کنچے ۔۔۔۔۔۔ مبشر علی زیدی

کل ڈالر ٹری گیا تو وہاں شیشے کے کنچے دیکھ کر آنکھیں جھلملا گئیں۔ ماضی کی یادوں نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ حقیقت کی دنیا میں واپس آنے میں کچھ دیر لگی۔ دقّت بھی ہوئی۔
ڈالر ٹری امریکا میں ایک اسٹور چین ہے۔ یہاں ہر مال ایک ڈالر ملتا ہے۔ آپ نے الف لیلوی کہانیوں میں اشرفیوں کی تھیلی کا ذکر سنا ہوگا۔ مجھے ایک ڈالر میں کنچوں کی تھیلی مل گئی۔
میں نے ستر اور اسی کی دہائی کے سنگم پر خانیوال میں ہوش سنبھالا تھا۔ ایک چھوٹے سے قصبہ نما شہر میں تفریح کے زیادہ ذرائع دستیاب نہیں تھے۔ کرکٹ کبھی کبھار کھیلی جاتی تھی۔ میری عمر کے بچے پٹھو گرم، اشٹاپو، کوکلا چھپاتی، آنکھ مچولی اور گلی ڈنڈا کھیلتے تھے۔ ذرا بڑے لڑکوں کی جیب میں کنچے بھرے ہوتے تھے۔
کنچے کھیلنے کا طریقہ یہ تھا کہ سب لڑکے ایک ایک یا دو دو کنچے جمع کراتے اور سب کی باری طے کی جاتی۔ زمین میں ایک سوراخ کیا جاتا جسے پلہ کہتے تھے۔ پہلی باری والا لڑکا ذرا فاصلے سے پلے کی طرف کنچے پھینکتا۔ پلے میں جانے والے کنچے اس کے ہوجاتے۔
پھر ایک کنچے کی طرف اشارہ کیا جاتا کہ اس کا نشانہ لو۔ جس کا نشانہ لگ جاتا، سارے کنچے اس کے ہوجاتے۔ نشانہ نہ لگتا تو دوسرے کی باری آجاتی۔ نشانہ غلط لگتا تو پلے کے کنچوں سے ہاتھ دھونا پڑتا بلکہ جرمانے میں ایک کنچہ دینا پڑتا۔
ہدف مشکل ہوتا تو سیانے لڑکے پلے کے کنچے اٹھاکر باری سے دستبردار ہوجاتے تھے۔
بعض لڑکے یہی کھیل اخروٹوں کے ساتھ بھی کھیلتے تھے۔ ماہر کھلاڑیوں کے پاس نشانہ لگانے کے لیے کئی طرح کے کنچے اور اخروٹ ہوتے تھے۔ کئی بڑے، کئی درمیانے اور ایک آدھ چھوٹے سائز کے۔
مجھے نشانہ بازی کا کھیل پسند تھا۔ میرا نشانہ بھی بہت اچھا تھا۔ امی پہلے تو کنچے کھیلنے سے منع کرتی تھیں لیکن بعد میں یہ کہہ کر اجازت دے دی کہ شرط لگاکر مت کھیلنا۔
ہمارے گھر کے پاس میدے کی دکان تھی۔ نام اس کا حمید تھا لیکن سب اسے میدا کہتے تھے۔ وہاں سے چار آنے کی چار گولیاں ملتی تھیں۔ لفظ کنچہ میں نے کراچی آکر سیکھا جہاں تیس بتیس سال کے قیام میں کسی کو کنچے کھیلتے نہیں دیکھا۔ خانیوال میں سب انھیں گولیاں کہتے تھے۔
خانیوال میں ہم اپنی نانی کے گھر میں رہتے تھے۔ یہ بلاک 14 میں عین سڑک پر واقع تھا اور علاقے کے سب سے بوسیدہ مکانوں میں سے ایک تھا۔ دوسرے مکانوں کے سامنے پتھر یا سیمنٹ کے فرش تھے۔ اس گھر کے سامنے کا حصہ کچا تھا۔ لڑکے دوپہر میں وہاں جمع ہوتے اور گولیاں کھیلتے۔ ظاہر ہے کہ ان کی زبان عامیانہ تھی اور گالم گلوچ کھیل کا حصہ۔ جمعہ کو چھٹی کے دن باہر شور مچتا تو بابا باہر نکل کر کھلاڑیوں کی طبیعت فریش کردیتے تھے۔
اس گھر کے ایک کمرے میں پتا نہیں کیوں آتش دان تھا۔ وہاں کبھی لکڑیاں نہیں جلائی گئیں۔ اس کے دہانے پر لکڑی کے دو پٹ لگے تھے اور ان کی کنڈی پر تالا پڑا تھا۔ ایک دن امی نے بتایا کہ وہ اپنے بچپن میں اس جگہ کو اپنے کھلونے وغیرہ رکھنے کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ اسے برسوں پہلے تالا لگایا اور چابی کھو گئی۔
ہم نے وہ گھر چھوڑ کے کراچی آنے کا فیصلہ کیا تو امی نے تالا توڑ دیا۔ اندر سے ان کی گلک، کئی کھلونے اور دو بہت خوبصورت نارنجی کنچے نکلے۔ میں نے آج تک ویسے انوکھے کنچے نہیں دیکھے۔
مجھے یاد ہے کہ میں وہ کنچے لے کر ایک پڑوسی کے گھر گیا تو اس نے بہانے سے وہ لے لیے اور ہمارے کراچی آنے تک واپس نہیں کیے۔ مجھے ان سے محرومی کا ہمیشہ افسوس رہا۔
ڈالر ٹری سے کنچے خرید کر گھر لایا تو بیوی بچے حیران ہوئے۔ میں نے انھیں بتایا کہ کنچے کیسے کھیلتے جاتے ہیں۔ پھر ایک کنچہ پھینک کر دوسرے سے اس کا نشانہ لیا۔ ہدف پر کنچہ لگا تو بیوی بچے حیرت سے چلا اٹھے۔
بیٹے نے کنچے سمیٹ کر کہا، آئیں ہم بھی کھیلتے ہیں۔ میں نے آنکھیں صاف کرکے کہا، کل دن میں کھیلیں گے۔ رات کو مجھے دھندلا دکھائی دیتا ہے۔

Facebook Comments

مبشر علی زیدی
سنجیدہ چہرے اور شرارتی آنکھوں والے مبشر زیدی سو لفظوں میں کتاب کا علم سمو دینے کا ہنر جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply