اماں کو بچھڑے گیارہ سال ہو چلے مگر آج بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہیں کہیں بیٹھی پیاز چھیل رہی ہو ں گی۔ ماں نے جب دل کی بھڑاس نکالنے کو رونا ہوتا تو وہ پیاز چھیلنے بیٹھ جاتیں۔ نہ پیاز کی پرتیں کھلنا کم پڑتیں نہ آنسو۔ شاید پرانے زمانے کی باہمت خواتین ایسے ہی بہانے سے رویا کرتی تھیں وگرنہ زمانے کو کیا جواب دیتیں۔اس وقت مجھے کوفت ہوا کرتی کہ اماں نے پیاز چھیلنا ہے تو کچن میں جا کر چھیلیں ہماری آنکھوں کو تو معاف رکھیں۔ جب جب یوں کہتا تو اماں بولتی ” مجھ سے اکیلے بیٹھے نہیں چھیلا جاتا” ۔ اب لگتا ہے وہ یہ کہنا چاہتی تھیں کہ مجھ سے اکیلے نہیں رویا جاتا۔
اماں کو بچھڑے دہائی سے زائد عرصہ بیت چلا اور اب پیاز ہی زندگی میں رہ گیا ہے۔ میں پیاز میں زندگی بسر کر رہا ہوں۔ اس معاشرے کی پڑتیں کھلتی جاتی ہیں اور آنسو بہے جاتے ہیں۔ ہر پرت کے نیچے ویسی ہی ایک پرت ملتی ہے فرق محض ساخت کا ہوتا ہے۔ یہ معاشرہ جس میں مجھے جذبات کے اظہار کا اذن ملا ،اوّل نمبر کا منافق معاشرہ ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ نگلا بھی نہیں جاتا اور اُگلا بھی نہیں جاتا ۔
اماں کو شوگر کا مرض تب لاحق ہوا جب نانی انتقال کر گئی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 1992 کی ایک سرد رات ٹیلی فون کال پر میرے والد کو نانی کے انتقال کی خبر ملی۔ ابا نے آدھی رات کو ہمیں نیند سے جگایا اور بنا کچھ بتائے تیار ہونے کا کہا۔ اماں گھبرا گئی تو ابا نے کہا کہ ماں جی کی طبیعت خراب ہوئی ہے ہسپتال داخل ہیں فکر نہ کرو سفر کی تیاری کرو۔ وہ رات اماں نے سفر میں روتے گزار دی اور جب میکے پہنچ کر منظر دیکھا تو تین دن صدمے سے کومے میں رہیں ۔ ایک طرف ننھیال میں جنازے کی فکر تھی اور دوسری طرف اماں گھر میں بیہوش پڑی تھی۔ صبح و شام ڈاکٹر آتا اور ڈرپ بدل جاتا۔ میں اماں کی چارپائی کے ساتھ ٹیک لگائے دن رات گزارتا رہا۔ تین دن بعد اماں کو ہوش تو آ گیا مگر اس دن کے کچھ عرصے بعد جب میں سکول سے واپس آیا تو اماں کو تھر تھر کانپتا دیکھا۔ جیسے تیسے کر کے ہسپتال پہنچایا تو انکشاف ہوا کہ شوگر لیول خطرناک حد تک گر چکا ہے۔
1992 سے 2010 تک اماں نے یہ سارے سال بطور سائنس ٹیچر سرکاری سکول میں نوکری کرتے گزارے۔ میں سکول کالج سے گھر آتا تو اماں بھی تب اسی وقت گھر پہنچتی۔ اس کے بعد گھر کی صفائی ستھرائی، کھانا بنانے اور مجھے پڑھانے میں مغرب ہو جاتی۔ پھر رات کے کھانے کی تیاری اور برتنوں کی دھلائی وغیرہ وغیرہ۔ رات دس بجے سارے کاموں سے فارغ ہو کر بستر نصیب ہوتا۔ اس ساری مصروفیت اور انتھک مشقت کی وجہ سے شوگر اگنور ہوتی رہی اور پھر 2008 میں معلوم پڑا کہ کہ اماں کے دونوں گردے ہائی شوگر لیول کی وجہ سے جواب دے چکے ہیں۔ نوبت ڈائلاسس پر پہنچی مگر اماں نے اس دردناک پراسس سے انکار کر دیا۔ جیسے تیسے کر کے منا کر زبردستی کر کے ڈائلاسس کے ساتھ ایک سال گزرا اور پھر ہسپتال میں 12 دنوں کے لمبے کومے میں ہارٹ اٹیک سے ان کا انتقال ہو گیا۔
اماں کو میں نے خود قبر میں اتارا اور خود ہاتھوں سے مٹی برابر کی۔ اماں کی اس ساری مشقت بھری زندگی میں انٹرٹینمنٹ یا میں تھا یا پی ٹی وی پر اصغر ندیم سید کے لکھے گئے ڈرامے جیسے ہوائیں، نجات، غلام گردش۔ اماں ان کی فین تھیں۔ میں نے جب یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا تو اصغر ندیم سید صاحب میرے کولیگ تھے۔ ہم دوپہروں کا کھانا میرے آفس میں مل کر کھایا کرتے اور حالات حاضرہ پر بات ہوتی رہتی۔ ایک دن میں نے ان سے کہا ” شاہ جی میری اماں آپ کے ڈراموں کی فین تھیں” ۔ شاہ جی مسکرائے اور بولے ” ویکھ لے سوہنیا، میں اس اماں دے پتر دے کم دا فین آں” یہ ان کا میرے لئے نکلا جملہ میرے لئے اعزاز تھا۔ کاش میں اماں کو یہ بتا سکتا کہ شاید تھکی ہوئی روح سن کر مسکرا دیتی۔
مڈل کلاس گھر میں ایک الماری ایسی ضرور ہوتی ہے جو ماں کے جہیز میں آئی ہوتی ہے۔ اس الماری کے ایک خانے میں دنیا جہاں کے پیپرز ماں محفوظ رکھتی تھی سوائے نیوز پیپر کے۔ جب شیشے صاف کرنے کی باری آتی تو ماں کہتی “جا ذرا ساتھ والوں سے پرانی اخبار تو لے کر آ” ۔۔۔ اس الماری میں سے ایک دن میری مڈل کلاس کی ڈیٹ شیٹ نکلی ۔۔۔ میں نے ماں کو کہا کہ “امی یہ آخر کیوں سنبھال کر رکھی ہے اس کی اب کیا ضرورت ؟” ماں کا جواب آیا “کیا پتا کونسا کاغذ کب کام آ جائے ، تجھے کیا مسئلہ ہے” ۔
میں نے چار سال قبل اپنا گھر بدلا تو ماں کے جہیز کی وہ الماری جو دیمک سے اتنی بوسیدہ ہو چکی تھی کہ ذرا سا ہلانے جلانے پر خدشہ پیدا ہونے لگتا مبادا کہیں جھڑ کر اوپر ہی نہ آن پڑے ۔ بڑے بوجھل دل کے ساتھ وہ الماری کسی کو دان کر دی ۔۔۔ نئے گھر میں نئی الماری میں اب میں وہ کاغذ بھی سنبھال کر رکھتا ہوں جس میں میری مڈل کلاس کی ڈیٹ شیٹ سمیت وہ پرچیاں بھی شامل ہیں جن میں سن 1984 میں مجھے لگنے والے حفاظتی ٹیکوں کی تفصیلات موجود ہیں جب میں دو سال کا بچہ ہوتا تھا۔۔۔ اور جب جب میں نے ان کاغذات کو تلف کرنے کی ہمت پکڑی تب تب مرحومہ ماں کا چہرہ دکھی لہجے کے ساتھ سامنے آن کھڑا ہوتا اور کانوں میں ماں کی آواز آنے لگتی “تجھے کیا پتا ، پتا نہیں کونسا کاغذ کب کام آ جائے”۔۔۔
نوٹ: یہ تصویر میری چھٹی سالگرہ کے موقع پر ماں کے ساتھ لی گئی۔ مجھے بچپن سے فوجی بننے کی خواہش تھی اس لئے اماں نے وردی پہنا دی تھی۔ کچھ ہوش سنبھالا تو میں ضد کرنے لگا کہ مجھے کیڈٹ سکول میں جانا ہے۔ مجھے یاد ہے اماں نے ایک رات مجھے سلاتے ہوئے کہا تھا “بیٹا ، میں نہیں چاہتی تو کسی بھی ایسے پیشے سے منسلک ہو جہاں کسی بھی وجہ سے کسی بھی انسان کی جان لینا پڑ جائے۔ بیٹا، دشمن کی بھی ماں تو ہوتی ہے”۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں