انسانم آرزوست مصنف ڈاکٹر محمد امین/مرتب سخاوت حسین(مجلس13)

ابوالحسن، نے آنکھ کھولی اور یوں گویا ہوا۔مسافر تم کہاں تھے۔یہاں تین صدیاں بیت گئیں اور میں تمہاری راہ تکتے بوڑھا ہو گیا۔ ابوالحسن عجیب ماجرا ہے۔میں دریا عبور کرنے کے لئے کشتی میں سوار ہوا کہ کشتی الٹ گئی۔میں ایک انجانی دنیا میں پہنچ گیا۔اور وہاں ہزار برس زندہ رہا۔پھر میں نے کیا دیکھا کہ میں دریا کے کنارے بے سدھ پڑا ہوں۔عجیب معاملہ ہے۔وہاں دس صدیاں گزر گئیں۔یہاں تین صدیاں گزر رہی ہیں۔اور مجھے ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے چند لمحے گزرے ہوں۔ مسافر، سن جب تو دریا کے کنارے کھڑا ہوتا ہے۔تو تجھے وقت لمحوں میں گزرتا محسوس ہوتا ہے۔جب تو دریا میں اترتا ہے تو صدیاں گزر جاتی ہیں۔کہ وقت بہتا دریا ہے۔جو کبھی تیرے اندر بہتا ہے۔اور کبھی تیرے باہر۔مسافر، تیرا دوست دانش ور کہاں ہے۔ ابوالحسن، دانش ور شہر گیا ہے۔ ابھی آتا ہو گا۔ ہاں دانش ور تم ا گئے۔کیا خبر لائے ہو۔ابوالحسن، شہر میں افراتفری کا عالم ہے۔نفسانفسی ہے۔ہر شخص دوسرے کو قتل کر رہا ہے۔اور لوگ پوچھتے پھرتے ہیں کہ قاتل کون ہے؟ دابش ور! سن، انسان نے اپنی حفاظت کے لئے ریاست بنائی ہے۔ ریاست پر حکومت غالب آ گئی ہے۔اور اب حکومت پر ادارے غالب آ گئے ہیں۔یہ ادارے ہی انسان کے دشمن ہیں۔اداروں کے بنائے ہوئے قوانین انسان کے دشمن ہیں۔اور دانش ور سن! ایسے میں جمہوریت ہے سود ہے۔ لیکن انسان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں۔ رات گہری ہو گئی اور مجلس برخاست ہوئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply