خدا اور ابلیس سے یاری

عربوں کے ثقافتی تہوار، خوشی و غمی کو منانے کے انداز اور میلوں میں دور جاہلیت سے پہلے اور اسلام کے آنے کے بعد کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں ؟؟؟
خلافت راشدہ کے دور میں کتنے باقی رہے اور کتنے اسی انداز میں منائے جاتے رہے ؟ اگر اسلام کی بدولت اٹھنے بیٹھنے کے انداز سے لے کر حکومت کرنے کے معاملات تک میں تبدیلی آئی ہے تو اس کا مطلب ہے یہ جو بھی تبدیلی آئی وہ اسلامی ثقافت کے زیر اثر آئی۔۔ مسجد و مینار ثقافتی شعار کہلائے ، حجاب پہچان بنا، الغرض خوشی اور غمی منانے کے انداز تک مختلف ہوگئے۔۔ یعنی خدا زندگی کے ہر گوشے میں نظر آنے لگا۔ اب اگر کوئی اصرار کرے ہم اپنے ثقافتی تہواروں کو اسی انداز میں جاری رکھیں گے چاہے اس سے ابلیس سے رشتہ مضبوط ہوتا ہو۔۔۔۔ ہاں آپ ثقافتی رقص کیجئے ، دھمالیں ڈالیے جو جی میں آئے کیجئے لیکن اسے قال اللہ اور قال رسول اللہ کا لبادہ مت اوڑھائیے، اور تو اور اسی کی بنیاد پر جنتوں کی بشارتیں مت دیں۔۔ اسلام بہت واضح ہے۔۔ اپنے دل کی کجی کو ظاہر کریں ، بے باکی سے اقرار کیجیے اور جاہلی اقدار کو ڈنکے کی چوٹ پر اپنایئے لیکن اسلام کو مشکوک مت بنائے، خدا کو مسجد میں خوش کرکے اور زندگی کے ہرگوشے سے نکال باہر کرنے کے نام کو کم از کم اسلام سے مت جوڑیے۔۔ راجہ داہر سندھ دھرتی کی ثقافت کا ہیرو ہے تو اسی کے ساتھ حشر میں حساب کی تمنا کیجیے۔۔۔ یہ طرز عمل چھوڑ دیجئے۔۔۔ ابلیس سے بھی ناتا نہ ٹوٹے اور خدا سے بھی یاری رہے!!!

Facebook Comments

عبداللہ اشفاق
اٹلی کی جامعہ پولیٹیکنیک میں شعبہ انجینئرنگ اینڈ مینیجمنٹ میں ماسٹرز کے لئے زیر تعلیم ہوں، این ای ڈی یونیورسٹی سے مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ معاشرے اور خصوصا" پاکستان کے سماج کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے منزل کی تلاش ہے۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply