غلط رویوں کی حوصلہ شکنی کریں /ڈاکٹر نوید خالد تارڑ 

غلط رویوں کو، انسانی فطرت کے برخلاف رویوں کو گلوریفائی کرنا بند کریں۔جائز رویوں اور شرعی حدود میں رہتے ہوئے کیے جانے والے سب کاموں پہ اعتراض کرنا بند کریں۔جوانی میں وقتی سطحی جذباتیت کو محبت کہہ کر دوسروں کو یا اپنے آپ کو نقصان پہنچانا باعثِ شرم ہے، باعثِ تعظیم نہیں۔جوانی میں بیوہ ہونے پہ کسی خاتون کا ساری عمر دوبارہ بلاوجہ شادی نہ کرنا، اس کی زندگی مشکل بناتا ہے، عظیم نہیں بناتا۔ماں کے مرنے پہ باپ کی شادی کروانے میں اگر کوئی حرج نہیں تو باپ کے مرنے پہ ماں کی شادی کروانے میں بھی کیا  حرج  ہے؟۔کسی بوڑھے مرد یا عورت کا کسی بھی مناسب عمر کے فرد سے شادی کر لینا جائز فطری اور شرعی رویہ ہے، اس میں کچھ بھی باعثِ شرم نہیں۔والدین کے کہنے پہ کچھ بھی غلط کرنا ، اپنی بیوی یا کسی اور فرد پہ ظلم کرنا والدین کی فرمانبرداری نہیں،جرم ہے۔ظلم پہ احتجاج کرنے کے بجائے خاموش ہو جانا فخر کی نہیں، شرم کی بات ہے۔ظالم سسرال میں صرف معاشرے کی وجہ سے گزارا کرنے والی خاتون کی تعریف نہ کریں ، اسے بتائیں کہ زندگی میں اس کے پاس اور رستے بھی ہیں۔طلاق کسی بھی شادی شدہ مرد یا عورت کا جائز اور شرعی حق ہے۔ طلاق لینے والے کو بلاوجہ لعن طعن کرنا بند کریں۔برے رشتے میں گھٹ گھٹ کر جینے کی نسبت طلاق لے کر علیحدہ ہو جانا بہتر عمل ہے۔ گھٹ گھٹ کر جینے کی پذیرائی کرنا چھوڑ دیں۔

جن کی اولاد نہیں ہو رہی، ان سے اولاد کے متعلق پوچھ پوچھ کر ان کا جینا اجیرن مت کریں۔بچے اگر اپنی عمر سے زیادہ سنجیدگی دکھائیں تو یہ قابلِ تشویش بات ہے، قابلِ خوشی نہیں ۔اگر وہ کھیلنے کی عمر میں کھیل میں دلچسپی لینے کے بجائے نصابی یا اسلامی کتابوں کو رٹے لگاتے رہیں تو یہ ابنارمل رویہ ہے، اس کی حوصلہ افزائی مت کریں۔خوشی کے موقع پہ خوش ہونے کے بجائے دوسروں کی خوشی میں بھی رکاوٹ پیدا کرنا غلط رویہ اور نفسیاتی مسئلہ ہے۔مذہب کے نام پہ دوسروں کی بلاوجہ زندگی اجیرن کرنے کی کوشش کرنا یا ان کی خوشیوں میں کڑواہٹ پیدا کرنا ناجائز ہے۔سچ کے نام پہ دوسروں کو بلاوجہ تکلیف پہنچانا، کڑوی باتیں سنانا باعثِ شرم ہے۔سفارش کے ذریعے آپ کا کام کر دینے والا ہر فرد کرپٹ ہے، مجرم ہے۔ چاہے وہ منسٹر ہو، بیوروکریٹ ہو یا کوئی بھی اور غیر ضروری طور پہ اپنے گھر والوں کے لیے اپنی جوانی برباد کرنے والا انسان باعثِ فخر نہیں۔

مسلسل اداس رہنا، سنجیدہ رہنا، ماضی پہ کڑھتے رہنا، بلاوجہ اعتراضات کرتے رہنا غیر فطری اور ابنارمل رویہ ہے۔اپنے بچوں کا جائز حق بلاوجہ اپنے رشتہ داروں یا دوسروں کو کھلا دینے والا سخی نہیں، بیوقوف ہے۔

معاشرے کا مثبت حصہ بنانے کے بجائے اپنے بچوں کو لکیر کا فقیر بنانے والوں کی تعریف کرنا بند کریں چاہے وہ لکیر کا فقیر مذہبی ہی کیوں نہ ہو۔

کھیلنے کی عمر میں کسی بچے کا شہادت کی آرزو کرنا، فوجی بن کر جنگ و جدل کرنے کی خواہش رکھنا غیر فطری پرتشدد رویہ ہے۔چھوٹے بچوں کا دوسرے رنگ روپ، فرقوں یا مذاہب کے لوگوں سے نفرت کرنا ان کی تربیت کے غلط ہونے کی علامت ہے۔کسی شوہر کا اپنی بیوی کو خود اخراجات دینے کے بجائے اپنی تنخواہ ماں باپ کے حوالے کر کے، بیوی کو ان سے پیسے لینے کا کہنا غلط ہے۔

دوسروں کی نرمی یا رحم دلی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ان کی تعریف کرنا غلط ہے۔کسی کو پسند کرنے کے بعد اس کو زبردستی خود کو پسند کرنے پہ مجبور کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے۔ایسا غریب جو محنت کر کے اپنا رزق بڑھانے کی کوئی کوشش نہیں کرتا اور تنگی میں صبر شکر سے رہنے کو ترجیح دیتا ہے، تعریف یا توصیف کے قابل نہیں بلکہ سست اور کاہل ہے۔اس کی کاہلی کو صبر شکر کہہ کر اسے اچھا سمجھنا بند کریں۔

کسی لڑکی یا لڑکے کا والدین کی پسند سے شادی کرنے سے انکار اس کا جائز حق ہے۔والدین کی ایموشنل بلیک میلنگ پہ بچوں کا خاموشی سے شادی پہ راضی ہو جانا، ان کی زندگی پہ ظلم ہے۔والدین کا اور بچوں کا یہ رویہ غلط ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

زندگی کے کسی بھی میدان میں ناکامی بھی زندگی کا حصہ ہے۔ کھیل میں، تعلیم میں، کام میں، رشتوں میں ناکامی کو کھلے دل سے تسلیم کریں۔ ناکام ہونے والوں کی حوصلہ افزائی کریں ان کا جینا اجیرن نہ کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply