگمگاتا محسوس ہوتا ہے۔

دراصل ہم سب نے اپنی قیمت طے کر رکھی ہے، اس قیمت سے پہلے تک ہم سب سچے ہوتے ہیں ، کھرے ہوتے ہیں ، دیانت دار ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی بات ہماری مقرر کردہ قیمت تک پہنچتی ہے ، ہم جھجکتے ہوئے یا بلاجھجھک اپنا سودا طے کر لیتے ہیں ، مکر و فریب کا جال بچھا کر فائدہ لینے پہ تیار ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو اس قیمت کے بعد بھی اپنا آپ بیچنے پہ تیار نہیں ہوتے  ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اصل دیانت داری تو یہی ہے کہ ہم اپنی قیمت پہ پہنچ کر بھی اپنا آپ بیچنے پہ تیار نہ ہوں، کھرا پن تو یہی ہے۔ اسی کھرے پن کو ، اسی دیانت داری کو انمول کہا جاتا ہے۔ لیکن ہم اپنے گریبان میں جھانک کر اپنا محاسبہ کریں تو شاید آنکھیں کھلی رہ جائیں کہ ہم بھی تو انمول نہیں ، ہم بھی تو بکاؤ مال ہی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply